نائجیریا میں بود و باش


پلیٹو ہوٹل میں گزرا وقت ہماری زندگی کے بہترین ایام تھے۔ ہوٹل میں ایک روز ایک پاکستانی فیملی ملنے کے لئے آئی۔ اسلم آرائیں صاحب ایک سول انجینئر تھے جو کچھ عرصہ سے جاس میں رہ رہے تھے۔ بڑے خوش مزاج، فن گفتگو سے روشناس ایک پر کشش شخصیت کے مالک۔ پہلی ملاقات ہی دوستی کی بنیاد بنی۔ اسلم صاحب صاف گو اور انتہائی مخلص انسان تھے جو کہ وہاں کے قیام میں قریب ترین ساتھی رہے۔ ہوٹل سے رخصت ہوتے وقت اپنے ہاں آنے کی دعوت دی اور کہہ گئے کہ ویک اینڈ پر ہم خود آپ کو لے لیں گے۔

اسلم آرائیں صاحب جمعہ کے روز ہمیں لینے کے لئے ہوٹل پہنچ گئے۔ اسلم صاحب کا گھر ہوٹل سے تیس کلو میٹر کے فاصلے پر تھا اس وقت تک ان کی فیملی مختصر سی تھی یعنی بیگم اور ایک سالہ وقاص۔ ان کے گھر میں گپ شپ کے علاوہ کارڈز کھیلنے میں کافی وقت گزرتا یا ہم پکنک کا پروگرام بنا لیتے یا کسی پاکستانی فیملی کو وزٹ کر لیتے اور یوں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلتا کہ ویک اینڈ اختتام کو پہنچتا۔ جاس میں ہم جتنا عرصہ رہے ویک اینڈ اسی طرح گزرتے رہے۔

یوں تو ہوٹل میں وقت بہت اچھا گزر رہا تھا مگر بیگم صاحبہ شاید یکسانیت سے اکتا گئیں تھیں اس لیے گھر لینے کی تگ و دو شروع کر دی۔ بصد مشکل گھر الاٹ کروایا اور تقریباً ڈھائی ماہ ہوٹل میں قیام کے بعد ہم گھر میں شفٹ ہوئے۔ ایک کمپاونڈ میں چند گھر بنے ہوئے تھے جہاں ہماری ہمسائیگی میں چند اور پاکستانی آرمی افسروں بھی رہتے تھے۔ دوسرے افسروں ملٹری ہاسپیٹل میں پوسٹڈ تھے جب کہ میں انفینٹری بٹالین میں آر ایم او تھا۔

نائجیریا میں ہمارا قیام دلچسپ اور پر لطف ہونے کے علاوہ مہماتی اور زندگی کی گہما گہمیوں سے بھر پور رہا شروع شروع میں تو عجیب سا لگا مگر گزرتے وقت کے ساتھ کچھ بھی مختلف نہ رہا بلکہ محسوس ہوتا تھا کہ ہم بھی انہی میں سے ہیں۔ یہاں کی زندگی اور کلچر سادگی کا نمونہ تھا۔ عزت اور محبت کرنے والے لوگوں کا دوستانہ طرز عمل عملی طور پر وہاں کے ماحول میں رچ بس جانے میں معاون رہا۔ یہاں کے لوگ انتہائی سیدھے اور سادگی پسند ہیں۔

بازار میں ایک شخص بھنڈیاں بیچ رہا تھا۔ پانچ پانچ بھنڈیوں کی الگ الگ ڈھیریاں لگا رکھی تھیں۔ کل بھنڈیاں کچھ زیادہ نہ تھیں۔ ہم نے کہا ساری دے دو تو اس نے انکار کر دیا کہ ساری آپ کو دے دوں تو میں کیا بیچوں گا۔ ہم نے ایسا لطیفہ تو سن رکھا تھا مگر ہمارے ساتھ حقیقت میں ایسا ہوا۔ کسی چیز کے اہتمام نہ کرنے کو بھی ہم سادگی کا نام ہی دیں گے۔ نماز کا وقت جہاں بھی ہو جائے وہیں نماز کی نیت باندھ لیتے۔ جانماز مل جائے تو ٹھیک ورنہ اخبار یا کوئی کاغذ وغیرہ آگے رکھتے اور نماز ادا کر لیتے۔ ناپ تول میں کمی یا ملاوٹ کا کوئی تصور نہ تھا۔ تھان سے کپڑا ناپ سے کافی زیادہ اتارتے۔ کھانے کی ہر چیز خالص بیچتے۔

ان کی سادگی کا ایک انداز یہ تھا کہ اکثر سرکاری ملازمین مہینے کے ابتدائی دس بارہ روز میں بے جا اخراجات کرنے کے بعد مہینے کا بیشتر حصہ کسمپرسی کی حالت میں گزارتے۔ ایک دفعہ میرا آفس اردلی مسٹر اوچو گھر سے بہت خوش آیا اتنا خوش کہ باقاعدہ ہنس رہا تھا۔ پوچھا تو بتانے لگا کہ فصل بیچنے کا وقت آ گیا تھا اور میرے پاس بیج کے لئے رقم نہیں تھی۔ میرے رشتہ داروں نے مجھے بہت پیسے دیے ہیں اور میرا کام ہو گیا۔ اپنے رشتہ داروں کی بہت تعریف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا انہوں نے تمہاری مدد کیوں کی۔ کہنے لگا وہ بہت مہربان ہیں اور اب وہ ہر مہینے کسی غریب کی مدد کریں گے۔ مزید دو چار سوال کرنے پر مجھے سمجھ آئی کہ اس نے کمیٹی ڈالی ہے اور اس کو پہلی کمیٹی ملی۔

نائجیرین آرمی میں افسروں کو یونیفارم کے تمام آئٹمز کے علاوہ ہر مہینے واشنگ میٹیریل کے نام پر ٹائلٹ سوپ، واشنگ پوڈر، ٹشو رولز، رابن بلو اور شو پالش وغیرہ قسم کی بے شمار اشیاء فری ایشو ہوتا تھا۔ مسٹر اوچو یہ چیزیں ایشو کروا کر میری گاڑی میں رکھ دیتا۔ ایک روز کہنے لگا کہ سٹور میں افسروں کے لئے بہت اچھے امریکن جاگرز آئے ہیں آپ کے لئے لے آؤں۔ میری اجازت اور سائز پوچھ کر لینے گیا۔ لایا تو میرے پاؤں کے سائز سے بڑے تھے۔

کہنے لگا کہ اس سے چھوٹا سائز نہیں تھا۔ میں نے کہا تم پہن کر دیکھو اگر تمہارے ناپ کے ہیں تو تم لے لو۔ اسے فٹ تھے، بہت خوش ہوا اور شکریہ ادا کر کے چلا گیا۔ پانچ منٹ بعد دوبارہ آیا اور میرے پاس آ کر رونے لگا۔ استفسار کرنے پر کہنے لگا میں نے سوچا ہے کہ اتنے اچھے جاگرز میرا صاحب نہیں پہنے گا اور میں پہن لوں تو یہ مجھے گوارا نہیں۔ میں نے کہا میرے سائز کے نہیں ملے تو مجبوری ہے اس لئے تم پہن لو کوئی بات نہیں لیکن وہ نہ مانا اور جاگرز سٹور میں واپس کر دیے۔

لاگوس میں ہم نے مشاہدہ کیا کہ وہاں کی ٹریفک بہت سست رفتار تھی۔ لاگوس تقریباً 26 لاکھ ( موجودہ آبادی 90 لاکھ ) آبادی والا ایک بڑا شہر تھا۔ کشادہ سڑکوں اور بے شمار فلائی اوورز کے باوجود بہت زیادہ ٹریفک جام ہوتا تھا اور گھنٹوں لوگ ٹریفک میں پھنسے رہتے اور جب ٹریفک چلتی تو کئی کئی کلو میٹر رینگتی رہتی۔ رکتی پھر رینگتی اور یوں کئی کلو میٹر گزر جاتے۔ اس رینگنے والی ٹریفک کو انہوں نے گو سلو کا نام دے رکھا تھا۔

یوں نہ کہتے کہ ٹریفک میں پھنسا تھا، ہمیشہ کہتے میں گو سلو میں تھا۔ گو سلو والے علاقوں میں بیشمار لوگ گاڑیوں کے پاس آ کر مختلف اشیاء بیچتے۔ وہاں کھانے کی چیزوں سے لے کر الیکٹرانکس تک ہر چیز دستیاب تھی۔ چیزوں کے دام پر تکرار کرتے ہوئے بیچنے والے بہت سا فاصلہ طے کر جاتے۔ اس شاپنگ کو گو سلو شاپنگ کہا جاتا۔ ٹریفک کے مسئلے کا دلچسپ حل یہ نکالا ہوا تھا کہ ہفتہ میں تین دن طاق نمبر کی گاڑی اور تین دن جفت نمبر کی گاڑی سڑک پر لانے کی اجازت تھی۔ صاحب حیثیت لوگوں نے دو گاڑیاں رکھی تھیں ایک کا طاق نمبر اور دوسری جفت نمبر والی۔

نائجیریا میں کرپشن کا رجحان بہت زیادہ تھا۔ معاشرے کا کوئی ایسا پہلو نہ تھا جو اس عفریت کے پنجوں سے محفوظ رہا ہو۔ ہر جگہ ہر لیول کی بے ایمانی فرض سمجھ کر کی جاتی۔ چھوٹی چھوٹی تو بے شمار مثالیں ہیں مگر بڑی مثال بہت ہوش ربا تھی۔ کہا جاتا ہے کہ شروع میں آئل ایکس پورٹ کی آمدنی آئل منسٹر کے ذاتی اکاؤنٹ میں جاتی رہی۔ رشوت لئے بغیر کسی محکمے میں کوئی بھی کام نہیں ہوتا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ڈیشی کے نام پر لیں گے اور اس کو قطعاً برا نہیں سمجھا جاتا۔

بنک میں ڈرافٹ بنوانے کے لئے بھی رشوت چلتی تھی۔ ہمیں تو ہر مہینے ڈرافٹ بنوانا ہوتا تھا۔ شکر ہے کہ میری یونٹ کے افسر لیفٹیننٹ شعوا کی بیگم میرے بنک میں ہی کام کرتی تھی اس لئے مجھے آسانی سے ڈرافٹ مل جاتا تھا۔ رشوت کے لین دین میں نہایت ایمانداری کا مظاہرہ کیا جاتا۔ اگر کوئی اہلکار وعدہ کرتا کہ فلاں دن آ جائیں آپ کا کام ہو جائے گا تو یہ پکی بات ہوا کرتی کبھی بھی وعدہ خلافی کے مرتکب نہ ہوتے۔ حسب وعدہ جب اہلکار کے پاس جائیں تو وہ کام ہو جانے کی نوید سناتا اور سائل جیب سے ایک لفافہ جس میں کہ نقدی ہوتی اسے تھما دیتا جسے اہلکار شکریہ کے ساتھ قبول کرتا اور کبھی گننے کا تکلف نہ کرتا۔ اسی فئیر ڈیل کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا کام ہے جو قانون قاعدہ کے خلاف ہے تو ایسے کام کے لئے اہلکار کبھی حامی نہیں بھرتا چاہے اس کے لئے کتنی ہی بڑی پیش کش کیوں نہ کر دیں۔

بلیک میں اشیاء کی فروخت کا رجحان بہت زیادہ تھا۔ جہاں داؤ لگے مہنگے داموں چیز فروخت کر دی۔ دکاندار سے انڈے نہیں ملے تو ساتھ ہی ایک شخص قدرے زیادہ دام لے کر آپ کو انڈے فراہم کر دے گا۔ آئل ایکس پورٹ کرنے والا ملک ہونے کے باوجود اکثر فؤل سٹیشنز پر پٹرول نہ ملتا۔ شہر سے باہر نکلیں تو ڈرموں میں رکھ کر بیچ رہے ہیں۔ زیادہ دام دیں اور ٹینک بھروا لیں۔ ٹیلی فون و ڈاک کی ترسیل کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ لوکل کال کا تو تصور ہی نہ تھا اور دور کی کال ملانا بھی کار دارد۔ ہمارے ایک کولیگ انٹر نیشنل کال کرنے کے لئے 280 کلو میٹر کا سفر طے کر کے دوسرے شہر کاڈونہ جاتے تھے جہاں ایک کال آفس سے بات ہو جاتی۔ ڈاک خانے کا نظام بھی دگر گوں تھا۔ پاکستان سے خط کی ترسیل میں اوسطا تین ہفتے لگ جاتے یعنی کہ جواب وصول ہونے تک چھ ہفتے بشرطیکہ دونوں اطراف سے شخصی تساہل نہ ہو۔

جب کبھی وہاں کی مقامی آبادی میں جانے کا اتفاق ہوتا تو چھوٹے بچے ہمارے گرد جمع ہو جاتے اور دائرے میں گھومتے ہوئے آئی بو پے پے کے الفاظ گاتے اور تالیاں بجاتے۔

کسی کو کچھ نقدی دینے کو ڈیش کرنا کہا جاتا اور عرف عام میں اسے ڈیشی کہتے تھے۔ ڈیشی ایک کثیر المعانی لفظ کے طور پر استعمال ہوتا مثلاً بخشش، رشوت، انعام، ہدیہ یا نذرانہ وغیرہ۔ ڈیشی دینے اور لینے والا کوئی بھی ہو سکتا ہے بڑا چھوٹا امیر غریب افسر بالا یا ماتحت۔ از خود بھی دی جا سکتی ہے اور مانگی بھی جا سکتی ہے۔ رقم جتنی بھی ہو اس پر کوئی بحث نہیں۔

نائجیریا میں سرکاری زبان انگریزی تھی اور مقامی زبانیں بے شمار، تقریباً ہر قبیلے کی اپنی زبان تھی۔ تین قبیلے بڑے تھے۔ ہاؤسا، یوروبا اور ایبو۔ ہمارے علاقے میں ہاؤسا رائج تھی۔ پڑھے لکھے لوگ زیادہ تر انگریزی بولتے تھے۔ میری بیگم نے بھی گزارے لائق ہاؤسا سیکھ لی تھی جس کی وجہ سے خریداری میں آسانی رہتی۔ ان لوگوں کا لباس ڈھیلا ڈھالا سا تھا۔ کپڑوں میں شوخ رنگوں کا استعمال زیادہ کیا جاتا عورتیں قمیص کے ساتھ تہبند قسم کے ریپر پہنتیں اور مرد پاجامے کے ساتھ ڈھیلے بازووں والا چوغہ۔ سر کو ڈھانپنے کا رواج عورتوں اور مردوں میں یکساں تھا۔ مرد کپڑے کی ٹوپی پہنتے جو مختلف رنگوں کی کڑھائی سے مزین ہوتی۔ ہر قبیلے کی علیحدہ ڈیزائن کی ٹوپی ہوتی۔ اسی طرح خواتین بھی سر پر بڑا سا کپڑا پگڑی کی طرح باندھ رکھتیں اور مختلف قبیلوں کی خواتین کی پگڑی کا سٹائل بھی مختلف ہوتا۔

یہاں کے لوگ آم پسند نہیں کرتے جب کہ بہت سی جگہوں پر آم درختوں پر لگے ضائع ہو جاتے۔ آم کے ساتھ ان لوگوں کی بے رغبتی ہمیں بہت عجیب لگی اور ہمارا آم کھانا ان کے لئے حیرانی کا باعث تھا۔ ایک جگہ پر اچھی قسم کے آموں کے درخت تھے ہم دو تین دوست بیٹ مین کو ساتھ لے کر اتوار کو بہت سے آم لے آتے جو ہفتہ بھر کے لئے کافی ہوتے۔ منگ پھلی بہتات میں پیدا ہوتی تھی اور ارزاں بھی۔ لوگ بہت شوق سے مختلف اقسام کی مونگ پھلی کھاتے تھے مثلاً بھنی ہوئی، تلی ہوئی، ابلی ہوئی، رنگ والی، میٹھی، نمکین وغیرہ۔

مذہب کے بارے میں لوگ اتنے سنجیدہ نہیں تھے۔ آبادی کے اعتبار سے تقریباً آدھے مسلمان اور آدھے عیسائی تھے۔ زیادہ تر عیسائی آبادی ملک کے جنوبی حصہ میں تھی اور مسلمان شمال میں۔ وہاں کے مسلمان مالکی مسلک کی اقتدا کرتے ہیں۔ ہمارے گھروں کے سرونٹ کوارٹرز میں ایک ڈرائیور رہتا تھا جس کا نام محمد تھا۔ ایک روز اسے نام لے کر آواز دی تو آ کر سب سے پہلے اس نے کہا سر میں اب مسلمان نہیں ہوں اور اب میرا نام جان ہے۔ چند مہینوں بعد جب اسے جان کہہ کر آواز دی تو کہنے لگا سر میں اب مسلمان ہوں اور اب دوبارہ میرا نام محمد ہے۔

وہاں ایک نیا پیشہ دیکھنے میں آیا۔ یہ لوگ چار پانچ چھوٹی بوتلوں میں مختلف قسم کے محلول اور مختلف سائز اور شکلوں کی قینچیاں لئے پھر رہے ہوتے جیسے ہمارے ہاں مالش کرنے والے ہوتے ہیں۔ ان کا کام ہاتھوں اور پاؤں کے ناخن کاٹنا ہوتا تھا۔ کچھ محلول کاٹنے سے پہلے لگائے جاتے اور کچھ بعد میں۔ قینچیاں کچھ سیدھی کچھ گولائی میں۔ ہاتھوں کے لئے الگ پاؤں کے لئے الگ۔

شراب نوشی کا رجحان بہت عام تھا۔ خاص طور پر بیئر کے رسیا تھے۔ ملک میں 19 سٹیٹس تھیں (آج کل 36 سٹیٹس ہیں ) جن میں سے 18 سٹیٹس میں علیحدہ علیحدہ ٹریڈ نیم کے ساتھ بیئر بنتی تھی اور ہر کسی کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ اپنی سٹیٹ کی تیار کردہ بیئر پیئے۔ اتوار کے روز ہر جگہ لوگ بیٹھ کر بیئر پی رہے ہوتے تھے۔ جب کبھی ان سے بات ہوتی کہ پاکستان میں شراب نوشی پر پابندی ہے اور جو اس کا مرتکب ہو اسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے تو وہ منہ سے آوازیں نکال کر انتہائی افسوس کا اظہار کیا کرتے۔

اس معاشرے میں اپنی غلطی تسلیم کرنے کی ایک کمال کی خوبی تھی۔ کہیں اگر ٹریفک کا حادثہ ہوتا تو فریقین اپنی گاڑی سے باہر آتے اور جس کی غلطی ہوتی وہ خود ہی کہتا کہ میری غلطی ہے آپ بتائیں کہ ورکشاپ جا کر گاڑی ٹھیک کروائیں گے یا یہیں آپ کو پیسے دے دوں۔ اس کا تو مجھے ذاتی تجربہ بھی ہوا۔ آفس جاتے ہوئے ایک بھیڑ والی جگہ پر ٹیکسی ڈرائیور نے گاڑی ٹکرائی اور میری گاڑی کی ہیڈ لائٹ ٹوٹ گئی۔ ڈرائیور میرے پاس آیا اور کہنے لگا میرا قصور ہے مگر صبح کا وقت ہے میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔

آپ مجھے گھر کا پتہ دیں اور مجھے وقت بتا دیں آپ کی گاڑی کی ہیڈ لائٹ ٹھیک ہو جائے گی۔ میں نے پتہ بتا دیا اور دوپہر کو واپس لوٹا تو وہ پہلے سے ہیڈ لائٹ پکڑے گھر سے باہر میرا منتظر تھا اور اس نے لائٹ فٹ کر دی۔ جانے لگا تو میں نے آدھی رقم اسے ڈیش کر دی اور وہ بہت خوش ہوا کیونکہ وہ اس کی توقع نہیں کر رہا تھا۔

اسی دوران اللہ تعالی نے ہمیں بیٹی کی نعمت سے نوازا۔ بیٹی کا نام تقدیس خالق رکھا گیا۔ ایسے حالات میں جائنٹ فیملی سسٹم کی قدر آتی ہے۔ میں بیگم کا کس حد تک خیال رکھ سکا کچھ کہہ نہیں سکتا البتہ بیگم نے مجھے کوئی پریشانی نہیں ہونے دی کیونکہ وہاں میس بھی نہیں تھا اور نہ ہی باہر سے کھانے کی سہولت میسر تھی۔ تقدیس کے آنے سے نہ صرف پاکستانی فیمیلیز خوش تھیں بلکہ نائجیرین بھی بہت خوش ہوئے۔ اسے دیکھنے آتے اور سبھی کہتے کہ یہ ہماری نائجیرین بے بی ہے اور اس کا نک نیم مومو رکھا۔

اب بھی اسے مومو ہی کہا جاتا ہے۔ میرے سی او لیفٹیننٹ کرنل اماہابا بھی اپنی بیگم کے ساتھ مبارک دینے آئے تھے۔ کہنے لگے یہ ہماری نائجیرین بے بی ہے جب بڑی ہو گی تو اسے نائجیرین پریزیڈنٹ کے الیکشن کے لئے نامزد کریں گے۔ ان کی تواضع کے لئے ساتھ میں ہم نے سافٹ ڈرنکس رکھیں جس پر انہوں نے گلہ کیا کہ ہم نے اس خوشی کے موقع پر بیئر پینی ہے۔ میں نے معذرت کی تو انہوں نے با دل نخواستہ کوک ہی تین گنا پانی سے تحلیل کر کے پی لیا۔

سات دن بعد مومو کے سر کے بال اتارنے کا مرحلہ خاصہ کٹھن تھا کیونکہ مقامی حجام کی خدمات تو ہم خود بھی نہیں لیتے تھے۔ وہاں تمام پاکستانیوں کا ہیر کٹ ان کی بیگمات کیا کرتی تھیں۔ لہذا باربر کی سہولت نہ ہونے کی بنا پر یہ کام میں نے خود ہی کیا۔ اللہ نے مدد کی اور یہ مرحلہ بخیر و خوبی طے ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعد میں ایک دو بار کسی پاکستانی کو ایسی صورت حال پیش آئی تو انہوں نے مجھے درخواست کی کہ میں اپنا تجربہ دہراؤں۔

یہاں کا عدالتی نظام قانون کے نفاذ میں کس حد تک معاون و مدد گار تھا کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا البتہ چور اگر رنگے ہاتھوں پکڑ لیا جاتا تو ہجوم میں سے ہر شخص اس کو دھول دھپا یا چپت لگانا اپنا فرض سمجھتا۔ اس زمانے میں وہاں آرمڈ رابری کی وارداتیں بہت ہونے لگی تھیں۔ ایسے کیسز نپٹانے کے لئے سمری کورٹس بنائے گئے۔ کورٹ کی کارروائی ساحل سمندر پر ہوا کرتی۔ مختصر سے وقت میں سزائے موت کا فیصلہ سنا کر وہیں فائرنگ سکواڈ موجود ہوتا اور ساتھ ہی سزا پر عملدرآمد ہو جاتا۔
اس طریقہ کار کی وجہ سے گن پوائنٹ پر لوٹنے کی وارداتوں میں خاطر خواہ کمی ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).