صدر ٹرمپ نے وزیرِ دفاع مارک ایسپر کو عہدے سے ہٹا دیا


امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیرِ دفاع مارک ایسپر کو عہدے سے فارغ کر دیا ہے۔

صدر ٹرمپ نے پیر کو اپنے ایک ٹوئٹ کے ذریعے مارک ایسپر کو عہدے سے ہٹانے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ وہ ان کی خدمات کے مشکور ہیں۔

صدر ٹرمپ نے انتہائی اہم وزارت پر فائز عہدے دار کو بذریعہ ٹوئٹ ایسے موقع پر ہٹایا ہے جب اُنہیں انتخابات میں ناکامی کا چیلنج درپیش ہے۔

امریکی صدارتی انتخابات کے غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق جو بائیڈن امریکہ کے 46ویں صدر منتخب ہو گئے ہیں تاہم صدر ٹرمپ نے انتخابی ناکامی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

https://twitter.com/realDonaldTrump/status/1325859406349799424

پیر کو صدر ٹرمپ نے مارک ایسپر کو عہدے سے ہٹانے کے بعد ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ وہ کرسٹوفر سی ملر کو قائم مقام وزیرِ دفاع تعینات کرنے کا اعلان کرتے ہیں جس کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔

کرسٹوفر ملر نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں۔

توقع کی جا رہی تھی کہ مارک ایسپر انتقالِ اقتدار کے دوران اور نو منتخب صدر جو بائیڈن کی حلف برداری تک عہدے پر خدمات انجام دیتے رہیں گے۔ تاہم واشنگٹن میں گزشتہ کئی ہفتوں سے اُنہیں عہدے سے ہٹانے کی افواہیں بھی سرگرم تھیں۔

محکمۂ دفاع کے حکام نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ کی ٹوئٹ کے بعد اُن کے چیف آف اسٹاف مارک میڈیوز نے مارک ایسپر کو ایک فون کال کر کے عہدے سے ہٹانے سے متعلق آگاہ کیا۔

مارک ایسپر نے چار نومبر کو ‘ملٹری ٹائمز’ نامی ادارے کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ عہدہ چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے تاہم اُنہیں توقع ہے کہ وہ کسی بھی وقت عہدے سے ہٹا دیے جائیں گے۔

‘طالبان کو روسی انعامی رقوم ملنے سے متعلق کوئی مصدقہ انٹیلی جنس معلومات نہیں’

صدر ٹرمپ کی ٹوئٹ کے بعد مذکورہ ادارے نے پیر کی دوپہر مارک ایسپر کے اس انٹرویو کو بھی شائع کر دیا ہے۔

مارک ایسپر کا اس انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ “میں وہ کام کروں گا جو میں نے ہمیشہ کیا ہے۔ میں نے اپنے عہدے پر رہنے کے دوران اپنی حیثیت برقرار رکھی اور کسی بھی شخص کے سامنے ہاں میں ہاں نہیں ملائی۔”

مارک ایسپر کے ناقد اور بعض اوقات صدر ٹرمپ بھی اُنہیں اکثر ‘یسپر’ کے نام سے پکارتے تھے۔ غصے کا اظہار کرنے کے لیے مارک ایسپر کو یسپر کہا جاتا تھا۔

یاد رہے کہ مارک ایسپر جولائی 2019 سے امریکہ کے وزیرِ دفاع کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے اور انہیں صدر ٹرمپ نے اس عہدے پر تعینات کیا تھا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa