شیوا: حیدر آباد کی ساگر حسین جھیل میں خود کشی کرنے والوں کو نئی زندگی دینے والا انڈین غوطہ خور


Shiva in the lake
شیوا کے مطابق وہ اب تک 114 جانیں بچا چکے ہیں
کئی برسوں سے شیوا انڈیا کے جنوبی شہر حیدر آباد کی حسین ساگر جھیل سے لاشیں نکالنے میں پولیس کی مدد کرتے آ رہے ہیں۔ اور پھر ایک دن انھوں نے ایک شخص کو اس وقت روکا جب وہ جھیل میں کودنے والے تھے۔ اس طرح انھوں نے پہلی مرتبہ کسی کی جان بچائی تھی۔

انڈیا میں پولیس کے پاس فنڈز اور تربیت کی کمی ہے۔ اکثر کو تیرنا ہی نہیں آتا اور نہ ہی پولیس کو پروفیشنل غوطہ خور رکھنے کے لیے فنڈز دیے گئے ہیں۔ اس لیے ایسا غیر معمولی نہیں کہ انھیں اس طرح کے غیر روایتی اور پُر خطر انتظامات پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

شیوا کہتے ہیں جب انھوں نے اپنی خدمات پیش کیں تو پولیس والے حیران رہ گئے۔ ’شروع میں انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں بہت چھوٹا ہوں۔ لیکن بعد میں، میں نے انھیں راضی کر لیا۔‘

انھیں ان کے پہلے کام کے 40 روپے ملے۔ لیکن اس وقت ان کے لیے یہ ایک اچھی خاصی رقم تھی۔

یہ بھی پڑھیے

تھائی لینڈ: غار میں پھنسے بچوں کو بچانے والا غوطہ خور ہلاک

دیو قامت جیلی فش سے غوطہ خوروں کی ملاقات

’پاکستان میں سکوبا ڈائیونگ کر لی تو باقی دنیا تو حلوہ ہے‘

یہ 20 سال پہلے کا عرصہ تھا۔ ان کی عمر 30 سال ہوچکی ہے اور اب بھی وہ مقامی پولیس کی مدد کر رہے ہیں۔

شیوا حسین ساگر جھیل کے قریب ہی رہتے ہیں، جو کہ شہر کے عین وسط میں ایک بڑی مصنوعی جھیل ہے۔ یہ ایک مشہور سیاحتی مقام ہے اور اس میں گنیشا تہوار کے دوران ہندو دیوتا کی مورتیاں بھی ڈبوئی جاتی ہیں۔

بت پانی میں بکھر جاتے ہیں اور شیوا ان میں سے لوہے کے راڈ نکال کر باہر کباڑیوں کو بیچ دیتے ہیں۔

جھیل میں گنیشا بھگوان کے مجسمے ڈبوئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بہت مشہور ہے

جھیل کی شہرت کی وجہ یہ ہے کہ اس میں گنیشا بھگوان کے مجسمے ڈبوئے جاتے ہیں

لیکن جھیل وہ جگہ بھی ہے جہاں لوگ خود کشی کرنے بھی آتے ہیں اور شیوا اکثر پانی سے لاشیں نکالنے میں پولیس کی مدد کرتے ہیں۔ کبھی کبھار وہ دوسری جھیلوں اور دریاؤں سے لاشیں نکالنے میں بھی پولیس کے کام آتے ہیں۔

لیکن حقیقت میں شیوا جھیل سے لاشیں نکالنے کے علاوہ بھی بہت کچھ کرتے ہیں۔ وہ اکثر لوگوں کو اس وقت بچا لیتے ہیں جب وہ پانی میں چھلانگ لگانے لگتے ہیں اور کبھی کبھار تو وہ پانی سے زندہ نکال لاتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں بھول گیا ہوں کہ میں نے کتنی لاشیں ڈھونڈی ہیں۔ لیکن میں نے 114 زندگیاں بچائی ہیں۔‘

اب وہ اپنی بیوی کو بھی تیراکی کی تربیت دے رہے ہیں تاکہ وہ بھی خواتین کی لاشیں نکالنے میں مدد کریں۔

ساگر حسین جھیل کے نزدیک پولیس سٹیشن پر تعینات انسپیکٹر بی دھانا لکشمی تسلیم کرتی ہیں کہ شیوا ان کی بہت مدد کرتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں اس بات کی تصدیق تو نہیں کر سکتی کہ انھوں نے ان سالوں میں کتنے لوگوں کی زندگیاں بچائی ہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ یہ سو سے زیادہ ہیں۔‘

ابھی بھی انڈیا میں خود کشی ایک جرم ہے اور شیوا جن لوگوں کو بچا لیتے ہیں وہ ان کے پولیس کو بتانے سے پہلے ہی بھاگ جاتے ہیں۔

شیوا کہتے ہیں کہ انھیں نہیں پتا کہ ان کے والدین کون تھے۔

انھوں نے اپنے بچپن کا اکثر حصہ سڑکوں پر ہی گزارا اور تھوڑے عرصے کے لیے یتیم خانے میں بھی رہے ہیں۔ ایک ایسا وقت بھی تھا جب وہ ایک عورت اور اس کے بچوں کے ساتھ بھی رہتے رہے ہیں۔ اس عورت کے بچوں میں سے ایک نے ہی شیوا کو تیراکی سکھائی اور اس ہنر نے ان کی زندگی ہی بدل دی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’گذشتہ سالوں میں انھوں نے اپنے کئی دوست نشے، بیماری، بھوک اور حادثات کی وجہ سے کھوئے ہیں۔ ’جس لڑکے نے مجھے تیراکی سکھائی، میرا بھائی لکشمن، وہ بھی حادثاتی طور پر ڈوب گیا اور ایک اور قریبی دوست کسی کو بچاتا ہوا خود موت کے منہ میں چلا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے پیاروں کو نہ بچا سکے لیکن اب وہ دوسروں کو بچا کر معاشرے میں اپنا کچھ حصہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

زندگیاں بچانے سے انھیں کبھی کبھار کچھ پیسے بھی مل جاتے ہیں۔ کبھی لوگ انھیں اپنی زندگی بچانے کے عوض کچھ پیسے دے دیتے ہیں۔ اور مقامی میڈیا میں کوریج سے تو وہ ایک مشہور شخصیت بنتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے انھیں تیلیگو فلموں میں چھوٹے موٹے کردار بھی ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ لیکن شیوا کہتے ہیں کہ وہ زندگیاں بچانے کو کوئی نوکری نہیں سمجھتے۔

حسین ساگر جھیل حیدرآباد شہر کے وسط میں مصنوئی طور پر بنائی گئی ایک بڑی جھیل ہے

حسین ساگر جھیل حیدرآباد شہر کے وسط میں مصنوئی طور پر بنائی گئی ایک بڑی جھیل ہے

وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کی خود کشیوں کا محرک اکثر امتحانوں کے دباؤ سے لے کر ناکام عشق، خاندانی جھگڑے اور اقتصادی مسائل ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کبھی عمر رسیدہ افراد اس لیے اپنے آپ کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ان کے بچے انھیں بے آسرا چھوڑ جاتے ہیں۔

حال ہی میں ایک ایسے شخص نے جھیل میں چھلانگ کر خود کشی کی جسے شک تھا کہ اسے کورونا وائرس ہے۔ اس کے پیچھے اس کے ایک دوست نے بھی اسے بچانے کے لیے چھلانگ لگائی اور ساتھ ہی شیوا نے بھی۔ لیکن شیوا صرف اس شخص کے دوست کو بچانے میں کامیاب ہو سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ مردہ شخص کے خاندان والے اس کی میت بھی لے کر نہیں گئے، انھیں ڈر تھا کہ کہیں اسے واقعی کورونا نہ ہو اور انھیں بھی لگ جائے۔

’اس لیے میں نے ہی اس کی چتا جلائی۔‘ شیوا کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک اور شخص کی جان بچائی جو کہہ رہے تھے کہ ان کے خاندان کو شک ہے کہ انھیں وائرس ہے اور اس لیے وہ ان کا خیال نہیں رکھتے۔

شیوا اپنے کام کی وجہ سے ایک مقامی سیلیبریٹی بن گئے ہیں

شیوا اپنے کام کی وجہ سے ایک مقامی سیلیبریٹی بن گئے ہیں

لیکن اپنے کام کی انھیں ایک بھاری قیمت بھی ادا کرنی پڑی رہی ہے۔ حسین ساگر جھیل بہت زیادہ آلودہ جھیل ہے اور اس میں بغیر کسی مخصوص لباس کے چھلانگ لگانے اور تیرنے سے شیوا کے جسم پر زخم بھی ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھیں ٹائیفائڈ اور دوسری دیگر بیماریاں بھی لاحق ہوئی ہیں۔

’گیئر پہننے کا وقت نہیں ہوتا۔ آپ کو تیز ردِ عمل دکھانا ہوتا ہے۔ اگر آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی چھلانگ لگا رہا ہے تو آپ کو اسی وقت چھلانگ لگانا ہوتی ہے۔‘

گرمیوں میں جھیل سے بدبو آتی ہے اور اس کے کناروں پر اکثر سانپ بھی نظر آتے ہیں، لیکن شیوا کا ابھی یہ کام ترک کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں یہیں رہنا چاہتا ہوں۔ اگر میں یہاں رہوں گا تو تب ہی میں جانیں بچا سکوں گا۔ زندگی بچانے کی تسکین سب سے اعلیٰ ہوتی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp