اقتدار کے بغیر بھی عوام کی خدمت ہو سکتی ہے


اب تو یہ گماں گزرتا ہے کہ ملک میں کوئی ایک بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں جو بڑھتی ہوئی غربت و افلاس کو روک سکے جتنی بھی جماعتیں ہیں سب اقتدار کے حصول تک محدود نظر آتی ہیں اگر یہ بات غلط ہے تو پھر اب تک یہ اقتدار میں رہنے کے باوجود عوام کو خوشحالی سے ہمکنار کیوں نہیں کر سکیں؟

ان دنوں جب حکومتی جماعت اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتیں جلسے کر رہی ہیں تو بڑا عجیب معلوم ہوتا ہے کہ یہ اب بھی عوام کو مستقبل کے خوشنما مناظر دکھا کر اقتدار حاصل کرنا چاہ رہی ہیں۔

حیرت تو یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی ’پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کے جلسوں میں لوگ بھر پور شرکت کر رہے ہیں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انہیں اب بھی ان سے کسی بہار کی امید ہے۔ دراصل لوگوں کی اکثریت کو اپنے حقوق کا علم نہیں اور انہیں یہ اندیشہ ہے کہ اہل اقتدار و اختیار ان سے چند میسر سہولتیں بھی نہ چھین لیں یہ احساس ان میں اس لئے پیدا ہوا ہے کہ اب وہ جد و جہد کی راہ سے دور جا چکے ہیں حکمرانوں نے انہیں دال روٹی کے چکر میں الجھا دیا ہے لہذا وہ حکمران طبقے پر انحصار کرنے لگے ہیں جو ان کے ساتھ جیسا بھی سلوک کرے انہیں منظور ہے وگرنہ جو صورت حال اس وقت ہے کہ کچھ بھی ٹھیک نہیں۔

اس کے پیش نظر انہیں بھر پور احتجاج کرنا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا یہ پہلو بھی اہم ہے کہ مافیاز بڑے طاقتور ہیں کہ جن کی وجہ سے حالات بگڑے ہیں اور حکومت ان کے آگے بے بس دکھائی دیتی ہے تو پھر عوام کیا کر سکتے ہیں ہاں اگر یہی سیاستدان انہیں منظم کرتے اور یہ شعور دیتے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے اٹھ کھڑے ہوں تو وہ یہ منظر تبدیل کر دیتے مگر وہ کبھی بھی ایسا نہیں کریں گے کیونکہ وہ (سیاستدان) ان کے تعاون سے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور اقتدار میں آتے ہیں لہذا یہ انہیں توانا دیکھنا چاہتے ہیں دوسرے یہ کہ حکمران و سیاستدان اگر تھوڑا بہت عوام کو کچھ دینا بھی چاہیں تو عالمی مالیاتی ادارے آڑے آ جاتے ہیں جو عوام کو آسودہ حال کبھی بھی نہیں دیکھنا چاہتے کیونکہ ان کے مفادات مسائل سے جڑے ہوتے ہیں لہذا یہ جو جلسوں میں وعدے اور دعوے کیے جا رہے ہیں سب طفل تسلیاں ہیں ملکی معیشت لرزاں ہے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہو چکا ہے دواؤں اور دیگر ضروریات زندگی کے لئے جو پیسے چاہیں وہ بھی نہیں مل رہے۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عوام یہ جانتے ہوئے بھی کہ ماضی و حال میں ان کے لئے کچھ نہیں ہو سکا ان کے نعرے لگا رہے ہیں اور یہ لوگ اتنے پتھر دل ہیں کہ ان کے ووٹوں پر نگاہ رکھتے ہوئے انہیں بیوقوف بنا رہے ہیں۔ عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ جنہیں کچھ کرنا ہے وہ کر رہے ہیں ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں۔

چند روز پہلے ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال ٹرسٹ کے سی ای او و کالم نگار شوکت ورک نے ورلڈ کالمسٹ کلب کے عہدیداران کو ہسپتال کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ سب سے پہلے انہوں نے لیبارٹری دکھائی جس میں جدید مشینری کے ساتھ ٹیسٹ کیے جاتے ہیں پھر ہسپتال کے دوسرے شعبے دکھائے گئے جو قابل ترین ڈاکٹروں کے زیر انتظام لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ہسپتال پہلے تین سو بستروں پر مشتمل تھا اب اس کو بڑھا کر پانچ سو کر دیا گیا ہے اس کے لئے آٹھ منزلہ عمارت کھڑی کر دی گئی ہے جو قریباً دو برس کے بعد مکمل ہو جائے گی اور مریضوں کے استعمال میں ہو گی۔

ڈاکٹر شوکت ورک کے مطابق یہ ہسپتال اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر ہوا اور ہو رہا ہے مخیر حضرات نے پہلے بھی تعاون کیا آئندہ بھی کریں گے کیونکہ انہیں پورا یقین ہے کہ ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال ٹرسٹ کی انتظامیہ انتہائی دیانت داری سے اپنے فرائض ادا کر رہی ہے۔ ڈاکٹر شوکت ورک نے اس موقع پر کہا کہ اس ہسپتال میں کالم نگاروں کے اہل خانہ کو علاج کے ضمن میں ساٹھ فیصد تک رعایت ہو گی جو نہیں بھی دینا چاہیں گے تو بھی ان کا علاج ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر اے کیو خان کہتے ہیں کہ ہسپتال میں جو کمرے وارڈ اور آپریشن تھیٹرز ہیں ان میں سے کوئی جتنے بھی سپانسر کر سکتا ہے وہ ضرور کرے تاکہ غریب مریضوں کو اس کا فائدہ پہنچ سکے!

اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کی خدمت بغیر اقتدار میں آئے بھی ہو سکتی ہے مگر افسوس ہمارے زیادہ تر اہل اقتدار و اختیار عوامی خدمت کے جذبے سے محروم ہیں۔ ان کے پاس لوگوں سے ٹیکسوں کا پیسا بھی ہوتا ہے اور لی گئی قرضوں کی بھاری رقوم بھی مگر عوام کو سہولتیں تب بھی نہیں ملتیں۔

بہرحال یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ سیاسی جماعتیں اور یہ نظام عوام کو ڈلیور کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں اب کوئی ایسی سیاسی جماعت وجود میں آنی چاہیے جو ہر کسی کو قابل قبول ہو اس میں شامل لوگ اپنی تجوریاں بھرنے کے بجائے ملک کا خزانہ بھرنے کی سوچ رکھتے ہوں کیونکہ موجودہ صورت حال بے حد نازک ہے لوگوں کی حالت بڑی خراب ہو چکی ہے لہذا اب سنجیدہ حلقے آگے آئیں اور غور و فکر کریں ان سیاسی جماعتوں نے عوام کو مایوس کیا ہے اس حوالے سے لوگوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ کیوں آزمائے ہوؤں کو آزمانا چاہتے ہیں انہوں نے قومی خزانے پر ہمیشہ ہاتھ صاف کیے ہیں ان پر اربوں کھربوں کے ہیر پھیر کے الزامات یونہی نہیں لگائے گئے ہیں لہذا عرض ہے کہ عوام اپنی قیادت خود کرنے کے لئے میدان عمل میں آئیں بہت دیکھ لیا ان سیاسی بہروپیوں کو ’جنہوں نے آنکھوں میں سجے خواب بکھیر دیے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).