پاکستان کے شمالی علاقاجات میں ’ایئر بی اینڈ بی‘ پر کمرے لگانے کے لیے حکومت کی مالی مدد


اگر آپ پاکستان میں سیاحت کے لیے شمالی علاقہ جات کی طرف جائیں تو اب کو ہوٹل کی ضرورت نہیں ہوگی۔ آپ کو دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ایئر بی اینڈ بی یعنی مقامی لوگوں کے گھروں میں ان کے ساتھ رہنے کا موقع بھی مل سکتا ہے یعنی آپ کو گھر سے باہر گھر میں رہنے کی سہولت دستیاب ہو سکے گی۔

اس نئے منصوبے کے تحت آپ کو صرف خوبصورت علاقے ہی نہیں بلکہ مقامی لوگوں کے ساتھ رہنے کا موقع بھی ملے گا۔ آپ ان کے بارے میں جان سکیں گے اور امید کی جا رہی ہے کہ اس طرح ایک دوسرے کے کلچر اور رہن سہن سے آگہی بھی ہو سکے گی۔

پاکستان میں پہلی مرتبہ خیبرپختونخوا کی حکومت نے ملاکنڈ ڈویژن اور ہزارہ ڈویژن میں سیاحتی مقامات پر لوگوں کے گھروں میں سیاحوں کو رہائش فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس منصوبے کے تحت مقامی لوگوں کے گھروں میں ایک یا دو کمرے سیاحوں کے لیے مختص ہوں گے جن میں تمام سہولیات دستیاب ہوں گی۔

وزیر اعظم عمران خان نے گذشتہ دنوں سوات کا دورہ کیا اور وہاں انھیں سیاحت کے فروغ کے بارے میں کیے گئے اقدامات سے آگاہ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

سیاحت کے لیے قومی رابطہ کمیٹی: ’ایک اور حکومتی کمیٹی‘ یا بڑا اقدام؟

گلگت بلتستان میں سیاحت کے لیے کورونا ٹیسٹ رپورٹ لازمی

موٹو سرنگ: ایوبیہ میں انگریز دور کی تاریخی سرنگ کی بحالی

خیبر پختونخوا کے سیکرٹری سیاحت عابد مجید نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان میں ہوٹلوں کے کمروں کی تعداد محدود ہے اور ان سیاحتی مقامات پر عام طور پر سیاحوں کی آمد کی وجہ سے لوگوں کو کمرے ملنا مشکل ہو جاتے ہیں اس لیے اب حکومت نے یہ منصوبہ بنایا ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں ایک ایسا کمرہ تیار کریں جس میں تمام سہولیات موجود ہوں اور وہ کمرہ سیاحوں کو کرائے پر دیں گے۔

اس طریقے سے مقامی لوگوں کی معیشت بہتر ہو گی اور ہوٹلوں پر جو رش بڑھ گیا اس پر قابو پایا جا سکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے تحت ایسے کمرے تیار کرنے پر رضامند افراد کو چار لاکھ روپے بلا سود قرض دیا جائے گا اور اس پر انھیں کوئی زائد رقم نہیں دینی پڑِے گی اور یہ قرض پانچ سال کی مدت میں واپس کرنا ہو گا۔ حکومت نے اس منصوبے کے لیے دو ارب روپے مختص کیے ہیں۔

عابد مجید نے بتایا کہ اس سے ایک طرف مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع دستیاب ہوں گے جن میں سیاحوں کو گاڑی، جیپ کی فراہمی سے لے کر کھانے پینے کا سامان مہیا کرنا شامل ہو گا تاکہ وہ رش والی جگہوں سے دور بہتر ماحول میں رہ سکیں۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت یہ منصوبہ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ کے محکمے کے زیرِ غور ہے جیسے ہی یہ منصوبہ منظور ہوتا ہے تو بینک آف خیبر کے ساتھ ایک معاہدہ طے کر کے اس پر عملدرآمد شروع کر دیا جائے گا۔

یہاں ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ جن لوگوں کو کمرے بنانے کے لیے قرضہ دیا جائے گا ان کے لیے تعلیم یافتہ ہونا ضروری قرار دیا جائے گا تاکہ سیاحوں کو بول چال اور دیگر معاملات میں مشکلات در پیش نہ ہوں۔

’سیاحتی مقامات پر اگر کم پیسوں میں اچھی رہائش ملے تو اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے اور اکثر سیاح اسی حوالے سے سوچتے ہیں۔‘

تاہم حکومت یہ منصوبے تو بنا رہی ہے اور اس کے لیے فنڈز بھی مختص کیے جا رہے ہیں لیکن دوسری جانب بہت سے علاقوں میں بنیادی انفراسٹرکچر کی کمی پائی جاتی ہے اور اس طرف کم توجہ دی جا رہی ہے۔

مقامی صحافی شیرین زادہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان علاقوں میں بنیادی طور پر سڑکیں ٹھیک نہیں ہیں جس سے سیاحوں کو مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اکثر ایسی جھیلیں اور دیگر مقامات ہیں جہاں کچی سڑکیں ہیں اور لوگوں کو ہزاروں روپے میں جیپ پر سفر کرنا پڑتا ہے۔

اس کے علاوہ ان علاقوں میں پبلک ٹائلٹس یا لیٹرین نہیں ہیں اور اکثر لوگ خاص طور پر خواتین سیاحوں کو مشکلات پیش آتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کے اقدامات کو مقامی سطح پر اور سیاح بھی سراہتے ہیں لیکن بنیادی ضروریات کی فراہمی انتہائی ضروری ہے۔ ان علاقوں میں صفائی کا انتظام نہیں ہے اور درختوں کی کٹائی کی وجہ سے حسن ماند پڑتا جا رہا ہے اس لیے ضروری ہے کہ گبین جبہ اور دیگر ایسے علاقوں میں ہنگامی بنیادوں پر شجر کاری شروع کی جائے۔

خیبر پختونخوا میں اس کے علاوہ فائبر گلاس سے ایسے ہٹس یا کیمپنگ پاڈز بنائے جا رہے ہیں جہاں سیاح کم خرچ میں قدرتی ماحول میں رہ سکیں گے۔ یہ ہٹس یا کیمپنگ پاڈز ملاکنڈ ڈویژن میں گبین جبہ کے مقام پر بنائے جا رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں سیاحت کے فروغ کے لیے مزید سیاحتی مقامات قائم کیے جا رہے ہیں۔ ان میں منکیال (سوات)، مدکلاشٹ (چترال)، ٹھنڈیانی (ایبٹ آباد) اور مانسہرہ میں بین الاقوامی معیار کے سیاحتی مراکز کے علاوہ کمراٹ، بن شاہی، سکائی لینڈ، لڑم ٹاپ، الائی، بٹگرام اور شانگلہ میں بھی سیاحتی مراکز قائم کیے جائیں گے۔

خیبر پختونخوا میں محکمہ ثقافت اور آثار قدیمہ کے ایک بیان کے مطابق صوبے میں کائیٹ پراجیکٹ کے تحت آثارقدیمہ کے 9 منفرد مقامات کی بحالی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ان میں ملاکنڈ ڈویژن کا وہ علاقہ بھی شامل ہے جہاں نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کا بچپن گزرا اور انھوں نے تعلیم کے فروغ کے لیے جرات کا مظاہرہ کیا تھا۔

ان میں وہ علاقے شامل ہیں جہاں چند برس پہلے تک شدت پسندی کا دور دورہ تھا۔

پھر اس علاقے میں فوجی آپریشن شروع کیا گیا اور لوگ یہاں سے نقل مکانی کر گئے تھے۔ یہ علاقہ خالی ہو گیا تھا لیکن یہاں ایسے لوگ تھے جو آپریشن کے باوجود موجود رہے اور انھوں نے ان شدت پسندوں کا مقابلہ بھی کیا ۔

اس علاقے میں ملالہ یوسفزئی کے علاوہ ایسی متعدد خواتین اور نوجوان ہیں جنھوں نے امن کے قیام کے لیے کوششیں کی۔

اب اس علاقے میں امن قائم ہو چکا ہے یہاں ونٹر سپورٹس سے متعلق سرگرمیاں ہوتی ہیں یہاں سیاحت کے فروغ کے لیے کام ہو رہا ہے اور یہاں وہ لوگ موجود ہیں جو ان شدت پسندوں کی کہانیاں بیان کر سکتے ہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp