کفن کی بات کرتے ہو۔۔۔۔


“کالج میں پڑھنا چاہتی ہو تو برقعے کے ساتھ کفن بھی لے کر آنا”

 یہی لکھا ہے نا تم نے لوئر دیر میں لڑکیوں کے کالج کے باہر چسپاں حکم، دھمکی اور قہر میں بجھے اس کاغذ کے ٹکڑے پر!

جی چاہتا ہے یہ پوچھنے کو کہ کیا اس ڈھائی گز لٹھے کی سفید دھجی کو تم کفن کہتے ہو جس میں اپنی گونگی بہری عزت کو لپیٹ کر زمین میں دباتے ہو!

آؤ ہم بتائیں تمہیں کہ کفن ہوتا کیا ہے اور کیسے پدرسری معاشرے میں ہر عورت اپنا کفن ماں کے پیٹ سے لے کر ہی جنم لیتی ہے۔

پیٹ میں ٹھہرنے والی کا ابھی باہر کی دنیا سے رشتہ بھی نہیں قائم ہونے پاتا کہ اس تک کچھ آوازوں کی گونج پہنچ جاتی ہے۔ وارث پیدا کرنے کی ہدایت کے ساتھ دھمکی آمیز تنبیہ بھی کہ دیکھو مجھے لڑکی پیدا کر کے چوپال یا ڈیرے میں مجھ پر ٹھٹھہ مت لگوانا، قبیلے شریکے میں شرمندہ مت کروانا۔ اس دن یہ زہر بجھے الفاظ سننے والی کے دل سے جو آہ نکلتی ہے، اس سے پیٹ میں آنے والی کے کفن کی بنت کا آغاز ہوتا ہے۔

پیدا ہونے پہ باپ کے جھکے کندھے, رشتے داروں کی استہزائیہ نظریں، ٹھنڈی آہ بھر کے اللہ نصیب اچھے کرے جیسے کہے جانے والے جملے اس کفن کی بنائی میں مزید مدد کرتے ہیں۔ وہ باپ جو ڈھول تاشوں کی ہمراہی میں فضا میں رائفل بلند کر کے گولیاں چلانے کی آس لگائے بیٹھا تھا، اپنے خوابوں کی کرچیاں زچہ پہ اچھالتے پچھلی کوٹھڑی میں جا چھپتا ہے۔ ماں کے آنسوؤں سے بچی کے پہلے غسل کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کرچیاں سمیٹتی اور نوزائیدہ کو گلے سے لگاتی ماں اپنے آنسوؤں کو کرچیوں سے یوں گڈمڈ کر دیتی ہے کہ کفن پہ کچھ چمکتے دمکتے ستاروں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

پھر ایک پرخطر دور شروع ہوتا ہے جس میں ماں کی گود میں شیر خوار بچی سے لے کر گلی میں غبارہ پکڑے اور ٹافی کھاتی بچی ایسے زندگی کی پرخطر راہوں پہ سہم سہم کے چلتی ہے جیسے گھنے جنگل میں درندوں کے درمیان ایک ننھی گلہری۔ نتیجتاً کبھی زینب اپنے کفن کے ساتھ متعفن زدہ ڈھیر پہ جا لیٹتی ہے اور کبھی فرشتہ موت کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے معاشرے کے لئے سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ آخر کفن اور عورت کا سمبندھ اس قدر مضبوط کیوں ہے؟

جو بچیاں ان متعفن زدہ ڈھیروں سے بچ جاتی ہیں، سانپ کی طرح رینگتے ہاتھوں اور سرسراتی انگلیوں کے لمس سے تو وہ بھی محروم نہیں رہتیں۔ ہوس بھری گرسنہ نگاہوں سے آلودہ کفن اوڑھے زندگی کے پل صراط پہ دن تمام کرتی ہیں یہ بچیاں!

بات اب بھی نہیں ختم ہوتی!

 گھر سے باہر اپنی من مانی کرتا ہوا مرد گھر کے اندر مقید اپنی بہن بیٹی کو روایت کا چولا پہناتے ہوۓ اس کے کفن میں غیرت نامی پھندنا ٹانک دیتا ہے۔ ہم نہیں جانتے یہ غیرت کس نظریے کا نام ہے جو مرد کو کسی بے کس لڑکی کا ریپ کرنے سے تو نہیں روکتا مگر شادی کی کسی محفل میں معصوم بچیوں کا قتل محض اس بنیاد پہ جائز قرار پاتاہے کہ وہ زندگی کے اس میلے میں تالیاں کیوں پیٹتی تھیں اور بات بہ بات ہنستی کیوں تھیں۔

تیرہ برس کے ہندسے کو کیا کہوں جس کی زد میں آئی آرزو راجہ کی کہانی کی بازگشت ابھی فضا میں ہے کہ ایک اور تیرہ برس کی بچی کی داستان نے آنکھ نم کر دی۔ مہمند کی رہنے والی اس بچی کا قصور صرف اتنا تھا کہ دروازے پہ آنے والے ایک غیر مرد کو پانی پلانے کی گناہ گار ٹھہری۔ چھ ماہ تک زنجیروں میں باندھ کر زدوکوب کیے جانے پہ بچی کی آہ وبکا اہل محلہ نے سنی مگر کسی کا دل نہیں پسیجا۔ معافی کی صرف ایک صورت رکھی گئی کہ پانی پینے والا مرد اپنی بہن کی صورت میں تاوان ادا کرے۔ معاملات مرضی کے مطابق طے نہ ہونے پہ زنجیروں والی بدقسمت کو کوٹھری سے آزاد تو کر دیا گیا لیکن اگلی سکونت قبر ٹھہری۔

عصر حاضر میں کنیزوں کی خرید وفروخت نے نئی نئی جہتیں دریافت کی ہیں۔ کیا کیجیے کفن میں لپٹی ہوئی ان زندہ لاشوں کا مقصد حیات ہی یہی ہے کہ پدرسری کی توپ کا چارہ بنتی رہیں۔ کبھی کاری ہونے کی صورت میں، کبھی ونی بن کے، کبھی قران سے شادی کروا کے اور کبھی سنگسار ہونے کے بعد زمین میں دفن ہو کے۔

کس کفن کی بات کرتے ہو تم!

حقارت کا کفن

حسرتوں کا کفن!

بے چارگی کاکفن!

دل سے اٹھتی آہوں کا کفن!

پاؤں میں بیڑیاں اور ناک میں نکیل کا کفن!

آہنی دیواروں کے پیچھے گھٹی ہوئی سانسوں کا کفن!

رد کیے جانے کا کفن!

گمشدہ بچپن کا کفن!

تمہاری خواہشات کی بھینٹ چڑھنے کا کفن!

آنسوؤں، سسکیوں کا کفن!

مہر بہ لب زرد چہرے، غار سی اندھیری آنکھوں کا کفن!

تنہائی کا کفن!

روایات میں چن دیے جانے کا کفن!

تمہاری جھوٹی مردانگی و غیرت کا کفن!

تمہارے خوف، بزدلی، اور احساس کمتری کا کفن!

تمہاری سنگ دلی کا کفن!

بتاؤ مجھے ؟

میں تو ازل سے ان کفنوں میں لپٹی ہوں!

لکھ دو اپنی چٹھی میں

کونسا کفن پہن کر آؤں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).