پنجاب پولیس کی ’ویمن سیفٹی‘ ایپ کیا ہے اور خواتین اس کے استعمال سے گریزاں کیوں ہیں؟


پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے ایک سنسان مضافاتی علاقے میں رات کے پچھلے پہر موٹروے پر ایک خاتون کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہو گیا۔ ایک خاتون اس گاڑی کو چلا رہی تھیں اور ان کے ساتھ صرف ان کے دو کمسن بچے تھے۔

انھوں نے مدد کے لیے پولیس کو کال کرنا چاہی تاہم نئی تعمیر کردہ اس موٹروے پر ہائی وے پولیس کی ہیلپ لائن میسر نہیں تھی۔ انھوں نے پولیس کے عمومی ایمرجنسی نمبر پر اطلاع دی، اپنی لوکیشن بتائی اور مشکل صورتحال سے آگاہ کیا۔

تاہم ان تک مدد پہنچنے میں پولیس کو تاخیر ہوئی۔ اس دوران دو مسلح افراد کے ہاتھوں وہ گینگ ریپ کا نشانہ بن چکی تھیں۔ پولیس اس واقعے کے بعد پہنچ پائی، اس وقت جب ملزمان فرار ہونے میں کامیاب ہو چکے تھے۔

اس لمحے جب ان کی گاڑی میں پٹرول ختم ہوا تھا، اگر ان کے پاس موبائل فون پر ’وومن سیفٹی‘ ایپلیکیشن موجود ہوتی تو کیا اس حادثے سے بچا جا سکتا تھا؟

سیالکوٹ موٹروے پر پیش آنے والے اس واقعے کے بعد پنجاب پولیس نے حال ہی میں ’وومن سیفٹی‘ کے نام سے ایک موبائل ایپلیکیشن متعارف کروائی ہے۔ اس پر پولیس اور ریسکیو اداروں کی تمام ہیلپ لائن موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’میں بے باک لڑکی ہوں لیکن اس لمحے میرا سانس رُک گیا‘

’خاتون ملازم کو ہراساں کرنے والا بینک اہلکار گرفتار، نوکری سے برخاست‘

تعلیمی اداروں میں جنسی ہراس: ’گھر والوں کو لگتا ہے کہ استاد کبھی غلط نہیں ہو سکتا‘

اس کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا ’الرٹ بٹن‘ ہے۔ کوئی بھی خاتون کسی بھی مقام پر خود کو کسی قسم کے خطرے میں محسوس کرے تو وہ الرٹ بٹن کو دبا دے۔ یوں جی پی ایس کے ذریعے ان کی لوکیشن کے ساتھ پولیس کو ایک الرٹ ملے گا۔

پولیس ان سے تفصیلات لینے میں وقت ضائع کیے بغیر ان کے لیے فوری مدد روانہ کر پائے گی۔ ساتھ ہی پولیس کا نمائندہ ان کو کال بھی کر دے گا۔ وہ چاہیں تو پولیس کے نمائندے سے براہِ راست چیٹ یا بات چیت بھی کر سکتی ہیں۔

اس سے بھی پہلے اس ایپ کو استعمال کرنے والی کوئی بھی خاتون ’لوکیشن ریویو‘ کی سہولت کے ذریعے یہ جان سکتی ہیں کہ ان کی منزل یا جس مقام کی طرف وہ جانا چاہتی ہیں، دوسرے صارفین کی نظر میں وہ کتنا محفوظ یا غیر محفوظ ہے۔

ایپ کے استعمال میں خواتین میں ہچکچاہٹ کیوں؟

ایپ

تاہم لاہور کی رہائشی لینہ غنی اور شمائلہ خان اس ایپ کو اپنے پاس ڈاؤن لوڈ کرنے کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں۔ ایپ کی موجودگی ان کو ’تحفظ کا احساس نہیں دلاتی۔‘

ٹیکسلا کی رہائشی ظلِ ہما کو ایپ کی چند خصوصیات پسند ہیں جیسا کہ لوکیشن ریویو مگر انھوں نے بھی اسے صرف دیکھا ہے اپنے پاس ڈاؤن لوڈ نہیں کیا۔

لاہور ہی کی رہائشی سارہ احمد نے ایپ کو اپنے پاس ڈاؤن لوڈ تو کر لیا ہے مگر وہ کبھی اسے استعمال کریں گی، وہ یقین سے نہیں کہہ سکتیں۔

چاروں خواتین کا خیال ہے کہ اوّل تو ’خوف کے عالم میں ایپ کا خیال کسے آتا ہے۔‘ وہ ملازمت، تعلیم یا کام کاج کے سلسلے میں باقاعدگی سے اکیلے سفر کرتی ہیں۔

ایسے ہی ایک سفر کے دوران سارہ احمد کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آ چکا ہے جب مسلح افراد نے انھیں لوٹنے کی کوشش کی۔

وہ بتاتی ہیں کہ’اس وقت مجھ پر تو کپکپی طاری ہو گئی تھی اور میں نے بدحواسی میں گاڑی ریورس گیئر میں دوڑا دی تھی اور بمشکل ایک بڑے حادثے سے بچی تھیں۔‘

کیا واقعی پولیس مدد کو آئے گی؟

نہ صرف سارہ، باقی تینوں خواتین کو بھی پولیس پر اعتماد نہیں۔ سارہ کہتی ہیں کہ ’الرٹ کا بٹن دبانے کے بعد بھی انھیں یقین نہیں کہ کیا واقعی پولیس ان کی مدد کو پہنچے گی یا نہیں۔‘

لینہ غنی سمجھتی ہیں کہ کسی مشکل صورتحال میں اس ایپلیکیشن کے استعمال کا خیال انھیں سب سے آخر میں آئے گا، ’جب دوسرا کوئی بھی سہارا موجود نہ ہو۔‘

شمائلہ خان کہتی ہیں کہ ’کسی خاتون کے لیے فکر بات کی یہ نہیں ہوتی کہ پولیس کو کال کرنے کے لیے ان کے پاس ایک بٹن نہیں ہے۔ ان کو پریشانی یہ ہوتی ہے کہ اس کے بعد کیا ہو گا۔‘ پولیس کس قسم کے سوالات پوچھے گی اور ان کا رویہ کیسا ہو گا۔

’عورت یہ سوچ رہی ہوتی ہے کہ کہیں پولیس آ کر مجھے ہی تو قصوروار نہیں ٹھہرا دے گی، مجھے ہی تو ہراساں نہیں کرے گی؟ کہیں میرے خاندان کو پتہ تو نہیں چل جائے گا۔‘

سارہ احمد کہتی ہیں کہ ’سچ پوچھیں تو میں پولیس پر اعتماد ہی نہیں کرتی۔ میں ہتھیار پاس رکھنے کو ترجیح دوں گی۔‘

‘کیا مدد مانگنے والی خاتون کی شناخت ضروری ہے؟’

پولیس پر اسی اعتماد کے فقدان کی وجہ سے چاروں خواتین ایپلیکشن پر اندراج کے لیے اپنا نام، فون نمبر اور شناختی کارڈ نمبر کی تفصیلات دینے سے بھی گھبرا رہی تھیں۔

لینہ غنی کو اس بات پر تحفظات ہیں کہ ایپ کو استعمال کرنے والی خاتون کے لیے اپنی شناخت ظاہر کرنا کیوں ضروری ہے۔ ’ہونا تو یوں چاہیے کہ مدد لینے والی خاتون کی تفصیلات پوشیدہ ہوں اور مددگار پولیس کی تفصیلات سامنے ہوں۔ مگر اس ایپ میں الٹا ہے۔‘

سارہ احمد اور لینہ غنی دونوں کے لیے یہ امر بھی اطمینان بخش نہیں کہ ان کی لوکیشن کے بارے میں پولیس کو علم ہو۔ سارہ احمد کہتی ہیں کہ انھیں ’پولیس کی موجودگی سے زیادہ خوف محسوس ہوتا ہے۔‘

میرے پیغامات کے سکرین شاٹ بھی لیے جا سکتے ہیں

لینہ غنی کے خیال میں زیادہ تر خواتین اس ایپ میں موجود پولیس کے نمائندے سے براہِ راست چیٹ یا پیغام رسانی کی سہولت بھی استعمال نہیں کرنا چاہیں گی۔ اس کی وجہ ان کے خیال میں پولیس کی طرف سے ایپ میں معلومات تک رسائی کے حوالے سے شفافیت کا فقدان ہے۔

ہراسانی

’ایک عورت کو نہیں معلوم کے اس کے پیغامات کون پڑھ رہا ہے اور ان تک کس کس کو رسائی حاصل ہے۔ میرے پیغامات کے سکرین شاٹ بھی لیے جا سکتے ہیں اور وہ بعد میں میرے ہی خلاف بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہراسانی اور خصوصاً جنسی ہراسانی جیسے معاملات میں خواتین مردوں سے کھل کر بات کرنا پسند نہیں کرتیں۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ لائن کی دوسری طرف موجود پولیس والا ہراسانی جیسے معاملے کی نزاکت کو کتنا سمجھتا ہے یا نہیں۔

‘اگر مجھے کسی نے ہاتھ نہیں لگایا مگر کوئی ہراساں کرنے والی بات یا اشارہ کیا ہے تو کہیں پولیس والا یہ تو نہیں کہہ دے گا کہ کوئی بات نہیں وہ مذاق کر رہا تھا۔ مجھے نہیں معلوم ان کا رویہ کیسا ہو گا۔’

‘اگر ردِ عمل کا وقت ہو تو اسے آزمایا جا سکتا ہے’

تاہم سارہ احمد سمجھتی ہیں کہ اگر ہنگامی صورتحال نہ ہو اور کسی خاتون کو کسی جگہ ہراسانی یا پریشانی کا سامنا ہو تو اس ایپلیکیشن کا استعمال اور براہِ راست چیٹ کی سہولت سود مند ثابت ہو سکتی ہے۔

‘اگر تو کوئی سامنے سے آ رہا ہے تو آپ کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہو گا کہ آپ ایپ کے بارے میں سوچیں۔ لیکن اگر آپ کے پاس ردِ عمل کے لیے وقت ہے تو آپ ایپ کو آزما سکتے ہیں۔’

ظلِ ہما سمجھتی ہیں کہ پولیس کی طرف سے اس طرز کی ایپلیکیشن بنانا بھی ایک اچھا قدم ہے تاہم اس میں بہتری لائی جا سکتی ہے کیونکہ ایپ کا استعمال بہت ساری شرائط پر منحصر ہے۔

‘پہلے تو آپ کے پاس اینڈرائیڈ سمارٹ فون ہونا چاہیے۔ پھر یہ کہ اگر آپ کسی ایسی جگہ پر ہیں جہاں انٹرنیٹ ہی کام نہیں کر رہا تو آپ کیسے ایپ استعمال کریں گے؟’

تو ایپ کی مدد سے تحفظ کیسے فراہم کیا جا سکتا ہے؟

ایپ

تاہم ظلِ ہما کو ایپلیکیشن کو 'لوکیشن ریویو' والا حصہ پسند آیا کیونکہ وہ اور ان کی بہن اکثر سفر کرتی رہتی ہیں۔ انھیں یہ فائدہ ہو گا کہ پہلے سے پتہ چل جائے گا کہ کوئی مقام کتنا محفوظ ہے۔

لیکن شمائلہ خان کو یقین نہیں کہ پاکستان میں کتنے افراد کسی مقام کے بارے میں ایپ پر اپنے تاثرات چھوڑیں گے اور اگر چھوڑیں گے بھی تو وہ کتنے مستند ہوں گے۔

’عمومی طور پر تو عورت کے لیے کوئی بھی مقام مکمل محفوظ نہیں صرف ریویو پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔‘

وہ سمجھتی ہیں کہ سیالکوٹ موٹروے جیسے سانحات سے بچاؤ کے لیے موبائل ایپلیکیشن کے ساتھ ساتھ پولیس کے نظام اور اس کے کام کے طریقے میں اصلاحات کی زیادہ ضرورت ہے۔

لینہ غنی سمجھتی ہیں کہ اگر ایپ پر معلومات کے تبادلے کے عمل میں شفافیت لائی جائے اور مدد لینے والے کو خفیہ رکھا جائے تو یہ مفید ثابت ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp