دنیا میں توہین رسالت کے بڑھتے واقعات


صد افسوس موجودہ صدی کا آغاز اس شدید غلط فہمی سے ہوا کہ ”آج کی دنیا کا انسان بعد تخلیق سے اب تک کا سب سے زیادہ تہذیب یافتہ ہے“ ۔ لیکن اگر پوری نوع انسانی کے اجتماعی و انفرادی رویوں کا آج جائزہ لیا جائے تو صورت حال شاید اس کے بالکل ہی بر عکس ہے۔ تقریباً پوری ہی دنیا میں نام نہاد ”آزادی اظہار رائے“ کے نام پر وہ طوفان بدتمیزی بپا ہے کہ الامان الحفیظ۔

بظاہر تو کوئی بھی تہذیب یافتہ انسان خواہ وہ کسی مذہب کا ماننے والا ہو یا پھر لا دین، کم از کم انسانیت پر ضرور یقین رکھتا ہے۔ اور صرف انسانیت پر یقین رکھنے والا بھی کسی دوسرے انسان کی دل آزاری و شکنی کا باعث کم از کم عمداً تو نہیں بن سکتا۔ کیونکہ عین فطری ہے کہ ایسی صورت میں کم از کم پر امن و مہذب اور بعض میں انتہائی و متشدد ردعمل آنے کے قوی امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔

اسی لیے تہذیب و انسانیت کا شعور رکھنے والے کم از کم اس کے ارتکاب سے نہ صرف خود پرہیز بلکہ دوسروں کو بھی تلقین اور پھر بھی مرتکب ہونے والوں کی شدید مذمت کرتے نظر آنے چاہئیں۔ جبکہ فی زمانہ دنیا میں توہین رسالت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں اور مساجد پر ہونے والے حملوں کے حالیہ و سابقہ واقعات پر نظر دوڑائیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ قطعی سہواً نہیں بلکہ باقاعدہ حوصلہ افزا ماحول و معاشرت کی آشیرباد سے از راہ تمسخر اور اذیت رساں ذہنیت و منافرت کے باعث رونما ہوئے۔

کیونکہ توہین رسالت کے ضمن میں دیکھنے میں آیا کہ دنیا بھر میں جہاں بھی کسی ”ابن الجہل“ نے ایسی جسارت یا کوشش کی وہاں کے معاشرے میں نہ صرف اس کو پذیرائی بلکہ بھرپور ساتھ اور ساتھ دینے والے بد نصیب بھی ملے۔ جبکہ مسلمانوں و مساجد پر ہونے والے حملوں کے مرتکب سینہ زوری و دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے کئے پر مطمئن اور قائم کھڑے نظر آئے۔

حالانکہ اس سے ردعمل کے طور پر مسلم دنیا میں عوامی سطح پر شدید غم و غصہ پیدا ہوا، اور اس کا اظہار پوری دنیا میں لاکھوں مسلمانوں اور ان کے ساتھ ساتھ انفرادی طور پر چند صحیح معنوں میں مہذب اور انسان دوست غیر مسلموں نے سڑکوں پر آ کر پر امن مظاہروں، جلسوں و جلوسوں کی شکل میں کیا۔ علاوہ ازیں مرتکب بد نصیبوں پر سیاہی، انڈے و جوتے پھینکنے، پتلے جلانے، تصویروں پر جوتا باری کرنے اور کچھ پر جسمانی حملوں کے واقعات بھی رونما ہوئے۔

لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں اس قدر تیزی سے پھیلتے ”اسلامو فوبیا“ کی وجہ آخر ہے کیا؟

آیا کہ پوری دنیا میں بسنے والے ایک ارب تیس کروڑ مسلمانوں میں موجود چند رائی برابر عاقبت نااندیش جو اپنی جہالت کی وجہ سے شدت پسندی پر مائل اور اس سے غیر مسلموں کو ردعمل کا موقع دینے کے ذمہ دار ہیں؟ یا پھر دنیا بھر کا جانبدار میڈیا شیطان ملعون کے ایجنڈے پر چلتے ہوئے انتہائی معمولی غیر اہم باتوں و واقعات کو بھی بنیاد بنا، بڑھا چڑھا کر بیان کرنے اور منافرت کے شعلوں کو ہوا دینے و بھڑکانے میں لگا ہوا ہے؟ یا پھر وجہ کوئی تیسری ہے؟ جس کے سمجھ نہ آنے کے باعث ہم سب چاہ کر بھی کوئی تدارک نہیں کر پا رہے؟

وجہ بہرحال جو بھی ہو اگر ہم اب بھی اس کا ادراک نہ ہونے کے باعث تدارک میں ناکام رہے، تو ہمیں مستقبل میں بھی خدانخواستہ اس قسم کے تکلیف دہ واقعات و صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بات یہ بھی قابل غور ہے کہ یہ سب کرنے کی ذمہ داری ہے کس پر؟

آیا پوری امت مسلمہ پر کہ وہ گزشتہ سے پیوستہ رہتے ہوئے عوامی انداز میں سڑکوں پر آ کر پر امن احتجاج اور شاذ شاذ کہیں اشتعال انگیز ردعمل دیتے شدت پسند و دہشت گرد کا ٹھپہ لگواتے رہیں؟

یا پھر صرف مسلم دنیا کے حکمران؟ کہ اس کا بیڑا اٹھاتے ہوئے اجتماعی طور پر اقوام متحدہ اور آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن کے پلیٹ فارم سے پوری دنیا کی غیر مسلم اقوام کو یہ باور کروائیں کہ ”توہین رسالت“ ملت اسلامیہ کے دلوں میں محمد الرسول اللہ کی محبت ان کے اپنے ماں باپ، بہن بھائی، جان مال و عزت آبرو سے بھی زیادہ ہونے کے باعث شدید تکلیف دہ اور ناقابل برداشت ہے۔ اور اس پر ہر دو طرح کا پر امن یا کہیں کہیں مشتعل ردعمل آنا عین فطری ہے۔

لہذا بجائے جواباً ردعمل دینے کے ان کے لیے بہتر و با وقار طریقہ یہ ہے کہ نام نہاد آزادی اظہار رائے کے نام پر ”توہین رسالت“ جیسی قبیح و فتنہ انگیز حرکت کو بین الاقوامی طور پر سنگین، قابل گرفت و سزا جرم قرار دیا جائے۔ تاکہ دنیا اس پر ردعمل کے باعث وقوع پذیر ہونے والے حادثات و المیوں سے محفوظ رہ سکے۔

مجھ ناچیز کی ناقص رائے میں تو فی زمانہ اس کی اصل ذمہ داری مسلم دنیا کے حکمرانوں پر ہی عائد ہوتی ہے، جس کا ادراک کرتے ہوئے عمران خان اور طیب اردگان باقی حکمرانوں کو ہم آواز ہونے کی اپیل کر چکے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک اپنے خصوصی کرم سے ان کو بھی آواز ملانے اور غیر مسلم دنیا کو اس پر قائل و مجبور کر دینے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ اس کے محبوب کا ذکر تا قیامت عزت و تکریم سے جاری و ساری رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).