علامہ اقبال ایک آفاقی شاعر


شاعر بے مثل، فلسفی شاعر، شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا آج یوم ولادت تزک و احتشام سے تو نہیں البتہ سادگی سے منایا جا رہا ہے۔ اقبال جو ایک آفاقی شاعر تھا جس نے خواب غفلت میں گم ایک بے آواز قوم کو ایک واضح نظریہ اور سمت دی۔ تحریک آزادی پاکستان میں اقبال کا کردار اس کی ولولہ انگیز اور انقلابی شاعری سے مترشح ہے۔ جو روشنی کا ایک منارہ ہے۔ مگر افسوس ہم نے اقبال کی شاعری کو سمجھنے، اس پر عمل کرنے یا اس سے رہنمائی لینے کی بجائے اس شاعری کو قوالوں کے سپرد کر دیا ہے۔ ہم اچھے سروں پر گائے جانے والے کلام اقبال پر سر تو دھنتے ہیں۔ مگر اس سے کوئی رہنمائی نہیں لیتے۔ اقبال کتنا بڑا شاعر ہے اس کا تعین شاید ابھی نہیں ہو سکا۔ وہ مستقبل کا شاعر ہے۔ ایران میں اقبال پر زیادہ کام ہوا ہے کہ اس کا زیادہ پر مغز اور اثر انگیز کلام فارسی میں ہے۔ جبکہ ہم نے فارسی کو مدت سی اپنی درسی کتابوں سے نکال دیا ہوا ہے۔ اقبال اپنے بارے میں فرماتے ہیں۔

اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے

اقبال نے گل و بلبل کی شاعری نہیں کی۔ محبوب کے فراق میں آنسو نہیں بہائے بلکہ قرآن و حدیث کی روشنی میں مسلمانوں کو ایک واضح پیغام دیا جو بیداری کا پیغام تھا جو خودی کا پیغام تھا۔ آج ہر آدمی بڑے عہدوں اور چودھراہٹ کے پیچھے بھاگتا ہے۔ اس میں بسا اوقات اصولوں پر سودے بازی، ضمیر کی خلش اور سچائی کا گلا گھوٹنا پڑتا ہے۔ مگر اقبال کیا خوبصورت بات کہہ گئے

کسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے

بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے

اقبال اپنی شاعری میں عمومی طور پر خودی، شاہین، عشق وغیرہ کو personify کرتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ

کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا ہے جس کا تو اک ٹوٹا ہوا تارا

تجھے اس قوم نے پالا آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سر دارا

اور کہیں کہتا ہے۔
اگر جواں ہوں میری قوم کے جسور و غیور
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں

اور پھر کہا
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پر اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

اور پھر
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

اور پھر کہیں خودی کا درس اس طرح دیا۔
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر

اور پھر
بے خبر! تو جوہر آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے

اقبال کو نوجوانوں سے خاصی محبت تھی۔ طالب علموں کے نام اپنے پیغام میں کچھ یوں فرماتے ہیں۔
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں

اور پھر اپنے جذبہ عشق کو اس طرح آواز دی۔
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنون میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزدان چاک

اقبال خودی کا درس دیتے ہوئے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے خصوصاً اس کا ہدف مسلمان قوم اور اس کا نوجوان طبقہ ہے۔ وہ مسلمانوں کو منافقت اور ریاکاری سے پاک ایک اعلٰی و ارفٰع مقام پر دیکھنا چاہتا ہے جہاں اس کی تابناکی اور درخشندگی ہر طرف روشنی بکھیرتی نظر آئے اور مسلمان زوال سے بام عروج کا سفر نہایت تمکنت اور تابندگی سے اس طرح طے کرے کہ چہار عالم میں ان کی ہیبت اور دھاک بیٹھ جائے۔ علامہ اقبال مسلمانوں کو جھنجھوڑتے ہوئے کہتے ہیں۔

کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل
کہتا ہے کون اسے مسلماں کی موت مر

اور پھر اقبال خودی کا درس اس طرح دیتا ہے کہ تمام ریاکاریاں اور فریب کاریاں معدوم ہو جاتی ہیں۔
یہ ذکر نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سجود
تیری خودی کے نگہبان نہیں تو کچھ بھی نہیں

اقبال ایک سچا عاشق رسول ﷺ تھا۔ اسی عشق کی بدولت انہوں نے روحانیت میں بھی ایک خاص مقام پایا۔
کی محمد ﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

اور پھر
محمد ﷺ کی غلامی ہے سند آزاد ہونے کی
خدا کے دامن توحید میں آباد ہونے کی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).