مارسل پروست کی گمشدہ جنت


بیسویں صدی کے اوائل میں سائنسدانوں اور فلسفیوں میں تصور زماں کے دو متضاد نظریے مقبول تھے، پہلا آئن سٹائن کے نظریہ اضافت سے اخذ شدہ نتیجہ کہ وقت مادہ اور توانائی کی حرکت کا نام ہے جس کی ساخت کو ریاضی کی مساوات سے سمجھا جا سکتا ہے اور جس کے بہاؤ کی مقدار کو آلات کے ذریعے ناپا جا سکتا ہے۔ دوسرا فرانسیسی فلسفی ہنری برگساں کا دورانیے کا نظریہ جو زماں کو تخلیق کے وصف کے طور پہ دیکھتا تھا اور انسانی ادراک کو اس کی تفہیم میں مرکزی حیثیت دیتا تھا۔ 1911 کے لگ بھگ شروع ہونے والی یہ بحث 1922 کے مشہور زمانہ پیرس مناظرے کے بعد بہت تلخ ہو گئی جس میں فریقین نے ایک دوسرے پر مطلق لاعلمی بلکہ کج فہمی تک کے الزام لگائے۔ بعد ازاں ایک آدھ انفرادی آواز کو چھوڑ کر مغربی مفکرین کی اکثریت نے آئن سٹائن کے نظریہ اضافت کو تسلیم کر لیا، یوں اس بحث کا خاتمہ ہوا۔

اسی دوران جب یہ بحث زوروں پہ تھی پیرس کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں مقیم کسی حد تک گمنام ادیب ایک ضخیم ناول لکھ رہا تھا۔ مارسل پروست سماج کے مروجہ اصولوں کے حساب سے ایک بیکار آدمی تھا جو راتوں کو جاگ کر لکھنے پڑھنے کا شغل جاری رکھتا اور دن چڑھے سوتا رہتا، جبکہ شامیں جو یقیناً اس کے دن کا بہترین حصہ تھیں امراء کے سیلون میں سجنے والی محفلوں میں گزرتیں۔ طویل بیماری اور عسرت کے باوجود پروست اپنی ذہانت، علم اور اعلی خاندانی پس منظر کی وجہ سے ان محفلوں میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا، یہیں سے اس نے اپنے ناول کے لیے وہ زرخیز مواد حاصل کیا، جسے اس کے قلم نے امر کر دیا۔

”کھوئے ہوئے زمانے کی تلاش“ کا کینوس زندگی ہی کی طرح وسیع ہے، جس میں ایک طرف پیرس کی وہ اعلی سوسائٹی جو بیسویں صدی کے اوائل میں یورپ کی تمدنی اور سماجی زندگی میں ممتاز تھی اپنے پورے طمطراق کے ساتھ نظر آتی ہے اور دوسری طرف فرانس کی قصباتی زندگی کی سادگی اور رکھ رکھاؤ کی بھی بھرپور عکاسی ہے۔ ان گئے دنوں کی داستان لکھتے ہوئے مارسل پروست نے چھوٹی چھوٹی تفصیلات اور معمولی سے معمولی جذبات کے بیان میں بھی شاعرانہ تخیل سے رنگ بھر دیا ہے۔

کرداروں کی گیلری پر نظر دوڑائیں تو بھانت بھانت کے کردار دکھائی دیتے ہیں ان میں نیک و بد، عالم، سیاست داں، تاجر پیشہ، عیش پسند امراء، لا ابالی محبوب، نکمے عاشق اور زمانے کے ستائے ہوئے فنکار سب ہی ہیں، جذبات اور احساسات کی بات کریں تو غم، حسد، رشک سب ہی کی جھلکیاں ہیں۔ محبت، جنگ، سیاست اور فن پر طویل فلسفیانہ بحث اور ان کے درمیان گتھی ہوئی یادیں۔ یہ سب اپنی جگہ مگر ”کھوئے ہوئے زمانے کی تلاش“ کی تخلیق کا اصل محرک تو کچھ اور ہے پروست نے یہ ناول تیرہ برس میں سات حصوں میں مکمل کیا اتنے طویل عرصہ اور ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے پلاٹ کی وحدت حیران کن ہے، آخر وہ کون سی قوت ہے جس نے مصنف کے ذہن کو اس عظیم الشان کارنامے کے لیے تخلیقی مہمیز دی؟

ہمارے خیال وہ ایک طاقتور احساس ہے۔ یہ احساس ہے وقت کے ہاتھوں زندگی کے فنا ہو جانے کا۔ یہاں فنا سے مراد موت کے ہاتھوں زندگی کا خاتمہ نہیں بلکہ بلکہ کچھ اس طرح کا زیاں ہے جیسے پانی میں دھیرے دھیرے شکر گھلتی ہے۔ اگرچہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ مارسل پروست نے تصور زماں کی مذکورہ بحث میں کچھ خاص دلچسپی لی تھی۔ مگر زماں کی اصلیت کی کھوج ”کھوئے ہوئے زمانے کی تلاش“ کی مرکزی تھیم ہے جو بین السطور حقیقت کے طور پہ اس کے ہر صفحے پر موجود ہے۔

فلسفی اور سائنسدان کے برعکس پروست وقت کی ساخت اور ماہیت کے بارے میں متجسس نہیں بلکہ اس کا مطمح نظر تو اس رشتے کی دریافت ہے جو زماں کا انسانی تجربے، حافظے اور فن کے ساتھ ہے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ انسانی تجربوں کی دولت سے مالامال زمانہ جب ماضی کی گرد میں دفن ہوجاتا ہے تو کیا اس کی واپسی کا کوئی امکان ہے یا وہ بس فنا ہوجاتا ہے۔ یہ وہ سوال ہے جو مارسل پروست اور اس کے قاری کو مسلسل ہانٹ کرتے رہتے ہیں۔

آئن سٹائن جب زماں کو فریب نظر قرار دیتا ہے تو اس کا مقصد دراصل یہ کہنا ہوتا ہے کہ وقت کی ماضی حال اور مستقبل میں تقسیم فلسفی کی خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ بات کچھ اتنی سادہ نہیں، ہمارا تصور کائنات جو بھی ہو، ڈیزائن یا اتفاق جسے بھی اس کا آغاز سمجھیں ایک بات جس پہ سب متفق ہیں وہ یہ کہ کائنات کی پندرہ ارب سالہ تاریخ کا اہم ترین واقعہ کرہ ارض پر شعور کی حامل حیات یعنی انسان کا ظہور ہے۔ شعور افزائش نسل اور بقا کے لیے درکار ذہانت سے آگے کی چیز ہے، اپنی بنیادی تعریف کی رو سے یہ وجود کی آنکھ ہے جو اپنی ذات اور اردگرد کے ماحول کی تفہیم کرتی ہے، شعور خارجی حقیقت کی تفہیم اور رابطہ کے لیے جو فریم ورک بناتا ہے وہ مکاں کی تین سمتوں اور وقت کی زمانی تقسیم یعنی ماضی حال اور مستقبل پہ ہی کھڑا ہے۔

اسی لیے پروست کے یاں زماں بنیادی طور پر ایک معروضی تجربہ ہے۔ یہ وقت اور یاداشت کے ایک پراسرار تعلق کی تشریح ہے یہاں یاداشت کوئی جامد شے نہیں بلکہ ایک فعال قوت ہے جو احساس کی دنیا میں معمولی سے ارتعاش سے بھی متحرک ہو کر ماضی بعید کی کسی بھولی بسری یاد کو واپس لا سکتی ہے۔ اسی لیے پروست اسے وجدانی حافظہ قرار دیتا ہے۔ وجدانی حافظے کے زور پہ یادوں کی بازیافت ہی مارسل پروست کی تحریر کا محرک ہے۔

یادوں کی بازیافت کے لیے جو تیکنیک استعمال کی گئی ہے اسے ناقدین نے پروستیائی لمحے قرار دیا ہے۔ پروستیائی لمحہ دراصل روزمرہ کے معاملات کے درمیان کسی لطیف احساس جیسے کوئی ذائقہ یا خوشبو سے کشید ہونے والے حظ سے جنم لیتا ہے جو حافظے میں چھپی کسی ایسے ہی یا اس سے مماثل احساس سے جڑی یاد کو برانگیختہ کرتا ہے اور پھر یہ یاد اپنے سارے تلازمات کے ساتھ یادوں کے قافلے کو اپنے ہم رکاب لے آتی ہے، بالکل ایسے جیسے بچپن میں دیکھتے تھے کہ ہاتھ کے بنے ہوئے سوئیٹر کا ایک دھاگا کھینچو تو پورا سوئیٹر ادھڑ کر ہاتھ میں آ جاتا ہے، یہاں مگر معاملہ الٹ ہے۔

ایک سوت سے پورا سوئیٹر بننے کا عمل ہے، کسی یاد کی موہوم سی پرچھائی نے ایک پورا شہر بسا دینا ہے ایک میلہ سا سجا دینا ہے بھولے ہوئے ذائقوں خوشبوؤں اور رنگوں کا، گزری ہوئی محفلوں اور کھوئے ہوئے لوگوں کا۔ یہ جادوئی لمحات ناول میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے مشہور تو میڈلین لمحہ ہے جب ایک شام چائے میں ڈبوئے ہوئے میڈلین کیک کا ذائقہ راوی (جس کا نام بھی مارسل ہی ہے ) کو بچپن کی دنیا میں پہنچا دیتا ہے۔ یہاں اس کا ننھیالی گاؤں کوم برے ہے، اس کی ماں، نانی اور بیمار خالہ ہیں، وفادار خاندانی ملازم اور سب سے بڑھ کر گرومونٹ اور سوان خاندان ہیں جن کے افراد آگے چل کر ہزاروں صفحات پہ پہلے ہوئے پلاٹ میں گہرے نقوش چھوڑیں گے۔

کوم برے ہی کی طرح بعل بیک کی ساحلی تفریح گاہ بھی اہم ہے۔ مارسل جب یہاں پہلی مرتبہ آتا ہے تو اپنی پہلی محبت کو بھولنے کی کوشش کر رہا ہے مگر کبھی کسی گفتگو کا کوئی فقرہ تو کبھی کسی کے جھک کر تسمہ باندھنے کا انداز اسے محبوبہ کی یاد دلاتا ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ عادات اور روز مرہ کے معاملات کو چلانے کے لیے درکار معلومات کے علاوہ یاداشت کا وہ حصہ جسے ہمارا عقلی اور منتقی ذہن غیر مستعمل ہونے کی وجہ سے عملی زندگی سے بیدخل کر دیتا ہے درحقیقت وہی اصل یاداشت ہے۔

یہی احساس اسے کچھ سال بعد دوبارہ بعل بیک آ کر ہوتا ہے۔ نانی اماں کے انتقال کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا اور اگرچہ مارسل کے بعل بیک آنے کا مقصد کچھ اور ہے مگر یہاں اسے پچھلے قیام کی یادیں گھیر لیتی ہیں (جب نانی اماں ساتھ تھیں ) اور نانی اماں کی موت کا غم اسے شدت سے محسوس ہوتا ہے اور وہ اک بار پھر اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ جذباتی زندگی سے جڑی یادیں ہمارے دل و دماغ کا حصہ ہونے کے باوجود ہماری دسترس میں نہیں ہوتیں، انہیں زندہ جاوید ہونے کے لیے احساس کے فریم ورک کی ضرورت ہوتی ہے۔

یادوں کی آمد اور ان سے کسب کا سلسلہ پورے ناول میں جاری ہے مگر اختتامی صفحات آتے آتے یہ ایک خاص صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ وجدانی حافظے کے زور پہ مارسل اب تک اپنی یادوں کے ایک بڑے حصے کی بازیافت کرچکا ہے مگر اس سے کوئی خاص تفہیم اسے حاصل نہیں ہوئی، یوں اس ساری مشق کی حیثیت ایک کار زیاں سے زیادہ نظر نہیں آتی۔ پہلی جنگ عظیم ختم ہو چکی ہے اور اپنی محبوبہ البرٹین کی جدائی کے بعد اب اسے سینٹ لؤپ جیسے دوست کی میدان جنگ میں موت کا غم بھی سہنا ہے۔

مارسل ایک سینی ٹوریم میں کچھ وقت گزار کر پیرس لوٹا ہے اور اپنی صحت کے حوالے سے مایوس اور ادبی مستقبل کے بارے میں فکرمند ہے۔ کچھ عرصے بعد گرمونٹ خاندان اسے اپنے نئے گھر میں مدعو کرتے ہیں جہاں اس کی ملاقات شالوس، اودیتی اور گلبریٹ سے ہوتی ہے۔ ناول کے یہ تین دیرینہ کردار ابتدا سے ہی اس کی زندگی میں اہم ہیں، اتنے سالوں بعد مارسل انہیں بڑھی ہوئی عمر اور مضمحل اعصاب کے ساتھ دیکھتا ہے تو اسے وقت کی اس عظیم الشان قوت کا ادراک ہوتا ہے جو وہ بے دریغ ہمارے خلاف استعمال کرتا ہے، وہ سارے لوگ جو کبھی ہماری نگاہوں کا مرکز تھے، جن سے ہمارے شب و روز روشن تھے وقت یا تو انہیں موت کے حوالے کر کے نظروں سے اوجھل کر دیتا ہے یا پھر اپنی مسلسل تخریبی عمل سے کھوکھلا کر کے قابل رحم حالت میں نگاہوں کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔

لیکن اسی ادراک کے ساتھ یہ طمانیت بھرا احساس بھی ہے کہ وہی وقت جو ہمارے ارد گرد لوگوں کو یکسر بدل دیتا ہے وہ اس نقش کو نہیں چھیڑ پاتا جو وہ ہمارے حافظے میں چھوڑ جاتے ہیں۔ مذہبی روایات سے جنت کا جو تصور ذہن میں آتا ہے وہ ایک ایسی جگہ کا ہے جہاں وقت کا بہاؤ نہیں ہے۔ پروست کے نزدیک وقت کی دست برد سے محفوظ حافظہ جس میں گزرا ہوا زمانہ موجود ہے وہی ہی دراصل جنت ہے اسی لیے وہ کہتا ہے کہ اگر کوئی جنت ہے تو وہ گمشدہ جنت ہے۔

اس سے پہلے حویلی کے دالان سے گزرتے ہوئے داخلی راہداری کے پتھروں کی ساخت اور پھر لائبریری میں دوران انتظار کتابوں کی مخصوص خوشبو یہاں تک کہ ہونٹوں پہ نیپکن کا نمکین لمس اور پلیٹ میں چمچہ چلانے کی آواز تک مارسل کو پہ در پہ ایسے لطیف حسی تجربات ہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ وجدانی حافظے میں جست لگاتا ہے۔ خالص طبیعات کی زبان میں بات کی جائے تو یہ ایک ایسی زمانی سرنگ یا وارم ہول (Worm hole) ہے جو بقول پروست ماضی کو حال میں پیوست کر دیتا ہے۔ یہاں تک آ کر مارسل پر بحیثیت مصنف اپنا نصب العین واضح ہو چکا ہے۔ پلاٹ کی ترتیب کے اعتبار سے یہ ادراک اسے ناول کے تقریباً اختتام پہ ہوتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وجدانی حافظے کی مدد سے ماضی کو کھوجنے کے بعد فنکار کے ذمے کون سا کام رہ گیا ہے۔

نظریہ اضافت ہمیں بتاتا ہے کہ کرہ ارض پہ پیش آنے والا کوئی بھی واقعہ حتمی طور پر ماضی نہیں بنتا بلکہ روشنی کی کرنوں میں رجسٹر ہو جاتا ہے۔ پھر انہی کرنوں کو دوش پہ یہ کائنات کی عمیق گہرائیوں کے ابدی سفر پہ نکل جاتا ہے۔ اگر ہم یہ تصور کریں کہ کائنات کے کسی گوشے میں موجود ذہین مخلوق نے زمین کی جانب طاقتور دوربین لگائی ہوئی ہے تو وہ ان تمام واقعات کا رواں مشاہدہ کر سکتی ہے جو اب ہماری تاریخ ہیں، تاہم یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کائناتی فاصلے اس قدر طویل ہیں کہ انہیں روشنی کی رفتار سے طے کرنا بھی طویل مدت میں ہی ممکن ہے، یوں ان واقعات کے وقوع پذیر ہونے اور اس دوربین کے ذریعے مشاہدے میں سیکڑوں سال کا وقفہ آ سکتا ہے۔

یوں سمجھا جائے کہ اگر وہ دوربین دو سو نوری سال کے فاصلے پہ ہے تو اس وقت شاید واٹر لو کی لڑائی کا مشاہدہ کر رہی ہے اور اگر دو ہزار نوری سال کے فاصلے پہ ہے تو حضرت عیسی الیہ السلام کو ان کے حواریوں کے درمیان دیکھ رہی ہوگی۔ درحقیقت یہ ایک معروضی مشاہدہ ہوگا یعنی دیکھنے والی آنکھ کے لیے یہ مناظر تجسس علمی کی تسکین تو ہوں گے مگر ان سے کسی قسم کا جمالیاتی یا جذباتی حظ اسے حاصل نہ ہوگا۔ ایک فرانسیسی یا انیسویں صدی کے یورپی باشندے کے لیے واٹرلو کی لڑائی جو معنی رکھتی ہے دنیا کے کسی اور خطے سے تعلق رکھنے والے انسان کے لیے وہ معنی ہرگز نہیں رکھ سکتی اسی طرح کسی عیسائی یا مسلمان کے لیے تو حضرت عیسیؑ کی زیارت ایک سعادت ہے مگر کسی دوسرے انسان کے لیے یہ ایک عام مشاہدہ ہے۔

یہیں سے فنکار کا کام شروع ہوتا ہے کہ کسی معروضی مشاہدے کو جذبات کی آنچ سے موضوعی بنا دینا ہی فن ہے۔ فنکار معروضی مشاہدے کو ناکافی تصور کرتا ہے کیونکہ اس میں ناظر کی نظر ظاہری احوال سے آگے نہیں جاتی، یہی وجہ ہے کہ وہ حقیقی حسن اور صداقت سے محروم رہ جاتا ہے جن کا اظہار خارجی علامتوں سے نہیں ہوتا بلکہ وجدانی نفوذ سے ہی ممکن ہے۔ فنکار کا کام یہ ہے کہ ان تجربات اور تاثرات کی توجیہ پیش کرے جو پیدا تو معروضی حقائق سے ہوتے ہیں مگر ان کو معنویت موضوعی حقیقت کا جز بن کر ہی ملتی ہے۔

اب جس قدر یہ توجیہات معروضی علم کی قید میں ہوں گی اسی قدر موضوعی سچائی فنکار کی دسترس سے باہر ہوگی۔ عالمی ادب کا تو نہیں پتہ مگر اردو زبان میں بہت اچھی مثال ممتاز مفتی کی ”علی پور کا ایلی“ اور ”الکھ نگری اور ایلی“ ہیں، دونوں کتابوں کا مطالعہ کر کے فرق کو سمجھا جا سکتا ہے۔ الکھ نگری کے برعکس علی پور کا ایلی میں یادوں کے سیدھے سادھے بیان کے بجائے مصنف کے احساسات اور تجربات تخلیقی پیرائے میں ڈھل کر ایک نئی صورت اختیار کر گئے ہیں۔

اور اب آخری بات یہ کہ پروست نے ایک جگہ لکھا ہے ہم بس وہی ہیں جو ہمارے حافظے میں محفوظ ہے۔ یہ اس ناول کی ایک منفرد خصوصیت کی جانب اشارہ ہے کہ اس کے کرداروں کی زندگی میں کسی قسم کا شخصی یا واقعاتی ارتقا مفقود ہے۔ یہ صورتحال کلاسیکی کہانیوں کہ برعکس ہے جہاں ہیرو کی زندگی مختلف واقعات سے ہوتی ہوئی مخصوص المیہ یا طربیہ انجام کی جانب بڑھتی ہے، اور پلاٹ میں وقت کا بہاؤ ایک سمت میں نظر آتا ہے۔ یہ پہلو اس کے تین اہم تریں کرداروں مارسل، شالوس اور سوان میں نمایاں تر ہے، یعنی ان کی زندگی خارجی حالات اور زمانی تقویم کے اعتبار سے تو آگے بڑھ رہی ہے مگر ان کا وجود ذاتی ہر قسم کے تغیر سے پاک عالم سکوت میں ہے۔ کہیں پروست یہ کہنا تو نہیں چاہ رہا کہ ہمارے حقیقی حافظے کی طرح ہمارا حقیقی وجود بھی زماں کی ایسی بعد میں موجود ہے جہاں بیتا ہوا زمانہ اپنی ساری جزئیات کے ساتھ موجود ہے جسے وقت کا بہاؤ چھو نہیں سکتا۔ وہی گمشدہ جنت والی بات!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).