بویا پیڑ ببول آم کی آس لگائے


پاکستان کی سیاست میں یوں تو غداری بغاوت کے فتووں کی کہانی بڑی پرانی ہے، اور کردار کشی اور گالم گلوچ کے قصے بھی نئے نہیں ہیں مگر ان قباحتوں کو عروج و دوام ہمارے جدید ریاست مدینہ کے روح رواں صادق و امین فرشتے وزیراعظم عمران خان صاحب کی سیاست کے پچھلے پانچ سات سالوں میں حاصل ہوا۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح سے لے کر دختر ملت شہید محترمہ بینظیر بھٹو تک پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے والی خواتین یہاں تک موجودہ وزیراعظم صاحب کی بیگمات بھی مخالفین کی جانب سے کردارکشی کا شکار رہیں، مگر محترمہ فاطمہ جناح اور شہید رانی بینظیر بھٹو کو اپنے مخالفین کی جانب سے شدید ترین اور گھٹیا ترین غیر اخلاقی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، انہیں غداری، بغاوت اور انتہائی گری ہوئی مغلظات اور کردار کشی کا بھی منہ دیکھنا پڑا۔

آج جب عمران خان صاحب برسر اقتدار ہیں اور پاکستان کو ریاست مدینہ کے طرز پہ ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی دعویداری کرتے ہیں مگر ان کا طرز عمل، طرز حکمرانی اور انداز گفتگو و سیاست ان قول و فعل کے بالکل متضاد ہے۔ خان صاحب کی سیاست سے پہلے کی زندگی پہ اگر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو شرافت، کردار کی پختگی کا کوئی پہلو ہمارے سامنے نہیں ہے، لندن کی فضاؤں میں پلے بڑھے عمران خان رشتوں کے تقدس اور اہمیت سے نابلد، نا آشنا نظر آتے ہیں، ان کے اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے خود فرمایا تھا کہ وہ اپنی بہنوں وغیرہ سے اتنا قریب نہیں رہے، اپنی جس والدہ کی یاد میں انہوں نے شوکت خانم ہسپتال بنایا ان کی تدفین میں شرکت کی سعادت سے بھی محروم رہے جبکہ ان کے آخری دیدار سے بھی محروم رہے۔

لندن کے ایام زندگی بھی کوئی قابل فخر ایام نہیں تھے سیتا وائیٹ سمیت کئی حسیناؤں کے زلفوں کے اسیر رہے، ٹیریان وائیٹ ایک امریکی عدالت کے مطابق محترم وزیر اعظم صاحب کی بائیولوجیکل دختر ہیں جو آنجہانی سیتا وائیٹ صاحبہ سے بنا شادی کیے پیدا ہوئی تھیں، مطلب غیر سیاسی زندگی ایسی قابل فخر نہیں تھی کہ جس کا تذکرہ وہ اپنی تقاریر میں فخریہ انداز سے کر سکیں۔ سیاست میں وارد ہوئے تو کرپشن، اداروں کی سیاست سے بے جا مداخلت کے خاتمے کا بیانیہ لے کر عوام کی پاس گئے۔

کئی سالوں تک یہ چورن بیچتے رہے اس دوران پاکستان آرمی، عدلیہ اور مخالف سیاستدانوں سمیت کوئی بھی ان کی شعلہ بیانیوں سے محفوظ نہیں رہا، پھر آیا 2011 جب خان صاحب کو ان اداروں نے گود لے لیا جن کے لتے اتارتے خان صاحب غلطی سے بھی نہیں چوکتے تھے۔ ان اداروں کی شہ پہ خان صاحب کرپشن کے خلاف بیانیہ لے کر میدان میں اتارے گئے اور وہیں سے سیاست میں اخلاقی دیوالیہ پن کی شروعات ہوئی۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ”چلے تھے جانب منزل، لوگ ملتے گئے کارواں بنتا گیا“ تو خان صاحب کو ہانی منزل تک پہنچنے کے لیے اپنے فکر فلسفے کے لوگ ملتے گئے اور یوں وہ میاں نواز شریف اور زرداری صاحب پہ تنقیدوں میں اتنے آگے نکل گئے کہ ایک ایسی نسل کو سیاست میں روشناس کرا بیٹھے جن کے نزدیک ماں، بہن، بیٹی، بہو، مطلب کسی رشتے کے تقدس و تکریم کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔

مخالف تو مخالف اپنا بھی کوئی اگر اختلاف رائے رکھے تو اس کی ماں، بہن، بیٹی کو سوشل میڈیا کے ننگے بازار میں کھڑا کر دیا جاتا رہا ہے، اس کا واضح ثبوت خان صاحب کی انتہائی پرانی وفادار ساتھی شیریں مزاری ہیں جن کی بیٹی اپنی ماں کے سیاسی بیانیے سے اختلاف رکھنے کی وجہ سے پی ٹی آئی کی گالم گلوچ برگیڈ کے اکثر نشانے پہ ہوتی ہیں۔ 2011 سے لے کر آج تک خان صاحب اور ان کے ساتھیوں نے سوائے نفرت اور گالم گلوچ کی سیاست کے ملک کو کچھ نہیں دیا۔ ان آٹھ نو برسوں میں عمران خان اب صرف ایک نام ہی نہیں رہا بلکہ یہ ایک رویے کی بنیاد بن چکا ہے جو نفرت، تعصب، عدم برداشت، دشنام طرازی، گالم گلوچ سے شروع ہو کر مفاد پرستی، ذاتی انا، تکبر اور گھمنڈ پر ختم ہوتا ہے۔

زبان کی کر کے مقراض اور بنا دشنام کا کاغذ
ہمارے حق میں کیا کیا آپ نے کترے ہیں گل بوٹے

ان ہی انتہائی تشویشناک اور نفرت انگیز، توہین آمیز اور اخلاق باختہ رویوں کی جھلک خان صاحب کے انداز گفتگو اور رویوں سے وزیراعظم بننے کے بعد بھی بڑی تواتر سے نظر آتی ہے، ان کے دیکھا دیکھی وزراء اور مشیران و معاونین کی فوج ظفر موج بھی اپنے لیڈر سے پیچھے نہیں رہتی، پچھلے دنوں پوری قوم سمیت دنیا بھر نے دیکھا کہ کس طرح وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور اپنی شیریں زباں سے اپنے لیڈر کے رویوں اور ذہنی پسماندگی کا اظہار کر رہے تھے، انہوں نے الفاظ کا چناؤ کرتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ یہ الفاظ ان کے سیاسی مخالفین کے ساتھ ان کی اپنی ماں بہن بیٹی بیوی دوسرے رشتے دار و عزیز و اقارب پر بھی بجلی بن کر گرے ہوں گے، گنڈاپور صاحب نے ایک بات تو بالکل ہے واضح کردی کہ پاکستانی سیاست میں غلاظت اور تعفن پی ٹی آئی کی مرہون منت ہے۔

گنڈاپور صاحب نے جس طرح انتہائی قابل احترام محترمہ مریم نواز کے بارے میں ایک جلسہ عام میں قابل نفرت اور واہیات قسم کے الفاظ استعمال کیے اور پھر ایک ناشائستہ اور نازیبا ٹویٹ میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مریم بی بی پہ انتہائی گھٹیا ریمارکس دیے وہ عمران خان صاحب اور ان کی جماعت کی ذہنی پسماندگی اور اخلاق باختگی کا واضح ثبوت ہے۔ گنڈا پور صاحب کے ایسے گرے ہوئے الفاظ سے محض ایک دن پہلے وزیراعظم عمران خان صاحب فرما رہے تھے کہ ”مریم بی بی کو ان کی فوج مخالف مہم پہ گرفتار کر لیتے مگر چونکہ ہم خواتین کا احترام کرتے ہیں اس لیے انہیں گرفتار نہیں کیا“ جبکہ اس سے پہلے وہ انہیں انتہائی تنزیہ انداز میں نانی کہہ کر بھی مخاطب کر چکے، خان صاحب کے خواتین کے احترام کا ثبوت گنڈاپور نے گلگت بلتستان میں بھرے مجمع میں دے دیا کہ ہم خواتین کا اس طرح احترام کرتے ہیں۔ وہ کیا خوب کہا ہے کسی شاعر نے کہ ”گل کترنے لگی مقراض ہوئی اب تو زباں، اور ہی تاک ہے اب، نشۂ اخلاص کہاں۔

وزیراعظم عمران خان صاحب اور ان کی جماعت اب پاکستان کی عوام اور معاشرے پہ ایک ناگوار سا بوجھ بنتی جا رہی ہے، جبکہ ان کی حکومت پہلے ہی دن بدن ملک و قوم کے لیے ایک عذاب کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے، اور اس پہ سونے پہ سہاگا سیاسی مخالفین خاص طور پہ سیاسی مخالف خواتین خان صاحب اور ان کے رفقاء کار کے تند و تیز اخلاق سے گری ہوئی تنقید اور رویوں کی زد میں ہیں جو کسی بھی اسلامی جمہوری اخلاقی اور انسانی معاشرے میں شدید ناپسندیدگی اور نفرت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔

خان صاحب کو چاہیے کہ گنڈاپور صاحب کے ان گھٹیا واہیات الفاظ پہ خود مریم نواز صاحبہ اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے معذرت کریں اور ایسے ہو اس باختہ ذہنی مریض وزیر کو اپنی کابینہ سے فوری طور برطرف کریں دوسری صورت میں گنڈاپور صاحب کے کہے الفاظ خان صاحب کی مرضی، منشا اور ایما سے کہے ہوئے الفاظ مانے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).