ٹرمپ بھائی تم بالکل ہم جیسے نکلے


بالآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور امریکی انتخابات کا نتیجہ آ گیا۔ کتنے دن ایک ہی جگہ اٹکا رہا، سب کہہ رہے تھے کہ جو بائیڈن جیت گیا ہے لیکن امریکی میڈیا نے ذمہ داری کا ثبوت دیا اور جب تک گنتی پوری نہیں ہوئی اور بائیڈن کو واضح اکثریت نہیں مل گئی یہ اعلان روکے رکھا۔ بذریعہ ڈاک آنے والے ووٹوں کو گننا ذرا زیادہ وقت لے رہا ہے۔ ٹرمپ کی بے چینی تین دن پہلے ہی شروع ہو چکی تھی۔ اور یہ قابل فہم ہے۔ وہ ڈرا ہوا ہے۔ وہ ایمپائر جو اس نے کھڑی کی تھی، اسے گرتے دیکھنا اس کی برداشت سے باہر ہے۔ وہ بڑے بڑے بول جو اس نے بولے تھے، اب کیسے کہہ دے کہ وہ ہار گیا ہے۔ امریکن عوام نے رائے دے کر اسے رد کر دیا ہے۔ حالانکہ مارجن بہت باریک ہے لیکن پھر بھی بائیڈن کو مطلوبہ الیکٹورل ووٹوں سے کچھ زیادہ ہی مل گئے۔ امریکہ کو کوئی الیکشن اتنا اہم نہیں رہا جتنا یہ ہے۔ ہر ایک کی نظر اس پر تھی۔ لوگ ٹی وی سے چپک کر بیٹھے رہے۔ دنیا سانس روکے نتائج کی منتظر تھی۔

امریکہ کی سڑکوں اور گلیوں میں لوگ نکل آئے اس فتح کا جشن منانے۔ دوسری طرف ٹرمپ کے حامی شدید غصے میں نظر آئے۔ امریکہ تقسیم ہو چکا ہے۔ دو بڑے واضح اور تقریباً ایک جیسی تعداد کے گروپس بن چکے ہیں۔ جو بائیڈن کا سب سے بڑا چیلنج اس خلیج کو کم کرنا ہوگا۔ لیکن یہ ایک انتہائی مشکل کام ہو گا کیونکہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ اسے بجھانے میں وقت بھی لگے گا اور دانائی بھی درکار ہو گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ٹرمپ اپنی شکست تسلیم کر لے گا؟

جیسا کہ امریکی روایت ہے کہ ہارنے والا پورے احترام سے ہار مانتا ہے اور خلوص کے ساتھ جیتنے والے کو مبارکباد دیتا ہے اور اپنے تعاون کی خواہش اور یقین دہانی کا وعدہ بھی کرتا ہے۔ ٹرمپ کو ہارنے کی عادت نہیں اور نہ ہی اس میں اتنا ظرف ہے کہ اپنے مقابل کو مبارکباد دے۔ وہ تو دھاندلی کے الزام لگا رہا ہے۔ اپنے ووٹ چوری ہونے کا کہہ رہا ہے۔ پتہ نہیں وہ یہ الزام اپنی حکومت پر لگا رہا ہے یا کسی محکمہ زراعت پر۔ ٹرمپ کے جانے سے کچھ ملک اسے بہت مس کریں گے۔

اس میں سر فہرست تو اسرائیل ہے۔ انہیں ٹرمپ نے بہت نوازا اور وہ جو بائیڈن کے آنے سے ناخوش ہو گا۔ ٹرمپ نے اسرائیل کو پوری طرح سپورٹ کیا۔ گولان کی متنازعہ پہاڑیوں پر اسرائیل کا قبضہ تسلیم کر لیا۔ امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ اس متنازع علاقے کو پورے طور پر اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا جائے۔ امارات اور بحرین کے ساتھ اسرائیل کے دوستانہ تعلقات کا سہرا بھی ٹرمپ کے سر ہے۔ اب اس سہرے کے کچھ پھول ضرور مرجھا جائیں گے۔

اسرائیلیوں کو ڈر ہے کہ ڈیموکریٹس کی حکومت ان کے لیے مسائل کھڑی کر سکتی ہے۔ لیکن کسی بہت بڑی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ امریکہ کی یہودی لابی اب بھی بہت پاور رکھتی ہے۔ اس کے بعد اسرائیل کے کزنز سعودی عرب، عرب امارات وغیرہ کو ٹرمپ کا بڑا آسرا تھا۔ وہ بھی اس کی کمی کو محسوس کریں گے۔ محمد بن سلمان تو بہت ہی اداس ہو جائیں گے۔ ٹرمپ نے دنیا کو حیران کیا تھا جب صدر بننے کے بعد سب سے پہلا دورہ سعودی عرب کا کیا تھا۔

سعودی اس سعادت پر بہت نازاں تھے۔ ٹرمپ کا استقبال بھی بڑا شاندار ہوا۔ وہاں ڈھیروں معاہدے ہوئے۔ اور دونوں ملک اپنے اپنے مفاد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ سعودی عرب کی بڑی کامیابی یہ تھی کہ ٹرمپ ایران کی نیوکلیر ڈیل سے باہر آ گیا۔ ٹرمپ ایم۔ بی۔ ایس کا پکا دوست بن گیا جب ترکی میں سعودی سفارت خانے میں ایک صحافی خویشگی کا بہیمانہ قتل ہوا اور امریکہ اسے پی گیا اور سعودی عرب کو بچا لیا۔ بلکہ پوری دنیا ہی چپ رہی۔

عربوں کو اب بائیڈن کے ساتھ چلنا کچھ مشکل لگے گا۔ لیکن عرب خاطر جمع رکھیں امریکا میں ان کے چاہنے والے بہت ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ شمالی کوریا کا رہنما کم جو نگ ان بھی ٹرمپ کو مس کرے گا۔ ایک لمبے عرصے تک معاشرتی تنہائی میں گزار کر ٹرمپ سے ملاقات میں امید بندھی تھی کہ دنیا کے ساتھ تعلقات بحال ہو جائیں گے۔ وہ امید اب مدھم ہو جائے گی۔ دونوں لیڈروں کی کیمسٹری بھی کچھ ایک جیسی سی ہے۔ دونوں ہی اپنے عاشق ہیں۔ ترکی کی طرف دیکھیں تو ایک اور حیرت ناک چیز سامنے آتی ہے۔

اردگان بھی ٹرمپ پر ہی تکیہ کرتے ہیں۔ حالانکہ ترکی اور سعودی عرب کی آپس میں کوئی دوستی نہیں لیکن ٹرمپ ان دونوں کو اپنے ساتھ ملا کر چلنے میں کامیاب رہا۔ اردگان نے کچھ ایسا چمتکار دکھایا کہ امریکہ نے اپنی فوج کرد علاقوں سے واپس بلا لی۔ روس کا کردار ہمیشہ کچھ مشکوک سا رہا ہے۔ وہ امریکہ کی مدد کرتے ہیں اور امریکہ پر تنقید بھی۔ کہا یہی جاتا ہے کہ پچھلے الیکشن میں روس کا کہیں نہ کہیں کوئی ہاتھ ضرور تھا۔ اس پر شور بھی بہت ہوا۔

رپورٹ بھی بنی لیکن کچھ ہوا نہیں۔ ولاڈی میر پوتن اپنی ساکھ برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ ویسے بھی انہیں اس بات کی پرواہ نہیں کہ دنیا کیا کہتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ کی ہار سے روس بھی متاثر ہو۔ یہ بھی سنا ہے کہ پوتین کو اپنی ہی مشکلات کا سامنا ہے۔ شاید اس کے پاس ٹرمپ کو مس کرنے کا وقت ہی نہ ہو۔ ویسے بھی اب روس چاہتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات اچھے رہیں۔ انڈیا کو بھی کسی حد تک مایوسی ہو گی۔ مودی اور ٹرمپ بھائی بھائی کھیل رہے تھے۔

لیکن دوسری طرف بائیڈن کے جیتنے سے کملا ہاریس وایئس پریزیڈنٹ بنتی ہے اس کا تعلق انڈیا سے ہے اور یہ بات انڈینز کے لیے باعث فخر ہونی چاہیے لیکن اپنی ٹرمپ دوستی میں وہ اس بات سے بھی کچھ زیادہ خوش نظر نہیں آتے۔ ایک بات کہی جاتی ہے ہے ریپبلیکن اچھے ہیں کیونکہ وہ جنگ نہیں کرتے۔ بات یہ ٹھیک ہے ان کے منشور میں ہے کہ کوئی جنگ شروع نہیں کریں گے لیکن پھر بش نے عراق پر حملہ کر یہ بات غلط ثابت کر دی۔ کچھ بھی ہو دنیا ٹرمپ کو مس کرے گی۔

ان کی شرلیاں اور پھلجھڑیاں جو وہ ٹیوٹر پر چھوڑتے رہے تھے اور لوگوں کی ہنسی کا سامان مہیا کرتے تھے وہ شاید اب ختم ہو جائے۔ ہر بات پر بولنا اور اپنی رائے دینا جیسے ان پر فرض تھا۔ اکثر ان کی باتیں بے تکی ہی ہوتی تھیں۔ لگ ایسا رہا ہے کہ وہ اب اپنے بیٹے کو سیاست میں لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ٹرمپ کے جانے سے شاید چین بہت خوش ہو۔ ٹرمپ نے چینیوں کا ناک میں دم کیا ہوا تھا۔ ہر وقت کی تنقید ہر وقت کے طعنے۔ کبھی چینی مال کا بایئکاٹ کبھی ان کے مال کو دو نمبر کا کہنا۔

اب چین کے صدر تو تا حیات صدر رہیں گے اور ٹرمپ صاحب چار سال بعد ہی آؤٹ ہو گئے۔ ایران میں بھی ٹرمپ کی شکست کی خوشی منائی جائے گی۔ ٹرمپ کی آئے روز دھمکیوں اور بندشوں سے ایران کے عوام اور حکومت دونون ہی نالاں ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ایرانیوں کو امید تھی کہ ٹرمپ انہیں کسی طرح اس موجودہ ریژیم سے نجات دلا دے گا۔ لیکن ٹرمپ کی باتیں صرف باتیں رہیں۔ سینکشنز لگاتا رہا اور ایرانی بددل ہوتے گئے۔ ہم کسی گنتی میں شمار تو نہیں لیکن ہمیں ٹانگ اڑانے کا شوق بہت ہے۔ ہمارے لیے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جو بائیڈن سے ہمارے اچھے تعلقات رہے ہیں اس لیے امید کی جا سکتی ہے امداد ملے گی۔ لیکن ان دنوں ہر ملک کی معیشت کرونا کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے اس لیے زیادہ امیدیں باندھنا ٹھیک نہیں۔
ٹرمپ نے کہہ دیا ہے کہ اگر تتائج ان کے خلاف آئے تو وہ قبول نہیں کریں گے اور سپریم کورٹ جائیں گے۔ شاید سول نافرمانی کی طرف بھی جائیں۔ فی الحال تو وہ گالف کھیل کر دل بہلا رہے ہیں۔ ان کا اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ ووٹوں کے ڈبے کے ڈبے غائب ہو گئے۔ ہر طرف دھاندلی ہوئی ہے۔ وہ ان نتائج کو بھی ماننے سے انکاری ہیں اور شنید ہے کہ اقتدار کی منتقلی کی تقریب میں بھی شریک نہ ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ٹرمپ کے اپنے قریبی ساتھیوں نے شکر ادا کیا ہو کہ ٹرمپ ہار گئے کیونکہ ان کے لیے بھی اب ٹرمپ کی بے تکی باتوں کا دفاع کرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ ٹرمپ کی زبان اور لہجہ دونوں غیر معیاری اور غیر اخلاقی رہا ہے۔ لیکن پھر بھی امریکی میڈیا ٹرمپ کو بہت مس کرے گا۔ اچھا شغل میلہ لگا رہتا ہے۔ ٹرمپ کی کوئی نہ کوئی بات کو لے کر۔ اب میڈیا کو اصلی مسائل پر بور قسم کی گفتگو کرنی پڑے گی۔ ریٹینگ پر اثر پڑے گا۔ لوگ نیوز چینلز چھوڑ کر نیٹ فلیکس دیکھنے لگیں گے۔ جو بھی ہو, ٹرمپ یاد ضرور آئیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).