کرتار پور کوریڈور، ایک عرض تمنا۔


کرتار پور کوریڈور کا افتتاح 9 نومبر 2019 کو ہوا تھا۔ گویا 9 نومبر اس کی ”سالگرہ“ کا دن ہے۔ یاد رہے کہ علامہ اقبال کی پیدائش کا دن بھی یہی ہے اور شہر بھی سیالکوٹ کا جو کرتار پور کے ضلع نارووال کا ہمسایہ ضلع ہے۔

اس کے افتتاح کے دن سے اس کے بارے میں ہمیں زیادہ تر خبریں بھارتی یو ٹیوبرز کی طرف سے ہی مل رہی ہیں۔ تقریباً تمام معروف اور غیر معروف بھارتی ولوگرز یہاں کا دورہ کر چکے ہیں اور اپنی اپنی وڈیوز کے ذریعے اس کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔ انہی ولوگوز سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق پاکستان کی طرف سے جانے والے پاکستانی شہریوں اور سیاحوں کو کیمرے اور موبائل فونز اندر لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ سمجھ میں نہ آنے والی پابندی ہے۔

جب بھارتی شہری فون اور کیمرے لا سکتے ہیں تو پاکستانی شہریوں پر یہ پابندی کیوں؟ پاکستانی شہری بھارتی شہریوں سے اپنی تصاویر بنواتے ہیں اور پھر ان کو اپنے موبائل نمبر دے کر آتے ہیں تا کہ یہ تصاویر ان کو بھیجی جا سکیں۔ اگر اس میں کوئی سیکورٹی ایشو نہیں ہے تو پاکستانی شہریوں اور ولوگرز کو بھی موبائل اور کیمرے لے جانے کی اجازت دے دینی چاہیے۔

تمام بھارتی یو ٹیوبرز اپنی اپنی وڈیوز میں بھرپور طریقے سے پاکستان کے مثبت امیج کو اجاگر کرتے ہیں۔ اگر پاکستانی یو ٹیوبرز کو بھی اجازت دے دی جائے تو ان کی بنائی گئی وڈیوز بھی یقیناً پاکستان کے امیج کو بیرونی دنیا میں بہتر کرنے میں ممدو معاون ہوں گی۔

ایک پابندی یہ بھی ہے کہ صرف وہ بھارتی شہری کوریڈور کے ذریعے آ سکتے ہیں جن کے پاس پاسپورٹ ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ پابندی بھی ناروا ہے۔ وہ لوگ جن کے پاس پاسپورٹ نہیں ہے اور وہ بوجہ کمزور معاشی حالات پاسپورٹ بنوانے سے قاصر ہیں، دل تو ان کا بھی کرتا ہوگا۔ گویا اس پابندی نے ایک خاص طبقے کو اس کی زیارت سے محروم کر دیا ہے۔ اس پابندی کو ختم کر دینا چاہیے تا کہ عام لوگ بھی اس کی زیارت کر سکیں۔

انہی وڈیوز کے ذریعے ہمیں یہ خبر بھی ملتی ہے کہ یہاں آنے والے ہر بھارتی شہری کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے بھی پلائے جاتے ہیں۔ استفسار پر بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں پولیو کا وائرس موجود ہے، اس لئے احتیاطی تدابیر کے طور پر ایسا کرنا ضروری ہے۔ ہمیں جلد سے جلد پاکستان سے پولیو کے وائرس کے خاتمے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں تا کہ ملک کی بدنامی کم سے کم ہو۔

اس کوریڈور کی سالگرہ سے چند دن پہلے پاکستان نے گوردوارے کا انتظام پاکستانی سکھ کمیونٹی سے واپس لے لیا ہے۔ اب اس کا انتظام پاکستانی حکام کے پاس ہے۔ بھارتی میڈیا نے اس حوالے سے پاکستان کے خلاف حسب معمول کافی پروپیگنڈا کیا ہے۔ حکومت پاکستان کو اس کے جواب میں اس انتظامی تبدیلی کی وضاحت ضرور کرنی چاہیے کہ اس کی ضرورت کیوں پڑی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).