گھاتک (THE SNIPER): ایک فضائی مسافت کی داستان


نیویارک، امریکہ کے جے ایف کے ائرپورٹ پر کاؤنٹر کلرک من پریت کور، ہمارے کاغذات کی پڑتال کرتی تھی۔ عملے کا ایک غول دور کھلکھلاتا گزرا تو ہم نے اسے فضائی میزبانوں کی پچھلی قطار میں کولہے گھماتے جہاز کی طرف جاتا دیکھا۔ یہ وہ لمحہ تھا کہ ہمارا حال بھی بھارت کے نامور پینٹر ایف ایم کا سا ہوا۔ انہوں نے فلم ہم آپ کے ہیں کون“ میں کھڑکی والا جامنی بلاؤز پہن کر وسیم اکرم کی ریورس سوئنگ کی طرح دیدی تیرا دیور دیوانہ والے گیت پر کولہے گھماتی مادھوری ڈکشٹ کو دیکھا تو دل اور برش دونوں بے قابو ہو گئے۔ اس ایک واردات کی وجہ سے مقبول فدا حسین المعروف بہ ایم ایف حسین نے ہندوستان کا آرٹ سین بدل ڈالا۔ خو کو بھی ایم کی رعایت سے مادھوری کا فین حسین کہلانے لگے تھے۔ اسی لپک جھپک میں فلم گج گامنی بنا ڈالی۔

یہ فلم مادھوری، ہتھنیوں اور فلم بیں شائقین کسی کو بھی پسند نہ آئی۔ بھارتی معیار حسن پر ہتھنی کی چال کو بہت مست مانا جاتا ہے۔ گج گامنی کا مطلب ایسی حسینہ جو ہتھنی کی طرح مست ہو کر چلتی ہو۔ من پریت کور نے ساتھ کھڑے ہربنس سنگھ سے جب پنجابی بولی ہمارے بھی حوصلے بڑھ گئے۔ ہم نے روایتی بزدلی چھوڑ کر پنجابی زبان میں کووڈ کے حوالے سے چند دستاویزی تسلیاں مانگیں۔ ہمارے منھ سے نیویارک میں غیر متوقع اور قدرے شستہ لہجے میں پنجابی سن کر اس کا چہرہ حیرت آمیز مسکراہٹ سے جگمگا اٹھا۔ ہمیں بھی یوں لگا کہ دنیا بھر کے پنجابیوں نے ہم میمنوں سے کاروباری مخاصمت ختم کردی ہے۔ ہمیں اس ادائے دلبری سے چیک ان کیا کہ گمان گزرا ہیر جھنگ سے لسی کا دونا لائی ہے۔ کہنے لگی میں نوں بوتا چنگا لگدا ہے جے کوئی ماں۔بولی وچ گل کرے”۔

امریکہ دورے کے بعد خروشچیف نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا کہ امریکہ پر اللہ نے سب سے بڑی مہربانی مارلن منرو کی صورت میں کی ہے۔ جہاز میں ہمارے بزنس کلاس والے حصے میں ہمیں سیٹ تک بلما لے کر گئی۔ وہی بلما جس نے جے ایف کے کے لاؤنج میں وسیم اکرم کی ریورس سوئنگ کو دھول چٹا دی تھی۔ ہم نے بھی خروشچیف والا جملہ اس کی رعایت سے دہرایا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔

آپ کو بتائے دیتے ہیں اتنا تاریخی جملہ کہنے کی ضرورت خروشچیف کو کیوں پیش آئی تھی۔

روس کے ایک سربراہ ہوتے تھے، نکیتا خروش چیف Nikita Khrushchev۔ سن 1958 سے سن 1964 کا روس امریکا میں سرد جنگ کا گرم ترین دور تھا۔ حضرت تھے بہت ہی boorish (اجڈ)۔ جیسے ہندوستان پاکستان کے اکثر وزرائے اعظم ہوتے ہیں  Pure Street ۔ دیوی گوڈا، نرسیما راؤ، مودی کی طرح کے۔ لگتا ہی نہیں کہ لالو کھیت والوں کے محاورے میں سسری کے کہیں کھلے بندھے بھی ہیں کہ نہیں۔ اپنے والوں کا نام ڈر کے مارے نہیں لیتے۔ منصب اعلی پر فائز ہوتے ہوئے بھی گلی کی دھول نہیں جھڑتی۔ خروشچیف تو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس میں دوران خطاب بدتمیزی کی حدیں پھلانگ گئے تھے۔

امریکی صدر آئزن ہاور نے جھوٹے منھ دعوت دی تو لپک جھپک امریکہ نواز شریف کی طرح دوڑ پڑے بس نواسیاں اور گھر کی ماسیاں ساتھ نہیں لے گئے۔ کہنے لگے پندرہ دن سیر کراؤ۔ ایک دن ہالی ووڈ بھی دکھاؤ۔ ہالی ووڈ والی دعوت میں مارلن منرو کو میرے کول بٹھاؤ۔ انڈونیشیا کے صدر سوکارنو کی طرح انہیں بھی مارلن منرو بہت اچھی لگتی تھی۔ سوئکارنو تو اسے باقاعدہ طور پر اپنی پانچویں بیوی بنانے پر تلے ہوئے تھے۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنی دوسری تیسری بیوی کو بھی آف لوڈ کرنے پر تل گئے تھے۔

خروشچیف کی ضد تھی کہ 20th سینچری فوکس کی ضیافت میں مارلن کی شرکت لازم ہو۔ اسی لیے اس کا منصوبہ سی آئی اے نے ترتیب دیا۔ وہ جانتے تھے کہ 20th  سینچری فوکس کے صدر  Skourasکے علاوہ کسی اور میں یہ جرات نہ تھی کہ وہ مارلن کو اس میں عشایئے میں شرکت پر مجبور کر سکتا۔ ادھر مارلن کا حسن تغافل اس کمال کا تھا کہ وہ جانتی ہی نہ تھی کہ یہ خروش چیف کم بخت ہے کون؟

اسے سی آئی اے کہ اسٹیشن چیف نے سمجھایا کہ روس میں امریکہ کے حوالے سے صرف دو نام مشہور ہیں مارلن منرو اور کوکا کولا۔ سو کجرارے کجرارے تیرے نینا کرتی اس کی انگڑائی نہ ٹوٹے تو آ جا۔

بزنس کلاس کی کیبن میں ہم کل تین مسافر تھے اور سات کے قریب فضائی میزبان۔ جہاز کے کیبن کا منظر بھی کم روشنی والا اور سوگوار تھا

ہم تین مسافروں میں شام سات بجے کی فلائیٹ کے آغاز میں ہی امریکن جوڑے نے تو اپنا Tippler (جام شب) چڑھایا، لحاف اوڑھ سو گیا۔ جہاز میں جب تک وہ محو استراحت رہے۔ اڑان کے دوران جب بھی ہوائی تھیلی (Air-Pocket) میں جہاز نے ہچکولے لیے ہمارا دھیان عصمت چغتائی کی طرح اسی لحاف پر گیا۔

ہمارا عالم رات کی اڑان میں وہ ہوتا ہے کہ “یار کو میں نے، مجھے یار نے سونے نہ دیا”۔ بلما نے ہی ہمارا ویلکم ڈرنک فکس کیا۔ پودینہ اور لیمن۔

تعارف ہوا تو ہم نے براہ راست نام کی طرف جانے کی بجائے اس کی پھرتی اور چلت میں روانی کے حساب سے شوق اور ملک و قوم کا پوچھ لیا کہنے لگی بھرتی یونان سے ہوئی ہے مگر وطن مالوف کوسوو ہے۔ مجھے ایک تو رائفل شوٹنگ اور پیراکی کا شوق ہے۔ میری والدہ ہائی پاور رائفل شوٹنگ کی اپنی اسٹیٹ کی چیمپیئن تھیں۔ مجھے اور میری دونوں بڑی بہنوں کو ان سے وراثت میں یہ شوق بھی ملا ہے۔ میری سب سے بڑی بہن تو روس سے نشانہ بازی میں گولڈ میڈل بھی جیت چکی ہے۔

دوسری بہن بھی کوسوو کی پولیس میں شارپ شوٹر ہے۔ ہم سب کا بہت عمدہ نشانہ ہے۔ میری والدہ کو البتہ اب تک کوہ پیمائی اور Muay Thai (تھائی لینڈ کی کک باکسنگ) سے بھی شغف ہے۔ ساٹھ برس کی ہیں مگر بیلجیم کے ڈرافٹ ہارس جیسی مضبوط۔ تمہارا ہاتھ پکڑ لیں تو چھڑانا مشکل ہو جائے۔ ہم نے شرارت کی کہ ہاتھ پکڑنے پر کوئی اعتراض نہیں مگر والدہ کی عمر پر اعتراض ہے۔ ہم سے دست درازی کا فریضہ وہ اپنی پولیس والی شارپ شوٹر بہن کو سونپ دے تو ہم خوش ہو جائیں گے۔ بہت ہنسی۔ ہماری حس مزاح کی تعریف کی۔

اپنے بارے میں مزید یہ بتانے لگی کہ مجھے وائلن بجانا اچھا لگتا ہے۔ والدہ کوسووکی ہیں۔ والد یونان کے۔ اب موقع تھا کہ ہم گفتگو اس کے نام پر لے جاتے۔ کہنے لگی مجھے ہندی فلموں کے ایسے بیس گیت یاد ہیں جن میں لفظ بلما آیا ہے۔ میرے ہندوستانی ساتھی اور مسافر تک اس معاملے میں مجھے بتاتے رہتے ہیں۔ کچھ جذباتی مرد تو گا کر بھی سنا دیتے ہیں۔ خود ہی کہنے لگی میری امی کے وطن میں یہ نام عام ہے۔ اس کا مطلب My Sweat-heart ہوتا ہے، ہم نے گریز کیا کہ اسے بتا دیں کہ ترکی زبان میں اس کے نام کا مطلب شہد ہوتا ہے۔ اردو ہندی نے یہ لفظ وہیں سے اڑایا ہے۔

ہم سے بھی کئی سوال کیے جب اطمینان ہو گیا کہ ہم عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں ہمارے برے ارادے بھی ہمارے ایمان جیسے ہی ہوں گے۔ عمل کی توفیق سے بے بہرہ۔ حلیہ بھی ایسا کہ برفانی بال، سہل تبسم، دل چسپ نگاہ۔ بی۔ بی۔ پی۔ کے بانی رکن۔ بی۔ بی۔ پی۔ بولے تو بھارتیہ بکواس پارٹی۔ امریکہ کے بزنس کلاس میں پھیرے لگاتے ہیں تو اولاد کے پروردہ ہوں گے۔ مینو کا پوچھ کر چلی گئی۔

بلما جب کھانا لائی اور جس سلیقے اور ادا سے کھانے کی ٹرے رکھی تو ہم نے پہلی دفعہ نگاہ بھر دیکھا۔ عرب چالاک ہیں۔ حسین عورتوں کو فضائی میزبان نہیں بناتے۔ کوئی نہ کوئی صاحب استطاعت انہیں دوران پرواز ہی حبالہ نکاح میں باندھ لیتا ہے۔ اس کارن کمپنی کی محنت اور سرمایہ دونوں ہی ساقط ہو جاتے ہیں۔ بلما میں ایک دلربائی تھی۔ وفا کرو گے وفا کریں گے قسم کا چپ چپ سا لگاؤ۔ خود اعتمادی۔ جسم ورزشوں سے پالا ہوا۔ انداز پر اعتماد اور لب و لہجہ نیوزی لینڈ کے Manuka شہد جیسا۔ ہم نے سوچا تنہا مسافر ہیں۔ اس قطار میں ہمیں قطرہ قطرہ دلدار نظر کی شبنم کی طرح سینت کر رکھنے کا ذمہ اس کا ہے سو چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد۔

ٹرے رکھتے وقت انگریزی میں شعیب اختر والا باؤنسر مارا

In the entire universe I am jealous of just one person

سمجھ تو گئی کہ ہم نے اسے کس رولر کوسٹر پر بٹھانے کا ارادہ کیا ہے مگر مزہ لینے کہ لیے تریا چلتر (ہندی عورت کا فریب) کا سہارا لیا پوچھنے لگی وہ کون بھلا؟ رات کا ابتدائی پہر تھا اور سوال کی معنی آفرینی گالوں پر عکس مے کی سرخی بن گئی۔ ہم نے روالپنڈی ایکسپریس والا دوسرا باؤنسر مارا۔

Not so soon. This I am going to reveal when you bring me coffee which matches the color of your eyes.

کافی آئی تو چینی کا پوچھنے لگی ہم نے کہا

 You can dip your finger

ہم نے جب اس کے پوچھنے پر تقریباً سرگوشی سے کہا کہ ہم اس مرد سے حسد کریں گے جو اس کا ہاتھ تھامے گا۔ جانے ایسا کوئی ہے بھی کہ نہیں۔

رات کے اس پہر جب ماحول، خنک، اداس اور پراسرار تھا۔ اس نے اعتراف کوئی نہیں کیا کہ ایسا کوئی اس کی زندگی میں موجود ہے کہ نہیں۔ رخ پرانوار پر مگر تناؤ تھا۔ الفاظ بے ربط اور شاہراہ اضطراب پر ڈگمگاتے تھے۔ ہمیں گمان گزرا یہ صوتی مسافر خاموش فاصلوں میں گم ہوئے جاتے ہیں۔ ایسا لگا کہ اٹھلاہٹ بھرے ابتدائی تعارف میں نادانستگی میں کچھ باوردی سرنگیں بچھ گئی تھیں۔ اس کو خدشہ تھا کہ ہم جہاں بین اور باخبر ہوئے تو اس کے چلت پھرت اس کی والدہ کے ہائی پاور رائفل شوٹنگ کی کوہ پیمائی پیراکی اور Muay Thai (تھائی لینڈ کی کک باکسنگ) والے شغف سے یہ اندازہ بھی لگا لیں گے کہ یہ گھرانا اہل کوسوو کی مسلمانوں سے دشمنی کا متحرک حصہ رہا ہوگا۔ یہ خود تو کم سن ہو گی مگر باقی گھر والوں نے مسلمانوں کو گھات لگا کر گولیاں ماری ہوں گی۔ ممکن ہے ہمارا دھیان والدہ کی رائفل شوٹنگ کی وجہ سے کرووشین لیڈر رادون کاروچ کی ساتھی ہونے کی طرف چلا جائے۔ وہ قاتل انسانیت بھی ماہر نفسیات اور شاعر تھا۔ یہ لازماً طے تھا کہ اس گھرانے میں مسلمانوں سے دشمنی گہری بھی ہوگی اور اس کا ایک تاریخی حوالہ بھی ہوگا۔

1946  میں یوگوسلاویہ نے جب ایک مملکت کا روپ دھارا تو بوسنیا اور ہرزیگوینا بھی اس کا حصہ بن گئے تھے۔ جب اس مملکت میں مارشل ٹیٹو نے کمیونسٹ حکومت قائم کی تو مسلمان اپنی سماجی شناخت سے محروم کر دیے گئے۔ ان کے مدارس، درویش اسکول، عبادت گاہیں بند کردی گئیں۔ سن 1991 تک معاملات کچھ یوں ہو گئے کہ علاقے مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہو گئے۔ ایک چھوٹے سے ریجن میں بوسنیا کے مسلمان اپنی اکثریت پر یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد جب اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے تو پڑوس کی عیسائی ریاستوں کو یہ منظور نہ ہوا۔ تین برس تک ایک طویل خانہ جنگی رہی۔ بہت سے مسلمان اس خانہ جنگی میں مارے گئے۔ بلما اور اس کے والد کوسوو سے یونان آ گئے۔ ہمیں گمان ہے کہ دو بڑی بہنیں اور والدہ خانہ جنگی میں اپنے لوگوں کے شانہ بہ شانہ شریک تھیں۔

ہم سے بستر لگانے کا پوچھنے ایک دوسری فضائی میزبان آئی۔ اپنا نام کرینہ کپور بتایا۔ اس کا اور سمرتی کا احوال اگلے مضمون میں بیان کریں گے۔

کرینہ نے بتایا کہ بلما کے یہ تین گھنٹے یوگا کرنے اور آرام کرنے کے ہیں۔

بلما جب واپس آئی تو ہم سے پہلا سوال یہ کیا کہ ہم کیا کرتے ہیں۔ ہم نے کہا ہم ایک بڑے بزنس ہاؤس میں سینیئر مشیر ہیں۔ تصوف، مصوری، سیاحت اور تحریر سے واسطہ ہے۔ ہم نے اسے اپنی کتابوں کے سرورق اور دو عدد ویب سائٹ پر اپنے مضامین دکھائے تو متاثر ہو گئی۔ Lethal Mix کہہ کر ہم سے ٹی بیگ لے گئی۔ اپنی کافی اور ہماری دیسی اسٹائل کی چائے لائی اور اس وعدے پر اپنی کہانی سنائی کہ ہم اس کا اصل نام، اس کی کمپنی کا نام، اس کا مرد کے نام اور فلائٹ نمبر نہیں لکھیں گے۔ اس کے لیے ہمیں اللہ کی قسم کھلوائی۔ میں تمہیں اپنا ای میل بھی دوں گی۔ تم یہ مضمون مجھے شائع ہونے کے بعد بھیجو گے۔ ہمارے رفقا میں کئی اردو کے جاننے والے ہیں۔ میں ان سے پڑھوا لوں گی۔ اچھا ہوا تو میں حمزہ اور اس کو امی کو بھی سناؤں گی۔

بلما کی داستان یوں ہے۔

اسی برس مارچ کے آخری ایام تھے۔ کورونا کا خوف جڑ پکڑنے لگا تھا۔ ہم امریکہ آتے ہوئے ڈرتے تھے۔ میری فلائیٹ لگی تو میں نے بہت دعا کی کہ مجھے معاف کردیں۔ لاس اینجلس سے واپسی کی فلائیٹ تھی۔ خوف کی وجہ سے بہت ہی کم مسافر تھے۔ بس وہی، جو وطن واپس لوٹتے تھے۔ ہمارا جہاز کا اندرونی منظر کسی خلائی اسٹیشن کا منظر پیش کرتا تھا۔ حمزہ کی چال نڈھال اور سوئی جاگی آنکھیں بند بند ہوئی جاتی تھیں۔ میں نے اندازہ لگایا مجھ سے پورے پانچ سال چھوٹا ہو گا۔ بزنس کلاس میں آیا ہے تو مالدار کا باپ بیٹا ہوگا۔ جو قطار میری ذمہ داری تھی اسی میں K رو میں بیٹھا تھا۔ میں نے اول اول تو خود کو کوسا کہ یوں تو ہر وقت ہی موت کے منھ میں گھسی رہتی ہوں مگر کووڈ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا میرا پسندیدہ طریقہ ہلاکت نہیں۔ جی کڑا کر کے ویلکم ڈرنک کا پوچھا۔ کہنے لگا تین دن پہلے میری Appendectomy ہوئی ہے۔ ہلکا سا ڈائریا ہے۔ ہسپتال کی مرضی نہ تھی کہ میں ہوائی سفر کرتا لیکن میں نے ٹھان لی کہ اگر مرنا ہی ہے تو میں اپنے وطن میں مرنا پسند کروں گا۔ میں نے اپنی بہنوں والدہ بھائی کسی کو نہیں بتایا۔ ان کا خیال ہے میں لاس اینجلس میں ہی ہوں۔

میری تو جان ہی نکل گئی۔ جھوٹ نہ بولتا ہو۔ کہیں اسے کووڈ نہ ہو۔ جی کڑا کیا۔ اس کا بہت لالن پالن کیا۔ بہت کم گو تھا مگر بہت observant۔ میں خود بھی باتونی ہوں اسی لیے مجھے خاموش طبع لوگ اچھے نہیں لگتے۔ حمزہ کے چپ میں مگر ایک ایسی اعتماد اور رکھ رکھاؤ تھا جو مجھے اچھا لگا۔ اس کا خیال تھا کہ چند دنوں میں پروازوں پر پابندی لگ جائے گی۔ میں نے کہا اچھا ہے۔ میں اپنی Tourism Management ڈگری کی تیاریاں کر لوں گی۔ میں اور ایک یونانی لڑکی جو نرس ہے ساتھ رہتے ہیں۔ میں نے اسے علاقہ بتا دیا۔ کہنے لگا کہ میرے بڑے بھائی کی ٹریول ایجنسی اور ہوٹل ہے اور ابو سرکاری عہدے دار ہیں۔

ایسا ہوا کہ ماہ اپریل میں پروازوں اور نقل و حرکت پر پابندی لگ گئی۔ تین ہفتے گزر گئے۔ ایک دفعہ وہ مجھے یاد بھی آیا۔ میں نے سوچا شاید یہ گھر میں محصور رہنے کا نتیجہ ہے۔ مجھے اپنے وطن میں کوئی پسند تھا گو عہد و پیماں نہ تھے۔ جب ایک ماہ بعد مقامی طور پر پابندیاں نرم ہوئیں تو ہمارے کمپاؤنڈ میں ایک مرسڈیز آن کے رکی۔ میں بالکونی میں Glennon Doyle کی untamed پڑھتی تھی۔ میری چہروں کی یادداشت اچھی ہے مگر ثوب اور غترے کی وجہ سے سمجھ نہیں آیا کہ ڈرائیونگ سیٹ پر حمزہ ہے۔ پچھلی سیٹ پر سے دو خواتین اتریں اور سیدھی ہمارے بلاک میں گھس گئیں۔ گھنٹی بجی تو وہی دونوں خواتین موجود تھیں۔ بہت مہذب مگر ناقابل یقین حد تک براہ راست۔ بہت پر اعتماد۔ مشرقی حسن کا پیکر۔

بتایا کہ ہم حمزہ کی بہنیں ہیں۔ یہ تحائف آپ کے لیے ہیں۔ ابھی اسٹورز پوری طرح نہیں کھلے۔ جو اس نے بتایا وہ لیا ہے۔ آپ کی پسند نا پسند کے بارے میں فیصلہ کرنا مشکل تھا۔ اگلی باری یہ غلطیاں نہیں ہوں گی۔ سچ پوچھو تو میرے ہاتوں کے طوطے اڑ گئے۔ میں خود کو بہت با اعتماد اور دلیر سمجھتی ہوں۔ میری فلیٹ میٹ دروازے پر پیچھے ہٹ کر کھڑی تھی۔ میں یہ بھول گئی کہ انہیں اندر آنے کا کہوں۔

ہم مغرب میں پیار کے اس انداز کے عادی نہیں۔ ہمیں اچھا لگتا ہے کوئی ہم سے براہ راست اپنا رشتہ جوڑے۔ سچ پوچھیں تو میں نے صرف چاکلیٹ کا ایک ڈبہ قبول کیا۔ باقی سارا ہیمپر جوں کا توں لوٹا دیا۔ رات لیٹی تو مجھے یوں لگا کہ قدرت نے مجھ سے بہت شدید مذاق کیا ہے۔ مسلمان ملک کی ملازمت پر بھی میری بہنوں اور والدہ نے میری بہت تضحیک کی تھی۔ ہفتے بھر تک تو میری ہمت نہ پڑتی تھی کہ میں اپنے گھرانے کو یہ خبر بریک کروں۔ میری والدہ نے البتہ فیس ٹائم پر تاڑ لیا کہ میں کسی گمبھیر راز کو دامن دل میں چھپائے بیٹھی ہوں۔ بہت اصرار پر صرف اتنا بتایا کہ میں کسی کو اچھی لگی ہوں۔ اتنا جھوٹ ضرور بولا کہ وہ امریکہ کا پڑھا ہوا ہے۔ اس دوران وہ بہنیں چار دفعہ مزید آئیں۔ چوتھی دفعہ حمزہ بھی آئے تھے۔ گھر آنے کا خود کہا۔ میری دوست کالیستا کو بھی ساتھ ہی مدعو کر لیا مگر اس نے معذرت کی کہ وہ پہلے ہی سے کہیں جانے والی ہے۔

میں اپنا بیان مختصر کروں گی۔ ہم نے نکاح کر لیا ہے۔ کمپنی کو بتا دیا ہے۔ دسمبر میں میرا کنٹریکٹ پورا ہو جائے گا۔ حمزہ کی ضد تھی کہ میں مسلمان ہو جاؤں۔ میرے ابو اور میری سب سے بڑی بہن کے علاوہ میرے مسلمان ہونے پر اور عرب مسلمان سے شادی کرنے پر سب ناراض ہیں۔

رات گئے ہمارا حصہ کچھ زیادہ منور تو نہ تھا مگر اس کی آنکھوں میں ایک نمی تیرتی تھی۔ ہم نے گفتگو کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے پوچھا کہ رات کو وہ بنکر میں یوگا کرتی ہے تو کہنے لگی نہیں میں نماز پڑھتی ہوں۔ ایک سوال کا میرے دل پر بوجھ ہے۔ حمزہ سے یا اس کی فیملی سے پوچھنے کی ہمت نہیں پڑتی۔

ہم نے کہا جتنا کچھ ہم سے بن پڑے گا اس کی وضاحت کردیں گے۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ اسلام تو لے آئی۔ اللہ کے اسمائے اوصاف میں رحیم رحمان تواب غفور کا تصور بھی حمزہ نے مجھے سمجھا دیا ہے مگر میں سجدے میں یہ سوچ کر اشک بار ہوتی ہوں کہ کیا اللہ مجھے ماضی کی میری اسلام دشمنی پر معاف کردے گا۔ میری امی کی بھی مجھے اب تو بہت فکر ہوتی ہے۔ حالات ٹھیک ہوں تو میں انہیں ایتھنز یا لندن بلوا کر حمزہ سے ملواؤں گی۔ وہ بہت عمدہ انسان ہے۔ وہ اس کا ضرور شکوہ کریں گی کہ وہ مجھ سے پورے پانچ سال چھوٹا ہے۔

ہم نے اسے تین نام لکھوائے۔ خالد جن کا والد ولید اسلام کے بدترین دشمنوں میں سے تھا۔ عکرمہ جو ابوجہل کا بیٹا تھا اور ابو سفیان جس کی بہن ابولہب کی بیوی تھی۔ تینوں نے خاتم النبین محمد ﷺ کے خلاف جنگ میں شرکت کی تھی۔ ہمارے آقائے دوجہاں نے ان کو معاف کر کے گلے لگایا تو تیرے معاملات تو خالصتاً نجی ہیں۔

وہ اشکبار تھی اور ہم بھی۔ لینڈنگ کی بتیاں ابھی روشن نہیں ہوئیں تو مگر بستی کے خد و خال اسکرین پر دکھائی دے رہے تھے۔

اللہ اسے اور ہمیں دونوں کو اپنی بارگاہ رحمت میں جگہ دے۔

اقبال دیوان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 96 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan