سمیع چوہدری کا کالم: دو ہفتے کی محنت اور نتیجہ صرف تھکاوٹ


کرکٹ
جب ایک نہایت کمزور پہلوان ایک نہایت تگڑے حریف کا مقابلہ کرنے کے لیے اکھاڑے میں اترتا ہے تو ہجوم کے کسی کونے کھدرے سے کوئی جوش امڈتا نظر نہیں آتا۔ ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ جو بھی ہونا ہے، جلد سے جلد ہو لے اور قصہ ختم ہو۔

کچھ ایسی ہی کیفیت آج زمبابوے پہ بھی طاری تھی۔ چامو چبھابھا چونکہ کپتان ہیں، سو ان کی دلچسپی تو ہمیں کسی نہ کسی حد تک دکھائی دی اور وہ کریز پہ بھی تھوڑا زیادہ رکے۔ شروع کے دو اوورز میں تو خاصی جارحیت بھی دکھائی۔

لیکن ایک وکٹ گرنے کی دیر تھی کہ ساری کہانی برق رفتاری سے اپنے ڈراپ سین کی جانب بھاگنے لگی۔ کسی کو اگر وکٹ پہ رکنے کی پروا تھی بھی سہی تو عماد وسیم اور عثمان قادر نے ان کے منصوبے تشنۂ تکمیل کر چھوڑے۔

کورونا کے دنوں کی کرکٹ عام معمول کی کرکٹ سے خاصی مختلف ہے۔ شائقین کے لیے تو خالی گراؤنڈز دیکھنا پریشان کن ہے ہی، مگر کھلاڑیوں کے لیے تو یہ کسی اذیت سے کم نہیں۔ اچھے سے اچھے شاٹ پہ کوئی تالی بجانے والا نہیں۔ ففٹی کر لیں، سینچری کر لیں، پانچ وکٹیں لے لیں، اپنے ڈریسنگ روم کے درجن بھر لوگوں کے سوا نہ کہیں تالی بجتی سنائی دیتی ہے نہ ہی داد و تحسین کی آوازیں کان پڑتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

عثمان قادر، وہ وعدہ جو وفا ہوا

جب شکست پاکستان کے لیے ‘افورڈیبل’ نہ رہی

سلیکٹر ایسا کیوں کرتے ہیں؟ کرکٹرز جن کا فیصلہ نہیں ہو سکا وہ فلاپ تھے یا زبردست

مہمان ٹیموں کے لیے کورونا کے دنوں کی کرکٹ کچھ زیادہ ہی تکلیف دہ ہے۔ قرنطینہ کی تنہائی اپنی جگہ، بائیو ببل کے تقاضے ہی اس قدر تھکا دینے والے ہیں کہ کھلاڑی اپنی تمام تر دلچسپی اور ارتکاز کھو بیٹھتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی گری پڑی ٹیم ایک طاقتور ترین سائیڈ سے کلین سویپ ہو بھی جائے تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔

لیکن جس انداز میں یہ کلین سویپ مکمل ہوا اور جس بے دلی سے زمبابوین ٹیم نے ہتھیار ڈالے، یہ شائقین کے ساتھ ساتھ بذاتِ خود چبھابھا اور ان کے سکواڈ کے لیے دل گرفتہ صورتِ حال ہے۔

کچھ عرصہ قبل ٹیسٹ کرکٹ میں دو ‘ٹیر’ ترتیب دینے کی تجویز زیرِ غور آئی تھی۔ منصوبہ یہ تھا کہ رینکنگ کے اعتبار سے اوپر کی ٹیموں کو الگ گروپ میں رکھا جائے اور نچلی درجہ بندی کی ٹیمیں الگ گروپ میں رہ کر آپس میں کرکٹ کھیلیں۔ اس سے مسابقتی فضا بہتر رہے گی اور مقابلے دلچسپ ہوں گے۔

کرکٹ

تجویز کچھ ایسی بری بھی نہیں تھی کیونکہ یہاں پاکستان اگر زمبابوے کی بجائے جنوبی افریقہ سے کھیل رہا ہوتا تو مقابلے یوں یکطرفہ نہ ہوتے۔ بعینہٖ زمبابوے اگر پاکستان کی بجائے اپنے جوڑ کی کسی ٹیم مثلاً آئرلینڈ، افغانستان وغیرہ کے مدِمقابل ہوتا تو میچ بھی کانٹے دار ہوتے۔

لیکن بظاہر نامعلوم وجوہ کی بنا پر انڈیا نے اس سسٹم کی مخالفت کر ڈالی تھی۔ یہ بات سبھی کے لیے چونکا دینے والی تھی کہ انڈیا کو اس پہ اعتراض کیونکر ہونے لگا۔ بعد ازاں کرک انفو نے اس صورتِ حال پہ بہت چشم کشا تجزیہ کیا۔

اس کے مطابق بھارتی کرکٹ بورڈ اپنے ٹی وی ریونیوز کا ایک خطیر حصہ ایسی ہی بے جوڑ اور بے تکی ٹیموں کے دوروں سے کما رہا تھا۔ حقیقتِ حال بھی یہی ہے کہ بھارتی ٹیم دنیا کی مصروف ترین ٹیم ہے۔ ادھر ایک سیریز ختم ہوتی نہیں کہ اگلی کا شیڈول جاری ہو جاتا ہے۔

باقی ٹیموں کی نسبت بھارتی ٹیم سب سے زیادہ بے جوڑ کرکٹ کھیلتی ہے۔ سال دو میں ایک ایک سیریز تو جنوبی افریقہ، انگلینڈ، آسٹریلیا وغیرہ سے کھیل لی لیکن باقی کے کیلنڈر کا پیٹ بھرنے کو کبھی بنگلہ دیش بلا لی تو کبھی افغانستان۔

ایسی بے جوڑ کرکٹ سے کسی کرکٹ بورڈ کا پیٹ تو بھر جاتا ہے مگر نہ تو شائقین کی دلچسپی بڑھ پاتی ہے اور نہ ہی کھلاڑیوں کی ارتقا کا عمل مکمل ہو پاتا ہے۔ پوچھنے کی بات تو یہ ہے کہ اگر موجودہ ماڈل اتنا ہی اچھا ہے تو آخر کیوں زمبابوے آج بھی چودہویں رینکنگ پہ کھڑا ہے۔ اگر بے جوڑ کرکٹ چھوٹی ٹیموں کی نشوونما میں مددگار ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے تو کیوں نچلی رینکنگ کی ٹیمیں آج بھی ترقی کے خواب ہی دیکھتی رہ جاتی ہیں؟

پاکستان کے لیے یہ وائٹ واش بہت کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ٹی ٹونٹی میں پاکستان کی عظمتِ رفتہ کے لیے نشاطِ ثانیہ کی داغ بیل ڈال سکتا ہے۔ مگر چامو چبھابھا کی ٹیم سے پوچھیں تو انہیں محض دو ہفتوں کی تھکاوٹ کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp