نواب محمد احمد خان قصوری: 46 برس قبل ہونے والا ایک قتل جو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی وجہ بنا


ذوالفقار علی بھٹو
آج سے ٹھیک 46 برس قبل، یعنی 10 اور 11 نومبر 1974 کی درمیانی شب، ایک مارک ٹو کار لاہور کے علاقے شادمان کالونی میں ایک گھر کے باہر بنی پارکنگ سے سڑک پر نمودار ہوئی۔

اس گاڑی میں چار لوگ سوار ہیں جو شادمان کالونی سے ماڈل ٹاؤن میں واقع اپنے گھر کی جانب طرف جا رہے ہیں۔ رات کے تقریبا ساڑھے بارہ بجے کا وقت ہو چکا ہے اور ہر طرف ہُو کا عالم اور اندھیرا ہے۔

نوجوان احمد رضا قصوری اس کار کو ڈرائیو کر رہے ہیں جبکہ ان کی برابر کی نشست پر اُن کے والد یعنی نواب محمد احمد خان قصوری بیٹھے ہیں۔ عقبی نشستوں پر احمد خان قصوری کی اہلیہ اور سالی موجود ہیں۔

یہ سب لوگ شادمان کالونی میں تحریک استقلال گجرات کے ضلعی صدر بشیر حسین شاہ کی شادی کی تقریب میں شرکت سے واپس لوٹ رہے ہیں۔

نواب محمد احمد خان کے لیے آج کی تقریب اس لحاظ سے بھی خاص رہی کیونکہ اس میں قوالی کا اہتمام بھی تھا۔ نواب احمد خان اگرچہ مغربی طرز زندگی کے دالداہ تھے لیکن آج انھوں نے قربان حسین قوال سے بلھے شاہ کا کلام ‘میرا پیا گھر آیا’ دومرتبہ فرمائش کر کے سُنی۔

جیسے ہی گاڑی شادمان کالونی سے کچھ فاصلے پر واقع شاہ جمال کے راؤنڈ آباؤٹ (گول چکر) پر پہنچتی ہے تو اس پر تین اطراف سے مسلح حملہ آور گولیوں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔

کار میں سوار تمام افراد اس اچانک حملے اور گولیوں کی گھن گرچ سے سٹپٹا جاتے ہیں، کئی گولیاں گاڑی کو آ کر لگتی ہیں۔ احمد رضا قصوری گاڑی روکنے کی بجائے سر نیچے کر کے اسے چلاتے رہتا ہیں تاکہ اس میں سوار تمام افراد کو اس جگہ سے دور لے جائیں۔ حملہ آور چلتی گاڑی پر پیچھے سے گولیاں برساتے رہے، لیکن گاڑی آگے بڑھ گئی۔

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو: ’مجھے داڑھی کاٹنے دیں، میں مولوی کی طرح اس دنیا سے نہیں جانا چاہتا‘

مرتضیٰ بھٹّو: ’الذوالفقار‘ سے لے کر 70 کلفٹن کے باہر چلی پہلی گولی تک

وہ بھٹو جو اپنی بہن کے دور حکومت میں مارے گئے

اسی اثنا میں ڈرائیو کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے محمد احمد خان قصوری گاڑی چلانے والے اپنے جوان بیٹے کے کندھے پر آن گرتے ہیں۔ بیٹے کا ہاتھ اچانک باپ کے جسم پر پڑتا ہے اور خون سے لال ہو جاتا ہے۔

باپ کے خون سے آلود ہاتھ دیکھ کر بیٹا غم سے چلانا شروع کر دیتا ہے۔ محمد احمد خان کے سر میں گولیاں لگ چکی تھیں اور وہ اپنے ہی خون میں لت پت ہو چکے تھے۔

عقبی نشست پر بیٹھی پریشان حال ماں بیٹے کو تنبیہ کرتی ہیں کہ وہ اپنے حواس پر قابو رکھے اور گاڑی فورا گلبرگ میں واقع یونائیٹڈ کرسچیئن ہسپتال لے چلے۔

ڈرائیور کار دوڑاتا ہوا مسلسل گاڑی کے شیشے سے پیچھے دیکھتا رہا کہ حملہ آور اُن کا تعاقب تو نہیں کر رہے۔ ایف سی کالج کا پُل عبور کر کے گاڑی گلبرگ میں واقع اُس ہسپتال میں پہنچ جاتی ہے جس کے متعلق ماں نے تاکید کی تھی۔

ہسپتال پہنچ کر نوجوان احمد رضا قصوری سب سے پہلا فون اپنے بڑے بھائی کو اس واقعہ کی اطلاع دینے کے لیے کرتے ہیں، دوسرا فون ہسپتال کے سرجن ڈاکٹر کو اور تیسرا فون اس وقت کے ایس ایس پی لاہور اصغر خان کو۔

اس وقت تقریباً رات کے پونے ایک بج چکے ہیں۔

تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر آ جاتے ہیں اور آپریشن شروع ہو جاتا ہے اور اسی دوران تین، چار سو پولیس اہلکاروں کی ٹرکوں میں سوار نفری بھی ہسپتال پہنچ جاتی ہے۔ ایس ایس پی لاہور، ڈی آئی جی لاہور سردار محمد عبدالوکیل خان اور ڈپٹی کمشنر لاہور بھی اطلاع ملنے پر فوری ہسپتال پہنچ جاتے ہیں۔

ایک طرف آپریشن چل رہا ہے اور دوسری طرف پولیس اہلکار احمد رضا خان کے پاس جاتے ہیں تاکہ ابتدائی معلومات لے کر قانونی کارروائی شروع کی جا سکی۔

اُس وقت کے ایس ایچ او تھانہ اچھرہ عبد الحئی نیازی نے ایف آئی آر کے لیے درخواست لکھنا شروع کی۔ ابتدائی معلومات کے اندارج کے بعد جب بات ’آپ کو کسی پر شک ہے‘ کی ہوئی تو احمد رضا قصوری نے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا نام لیا۔

انھوں نے ایس ایچ او سے کہا کہ دراصل یہ ذوالفقار علی بھٹو نے کروایا ہے جو انھیں مروانا چاہتے ہیں تاہم والد صاحب حادثاتی طور پر فائرنگ کی زد میں آ کر زخمی ہو گئے۔

وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا نام سُن کر ایس ایچ او کے ہاتھ سے پینسل نیچے گر گئی اور وہ چونک کر کہنے لگا کہ ایف آئی آر وزیر اعظم پر درج کروانی ہے آپ نے؟ جواب ملا: جی ہاں۔

احمد رضا قصوری بولے ’کیونکہ وہ (بھٹو) مجھ پر پہلے بھی کئی حملے کروا چکے ہیں۔ جب ذمہ دار وہی ہیں تو پھر پرچہ بھی انھی کے خلاف کٹے گا۔‘

احمد رضا قصوری نے اس رات پیش آنے والے واقعات کو یاد کرتے ہوئے اس رپورٹ کے مصنف شاہد اسلم کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں بتایا ’کچھ لمحے بعد میں نے دوبارہ عبارت لکھوانا چاہی، تو وہ (ایس ایچ او) باہر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد ایس ایس پی اور ڈی آئی جی دونوں آ گئے، کہنے لگے کے آپ اپنے ارد گرد دیکھیں جس نے نواب صاحب پر حملہ کیا ہو، آپ سیدھا وزیر اعظم کا نام لے رہے ہیں۔’

انھوں نے پولیس کو بتایا کہ وہ اپنے ارد گرد نظر دوڑا چکے ہیں لیکن کوئی نہیں ملا جو یہ حملہ کروا سکتا ہو، اس لیے ایف آئی آر کا متن وہی ہو گا جو وہ بتائیں گے اور اگر پولیس نے ایسا کرنے میں لیت و لال سے کام لیا تو وہ کل صبح ہائی کورٹ کی مدد لیں گے۔

احمد رضا قصوری کے ایک ماموں، جو کہ فوج میں بریگیڈیئر تھے، بھی ہسپتال پہنچ چکے تھے، پولیس والوں نے انھیں بھی بھیجا تاکہ وہ قصوری صاحب کو سمجھائیں لیکن وہ بضد رہے کہ ان کے والد پر حملہ بھٹو نے ہی کروایا ہے۔

تقریبا صبح کے تین بج چکے تھے اور ابھی یہ باتیں چل ہی رہی تھیں کہ ڈاکٹر نے آ کر احمد رضا خان کو بتایا کہ ان کے والد اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’میں یہ سن کر پھٹ پڑا اور آپے سے باہر ہو گیا۔ پاس ہی ڈنڈا پڑا ہوا تھا میں نے اٹھایا اور ایس ایس پی کو جو کہ یونیفارم میں تھا اس کی پیٹھ پر تین، چار مار دیے۔ اس کے بعد ڈی آئی جی کو بھی بھاگتے ہوئے پیچھے سے ایک لات مار دی، وہ بھی گرتا ہوا پولیس اہلکاروں کے پیچھے جا چھپا۔‘

دوبارہ بات چیت کے بعد بالآخر پولیس نے کہہ دیا کہ وہ درخواست لکھ کر دے دیں تاکہ وہ ایف آئی آر درج کریں۔ تقریبا رات تین بج کر 20 منٹ پر احمد رضا قصوری نے اپنے ایک ہمسائے کی مدد سے درخواست تحریر کی اور خود پر ہوئے ماضی کے حملوں کا ذکر بھی کیا اور اپنے والد کے قتل کا الزام وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پر لگایا۔

پھر بالآخر اسی سال فروری میں ذوالفقار علی بھٹو کو انھی کی پارٹی کے ایک ایم این اے کے والد کے قتل کی سازش کے الزام میں ایک مقدمہ میں نامزد کر دیا گیا ۔

محمد احمد خان کا پوسٹ مارٹم ڈپٹی سرجن میڈیکو لیگل لاہور ڈاکٹر صابر علی نے کیا۔

اگلی صبح یعنی 11 نومبر کو پولیس نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور گولیوں کے 24 خالی خول اکھٹے کیے، اور گول چکر پر واقع ایک گھر کی دیوار پر بھی گولیوں کے نشان ملے۔ کار کے معائنے سے بھی پتہ چلا کہ اس کی ڈرائیونگ سیٹ کے پیچھے بھی کچھ گولیاں پھنسی ہوئیں تھیں جن سے احمد رضا خان بھی بال بال بچے تھے۔

حملہ میں استعمال ہونے والے اسلحے کا پتہ لگوانے کے لیے گولیوں کے خالی ہول اس وقت کے ڈائریکٹر فرانزک سائنس لیبارٹری لاہور نادر حسین عابدی کے حوالے کے گئے جنھوں نے تجزیے کے لیے وہ آرمی کے جنرل ہیڈ کوارٹر راولپنڈی بھجوا دیے۔

احمد رضا قصوری

احمد رضا قصوری

جنرل ہیڈ کوارٹرز نے تجزے کے بعد بتایا کہ وہ خول سات ایم ایم کے ہیں جو چائنہ کے بنے ہیں، جنھیں ایل ایم جی اور ایس ایم جی رائفلز سے بھی چلایا جا سکتا ہے۔ ابتدائی طور پر تحقیقات کی نگرانی ڈی ایس پی عبدالاحد کے سپرد کی گئیں لیکن چونکہ وہ سنہ 1975 میں فوت ہو گئے تب سپیشل برانچ کے ملک محمد وارث کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی۔

اس کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت نے واقعہ کی تحقیقات کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے جج شفیع الرحمٰن پر مشتمل ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ پنجاب حکومت کو 26 فروری 1975 کو جمع کروا دی لیکن وہ رپورٹ عام نہ کی جا سکی۔

اکتوبر 1975 میں تحقیقاتی افسر ملک محمد وارث کی سفارشات پر کیس یہ کہہ کر داخل دفتر کر دیا گیا کہ ملزمان کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔

جیسے ہی پانچ جولائی 1977 کو ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لا نافذ کیا گیا تب سے اس کیس پر تنازعات کی وہ گرد پڑنی شروع ہوئی جو آج تک چھٹنے کا نام نہیں لے رہی اور وہ تنازعات ملک کی سیاسی، قانونی اور عدالتی تاریخ کا آج بھی ایک آسیب کی طرح پیچھا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

11 نومبر کی تاریک رات کو ہونے والی قتل کی اس واردات کے اصل محرکات پر کبھی روشنی پڑے گی، یہ سوال آج بھی جواب کا منتظر ہے۔

مارشل لا کے نفاذ کے فوری بعد وفاقی حکومت نے ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی ہوئی پیرا ملٹری فورس یعنی فیڈرل سکیورٹی فورس کے ہاتھوں مبینہ سیاسی قتل اور اغوا جیسے سنگین معاملات کی تفتیش ایف آئی اے کے حوالے کی۔

مارچ 1975 میں تحریک استقلال پارٹی کے چیئرمین ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان پر لاہور ریلوے سٹیشن پر ہونے والے بم حملے کی تحقیقات کے دوران ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبد الخالق کو شک ہوا کہ فیڈرل سکیورٹی فورس ہی نواب محمد احمد خان کے قتل میں ملوث ہو سکتی ہے اور اسی شک کی بنیاد پر 24 اور 25 جولائی 1977 کو یعنی مارشل لا کے ٹھیک 20 دن بعد فیڈرل سکیورٹی فورس کے سب انسپکٹر ارشد اقبال اوراسسٹنٹ سب انسپکٹر رانا افتخار احمد سے اس کیس کے متعلق تفتیش ہوتی ہے اور دونوں کو اس کیس میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔

26 جولائی 1977 کو مجسٹریٹ ذوالفقار علی طور کے سامنے یہ دونوں اہلکار اپنے جرم کا اعتراف کر لیتے ہیں جس کے بعد ڈائریکٹر آپریشنز و انٹیلیجنس میاں محمد عباس اور انسپکٹر غلام مصطفی کو بھی گرفتار کر لیا جاتا ہے اور سب مجسٹریٹ کے روبرو اپنے جرم کا اعتراف کر لیتے ہیں۔ انسپکٹر غلام حسین بھی ملزمان میں شامل تھے لیکن بعد میں وہ وعدہ معاف گواہ بن گئے۔

ضیا الحق

مسعود محمود جنھیں مارشل لا کے نفاذ کے فوری بعد گرفتار کر لیا گیا تھا وہ بھی قید کے دو ماہ بعد بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے جس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو بھی اس کیس میں تین ستمبر کو گرفتار کر لیا گیا۔

بھٹو کی گرفتاری کے دس روز بعد جسٹس کے ایم اے صمدانی نے بھٹو کو ضمانت پر رہا کر دیا جس کے نتیجے میں مبینہ طور پر جسٹس صمدانی کو فوری طور پر عہدے سے ہٹا دیا گیا اور تین دن بعد بھٹو کو دوبارہ اسی کیس میں مارشل لا کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔

اسی دوران ہائی کورٹ میں نئے ججز تعینات ہوئے اور مولوی مشتاق حسین کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا گیا، جن کا تعلق جنرل ضیا الحق کے آبائی شہر جالندھر سے تھا۔

مولوی مشتاق سنہ 1965 میں جب ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ تھے تو اُن کے سیکریٹری خارجہ کے طور پر ذمہ داری نبھا رہے تھے۔

11 ستمبر 1977 کو کیس کا نامکمل چالان مجسٹریٹ کی عدالت میں جمع کروایا جاتا ہے اور13 ستمبر کو سپیشل پبلک پراسیکیوٹر کی درخواست پر کیس لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل کے لیے منتقل کر دیا گیا۔

کیس کا حتمی چالان 18 ستمبر کو ہائی کورٹ میں داخل کروا دیا جاتا ہے جس کے بعد کیس کا باقاعدہ ٹرائل شروع ہوتا ہے جس میں استغاثہ نے 41 گواہان کو پیش کیا۔ یہ ملک کی عدالتی تاریخ کا غالباً واحد کیس ہے جس میں ہائی کورٹ ٹرائل کورٹ بن گئی۔

دوران ٹرائل میاں محمد عباس اپنے اعترافی بیان سے یہ کہتے ہوئے مُکر گئے کہ ان کا پہلا بیان مجسٹریٹ کے سامنے دباؤ کے تحت لیا گیا تھا۔

انھوں نے بیان دیا کہ اسے ایسی کسی سازش کا علم نہیں اور نہ ہی انھوں نے وعدہ معاف گواہ غلام حسین یا فیڈرل سکیورٹی فورس کے کسی بھی اہلکار کو اس مقصد کے لیے کوئی اسلحہ مہیا کرنے کی ہدایات دیں تھیں۔

غلام مصطفی، ارشد اقبال اور رانا افتخار احمد اپنے اعتراف جرم پہ قائم رہے کہ انھوں نے اس رات حملہ اپنے سینیئرز غلام حسین اور میاں محمد عباس کے کہنے پر کیا تھا جس سے احمد رضا خان کے والد کی موت ہوئی تھی۔

دو مارچ 1978 کو ٹرائل مکمل ہو جاتا ہے اور 18 مارچ کو کیس کا فیصلہ سنا دیا جاتا ہے جس میں ہائی کورٹ کے پانچ ججوں نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ شواہد کی موجودگی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ڈائریکٹر جنرل فیڈرل سکیورٹی فورس مسعود محمود کے ساتھ مل کر احمد رضا قصوری کو قتل کرنے کی سازش تیار کی تھی اور فیڈرل سکیورٹی فورس کے حملے کے نتیجے میں ہی ان کے والد محمد احمد خان قصوری مارے گئے تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو کو اس کیس میں موت کی سزا سنائی گئی۔

ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ملزمان نے سپریم کورٹ میں اسے چیلنج کیا جہاں پر نو ججز تھے۔ ایک جج جولائی 1978 میں ریٹائر ہو گئے جبکہ ایک بیماری کی وجہ سے رخصت پر بھیج دیے گئے۔ باقی سات ججز نے فروری 1979 کو اپیل پر فیصلہ سنا دیا۔ سات میں سے چار ججز نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا جبکہ تین نے ذوالفقار علی بھٹو کو الزامات سے بری کر دیا۔

سپریم کورٹ سے اپیل مسترد ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو چار اپریل 1979 کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

شاہنواز، مرتضی

اپنے والد کی پھانسی کے خلاف لندن میں ہونے والے ایک مظاہرے میں شاہنواز اور مرتضیٰ بھٹو بھی شامل ہوئے

احمد رضا قصوری نے بتایا کہ جب پانچ جولائی 1977 کو مارشل لا لگا تو انھوں نے ہائی کورٹ میں ایک درخواست جمع کروائی کہ اس کیس میں چونکہ طاقتور لوگ ملوث ہیں اس لیے سیشن جج شاید صحیح ٹرائل نہ کر پائے اس لیے ہائی کورٹ بحیثیت ٹرائل کورٹ اس کیس کا ٹرائل خود کرے۔

انھوں نے کہا کہ ان کی درخواست پر عدالت نے اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل راشد عزیز خان، جو بعد میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے جج بھی بنے، کو طلب کیا وہ پیش ہوئے اور دو ہفتے کا وقت مانگا کہ ‘میں حکومت سے پوچھ کر بتاتا ہوں کہ کیا کرنا ہے۔’

دو ہفتے بعد انھوں نے ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ کو بتایا کہ حکومت اس کیس کا چالان لے کر آ رہی ہے اور اس کیس کو شروع کیا جا رہا ہے۔

احمد رضا قصوری کے مطابق پرائیویٹ پارٹی کے لیے اتنا بڑا کیس چلانا مشکل تھا اس لیے انھوں نے اپنے وکیل سے کہہ کر اس کیس کو حکومت کے چالان کے ساتھ نتھی کروا دیا۔

وہ اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ اس کیس کو دوبارہ کھولنے اور پیروی کرنے کے لیے انھیں اس وقت کی فوجی قیادت نے کہا تھا۔ تاہم وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ مارشل لا لگنے کے بعد یہ کیس دوبارہ کھلا تو اس وقت کی مارشل لا حکومت اس کیس میں فریق بن گئی تھی۔

مارشل لا کے نفاذ تک کیس کی سست روی کے متعلق انھوں نے کہا کہ ’بھٹو اس وقت ایک طاقتور وزیر اعظم تھے اور ان کے ہوتے ہوئے تفتیش کہاں ہونی تھی، اس لیے جونھی وہ منظر سے ہٹے، میں نے بھی اپنی کوششیں تیز کر دیں۔‘

کیا ذوالفقار علی بھٹو نے معاملات سلجھانے کی کوشش کی، اس کے جواب میں احمد رضا قصوری بتاتے ہیں کہ انھوں نے سنہ 1976 میں اپنی اہلیہ نصرت بھٹو کو ان کے گھر بھیجا تھا۔ ’میں نے انھیں بڑی عزت دی تھی اور کہا تھا کہ وہ میری بہنوں کی طرح ہیں اور یقین دلایا تھا کہ وہ ماضی کے معاملات کا دوبارہ جائزہ لیں گے۔‘ تاہم انھوں نے کیس واپس نہیں لیا۔

انھوں نے مزید بتایا کہ سات جنوری 1977 کو جس روز نئے الیکشن کروانے کے لیے بھٹو نے اسمبلی توڑی تھی تو اس وقت انھوں نے ایف آئی آر واپس لینے کے لیے آخری بار انھیں کہا تھا۔

’بھٹو نے کاغذ پر لکھی تحریر مجھے دی اور کہا کہ سائن کر دو۔ اس پر لکھا تھا کہ میں نے اپنے والد کے قتل کے الزام میں بھٹو کا نام سیاسی مخالفین کے کہنے پر ڈلوایا تھا اور اب چونکہ حقیقت کُھل چکی ہے اس لیے میں اسے واپس لیتا ہوں۔‘

’میں نے کہا کہ سر میں اس بیان پر دستخط کر دیتا ہوں لیکن جب یہ خبر چھپے گی تو اس سے میرا امیج بُری طرح متاثر ہوگا۔ برادری والے بھی سوالات کریں گے کہ تم نے کیا ذلالت کی۔ عوام کی فکر نہیں کہ کیا کہیں گے لیکن اپنی برادری کی فکر ہے کہ انھیں کیا جواب دوں گا، اس لیے میں نے انکار کر دیا تھا۔‘

احمد رضا قصوری کے مطابق بھٹو اپنی انا میں مارے گئے۔ ’انھوں نے سوچا ہو گا کہ اگر وہ احمد رضا قصوری کے گھر گئے اور معافی مانگی تو اس سے اُن کی شان کم ہو جائے گی۔ بھٹو اگر گھر آ جاتا اور بات کرتا تو معاملہ اور ہو سکتا تھا، کیونکہ حادثات ہوتے بھی ہیں لیکن بات چیت بھی ہوتی ہے لیکن بھٹو کبھی بھی اس غرض سے میرے پاس نہیں آئے۔‘

نسیم حسن شاہ

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ (انتہائی بائیں) نے اپنی کتاب اور ٹی وی انٹرویوز میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ’ہم (ہائی کورٹ) نے یہ فیصلہ دباؤ میں دیا تھا‘

انھوں نے مزید کہا کہ ان کے والد کے قتل کو اس بات سے جوڑنا کہ جس جگہ بھگت سنگھ کو پھانسی لگائی گئی تھی وہیں ان کا قتل اس لیے کیا گیا چونکہ انھوں نے اس کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کیے تھے ایک لغو اور فضول بات ہے کیونکہ ان کے والد کے پاس قتل کا کیس کیوں آتا کیونکہ وہ تو محض ایک اعزازی مجسٹریٹ تھے اور وہ بھی قصور میں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن چوہدری منظور نے کہتے ہیں کہ 11 نومبر ایک بدقسمت حادثہ ہوا تھا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ انھوں نے کہا پاکستان کی عدالتی تاریخ کا یہ پہلا کیس تھا جس کا ٹرائل ہائی کورٹ میں ہوا جہاں باقاعدہ ’وٹنس باکس‘ بنائے گئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ قتل کے کیسوں کا ٹرائل ہمیشہ سیشن کورٹ میں ہوتا ہے لیکن اس کیس کا ٹرائل ہائی کورٹ میں ہوا جہاں بھٹو صاحب کی اپیل آنا تھی لیکن وہ اپیل کا مرحلہ ہی کھا گئے۔

چوہدری منظور نے دعویٰ کیا کہ جج مولوی مشتاق نے بعد میں یہ بیان دیا تھا کہ یہ فیصلہ انھوں نے غصے میں دیا تھا۔ بعد میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور اس بینچ کے ممبر نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب اور ٹی وی انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ’ہم (ہائی کورٹ) نے یہ فیصلہ دباؤ میں دیا تھا۔‘

سپریم کورٹ میں فیصلے کی اپیل کے متعلق انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اس وقت نو ججز تھے، ایک ریٹائر ہو گئے، ایک کو بیماری کا بہانہ بنا کر چھٹی پر بھیج دیا گیااور یہ سپریم کورٹ کے تین کے مقابلے میں چار ججز کا فیصلہ تھا۔

چار ججز نے سزائے موت کو برقرار رکھا جبکہ تین ججز نے بھٹو صاحب کو بری کر دیا تھا اس طرح کے منقسم فیصلے میں سزائے موت نہیں دی جا سکتی تھی۔

چوہدری منظور کے مطابق احمد رضا خان اور بھٹو صاحب کے درمیان صلح ہو چکی تھی مگر دوبارہ جھگڑا تب ہوا جب سنہ 1977 میں انھیں ٹکٹ نہیں ملا۔ احمد رضا خان کی خاندانی لڑائیاں بہت تھیں، جھگڑے تھے اور ہو سکتا ہے ان پر وہ حملہ ان کے کسی مخالف نے ہی کروایا ہو۔

چوہدری منظور نے بتایا کہ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 109 کے تحت آج تک کسی بندے کو سزائے موت کی سزا نہیں دی گئی۔ انھوں نے مزید کہا کہ مسعود محمود کو وعدہ معاف گواہ بنانا پڑا اور وعدہ معاف گواہ جیسے کیسوں میں قانونی طور پر ایسی سزا نہیں دی جا سکتی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب مزاج کے سخت ضرور تھے اور اپنے سیاسی مخالفین کو للکارتے بھی تھے لیکن بندے مارنے یا مروانے جیسی بات کا حقیقت سے تعلق نہیں، اگر بھٹو صاحب اس طرح کے سیاستدان ہوتے تھے تو ان پر کتنے ایسے کیسز ان کے آبائی علاقے میں بھی درج ہوتے لیکن ایسا نہیں تھا۔

چوہدری منظور نے کہا کہ اس کیس کا جائزہ لیا جانا چاہیے اور سپریم کورٹ میں پڑے ہوئے صدارتی ریفرنس پہ فیصلہ آنا چاہیے تاکہ اس کیس پر پڑی تنازعات کی دھول چھٹ سکے۔

’دیکھیں بھٹو صاحب نے تو واپس آنا نہیں، لیکن حقائق کی درستگی کے لیے اس ریفرنس پر فیصلہ آنا چاہیے تاکہ بھٹو صاحب کے دامن پہ لگا یہ الزام دھل سکے۔‘

حافظ نور محمد قصوری، جو کہ بینظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں اُن کے مشیر بھی رہے، کہتے ہیں کہ قتل سے چند روز قبل وہ اور سردار احمد رضا خان شیزان میں بیٹھے ہوئے تھے اور ’انھوں نے مجھے ایک کارڈ دکھایا کہ بھٹو صاحب نے عید کارڈ بھجوایا ہے، جس پر بھٹو صاحب کے دستخط بھی تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں گھرانوں میں بڑا محبت اور عزت والا رشتہ تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ان کی احمد رضا قصوری سے پہلی ملاقات سنہ 1969 میں کمرہ نمبر 63 فلیٹیز ہوٹل لاہور میں ذوالفقار علی بھٹو کی موجودگی میں ہوئی تھی اور وہ کافی عرصہ ساتھ بھی رہے، اور اسی لیے وہ جانتے ہیں کہ احمد رضا قصوری کو بہت شوق تھا مشہور ہونے کا اور وہ سمجھتے تھے کہ بھٹو جیسے قد آور بندے پر اگر تنقید کریں گے تو ان کی خبریں بھی چھپیں گی اور وہ مشہور بھی ہوں گے۔

وہ بتاتے ہیں کہ بھٹو اور احمد رضا قصوری کی اصل میں لڑائی تب شروع ہوئی جب سنہ 1970 کے الیکشن کے بعد جنرل یحییٰ نے اسمبلی کا اجلاس بلایا۔ سب دوست احمد رضا قصوری کو لاہور ریلوے سٹیشن پر تیز گام میں بٹھانے کے لیے گئے جہاں احمد رضا قصوری نے انھیں کہا کہ وہ اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکہ نہیں جا رہے بلکہ کراچی میں اپنے خالو جمیل الدین عالی کے پاس جا رہے ہیں۔

انھوں نے اپنے دوستوں کو تاکید کی کہ وہ یہ بات پارٹی کے لوگوں کو بتا دیں۔ ’میں ان کے گھر ہی ٹھہروں گا، اگر پارٹی نے فیصلہ کیا تو جاؤں گا ورنہ ادھر ہی ٹھہروں گا۔ جاتے ہوئے وہ مجھے باقاعدہ جمیل الدین عالی کے گھر کا نمبر بھی دے گئے تھے۔‘ انھوں نے کہا کہ دو تین روز بعد جب پنجاب ایگزیکٹیو کمیٹی کا اجلاس ہوا تو وہاں بھی یہ بات ہوئی کہ احمد رضا قصوری ڈھاکہ اجلاس کے لیے نہیں گئے۔

انھوں نے کہا کہ چونکہ وہ پیپلز پارٹی قصور کے جنرل سیکریٹری اور احمد رضا صدر تھے اس لیے ان کا احمد رضا کے گھر بہت زیادہ آنا جانا تھا اور انھوں نے جنرل یحییٰ کے بھائی آغا محمد علی خان کو جو اس وقت انٹیلیجنس بیورو کے سربراہ تھے سے ملنے کے لیے ان کے ماڈل ٹاؤن والے گھر میں کئی چکر لگائے تھے، جس کے بعد ہی احمد رضا نے ایک فاروڈ بلاک بنایا تھا۔

حافظ نور محمد کے دعویٰ کے مطابق احمد رضا قصوری کو اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں گھر اور مارک ٹو گاڑی کا پرمٹ بھی بھٹو صاحب نے ہی دیا تھا۔

سینیئر صحافی عارف نظامی نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ 11 نومبر 1974 کا دن پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اعتبار سے ایک بڑا افسوسناک دن تھا۔

عارف نظامی کے بقول بھٹو صاحب کے اردگرد کافی لوگ تھے جو یہ کام کروا سکتے تھے۔ ’میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ احمد رضا قصوری کے والد کو مارنا ہی مقصد تھا یا وہ حادثاتی طور پر مارے گئے لیکن لگتا ہے کہ اس حملے کی منصوبہ بندی تو تھی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ بھٹو صاحب میں خوبیاں بھی بہت تھیں اور خامیاں بھی کیونکہ ان کا رویہ ایک فیوڈل لارڈ والا تھا جو اپنے مخالفین کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ ’احمد رضا قصوری چونکہ بھٹو صاحب کے بدترین مخالف تھے اور وہ ان پر ذاتی قسم کی نکتہ چینی اور تنقید بھی کرتے تھے یہ سب ذوالفقار علی بھٹو کو پسند نہیں تھا۔‘

ایک سوال کے جواب میں عارف نظامی کا کہنا تھا کہ بھٹو صاحب نے احمد رضا قصوری کے والد کو مروایا یا نہیں لیکن مارشل لا کے دور میں اس کیس کو بھٹو صاحب کو مروانے کے لیے ضرور استعمال کیا گیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب جو سپریم کورٹ کے اس بینچ کا حصہ تھے جس نے بھٹو صاحب کی سزا کے خلاف اپیل رد کی تھی اور وہ بھی اپنی وفات سے قبل یہ اقرار کر چکے تھے کہ اس فیصلے کے حوالے سے اس وقت کی فوجی قیادت کا دباؤ تھا اس لیے ریکارڈ کی درستگی کے لیے سپریم کورٹ میں اس کیس کے حوالے سے پڑے ہوئے ریفرنس کا جائزہ لیا جانا چاہیے تاکہ اگر ماضی میں کہیں کوئی غلطی، کوتاہی ہوئی ہے تو اسے درست کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32300 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp