بڑھتا ہوا کورونا اور انہونیاں


کووڈ 19 پہلے سے زیادہ تیزی سے پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں پھیل رہا ہے۔ پہلے تو چرچے تھے کہ سمارٹ لاک ڈاؤن اور دیگر حفاظتی اقدامات کے ذریعے اس مہلک وائرس کے بدمست ہاتھی پر قابو پالیا گیا ہے۔ حکومت نے بجا طو ر پر کریڈٹ بھی لیا لیکن ماہر ین کا خیال ہے کہ فتح کے شادیانے بجانے میں عجلت سے کام لیا گیا۔ کچھ ہماری لاپروائی کی بنا پر چند ہفتوں سے کورونا پھر جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے۔ ملک میں کورونا وائرس کے مجموعی مریضوں کی تعداد 3 لاکھ 46 ہزار 476 ہے جن میں سے 3 لاکھ 19 ہزار 431 صحت یاب ہوچکے ہیں جبکہ 7 ہزار سے زائد جان کی بازی ہار گئے ہیں۔

اب بھی فعال کیسز کی تعداد 20 ہزار سے اوپر ہے۔ جون میں وبا کا پھیلاؤ عروج پر تھا جس کے بعد جولائی سے بہتری کا سلسلہ ستمبر تک جاری رہا تاہم اکتوبر سے بتدریج کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھا گا اور اب نومبر میں صورتحال ایک مرتبہ پھر پریشان کن ہوتی جا رہی ہے۔ ستمبر میں فعال کیسز کی تعداد سات ہزار کے لگ بھگ تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ بڑے شہروں میں اب مثبت مریضوں کی تعداد پندرہ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ لاک ڈاؤن کی پالیسی کو ترک کرتے ہوئے سب کچھ کھول دیا گیا۔

شادی بیاہ اور دیگر تقریبات بحال ہو گئیں، سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں کھلنا شروع ہو گئے، ریستورانوں کی رونقیں دوبالا ہو گئیں۔ سماجی میل ملاقات اور معانقے جوش و خروش سے ہونے لگے۔ شہری جو پہلے ہی سماجی فاصلے اور دیگر حفاظتی تدابیر کو زیادہ اہمیت نہیں د یتے تھے مزید شیر ہو گئے۔ حکومت ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے ذریعے کہتی رہی کہ وبا ابھی ٹلی نہیں لہٰذا احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے رہیں ورنہ وبا پھیل جائے گی لیکن عوام پر کوئی اثر نہیں ہوا۔

خدشہ ہے کہ کورونا کا دوسراحملہ شاید پہلے سے بھی زیادہ موذی ثابت ہو لیکن متمول طبقہ اپنی دولت کی ریل پیل اور نمائش کی راہ میں کورونا کوکیونکرحائل ہونے دیتا۔ کورونا کے بارے میں مختلف چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اللہ کا خاص کرم ہے، معاملات قابو سے باہر نہیں ہوئے لیکن جس طرح کورونا کی وبا پھیل رہی ہے خاصی تشویشناک ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری آبادی کی اکثریت دیہی علاقوں میں آباد ہے، یہاں پر ابھی تک خدا کا کرم ہے کہ معاملات قابو سے باہر نہیں ہوئے۔

جس تیزی سے وبا امریکہ اور یورپ میں پنجے گاڑ رہی ہے اس کا تاحال کوئی مثبت توڑ تلاش نہیں کیا جا سکا۔ تاہم تازہ انکشاف ہو اکہ فائزر کمپنی نے ایسی ویکسین تیا رکرلی ہے جس کے 90 فیصد موثر ہونے کو دعویٰ کیا جا رہا ہے، یہ ایک بڑی خبر ہے۔ پاکستان میں کب دستیاب ہو گی حکومت فی الحال خاموش ہے۔ عوام بجاطور پر سوال پوچھتے ہیں کہ جب یہ ویکسین عام دستیاب ہو گی، ، خاک ہو جائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک، ۔ ملک میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بدستور بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔

وزیراعظم عمران خان وقتاً فوقتاً ً اعلان کرتے رہتے ہیں کہ قیمتوں کو نیچے لا رہے ہیں۔ خاص طور پر غذائی اور روزمرہ کے استعمال کی اشیا کی قیمتیں نہ بڑھنے پائیں لیکن روزمرہ کی استعمال کی اشیا کی قیمتیں طلب اور رسد کے اصولوں پر چلتی ہیں حکمرانوں کی خواہش پرنہیں۔ بہرحال وزیراعظم کو بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ اس معاملے میں پوری طرح مستعد او ر چوکس ہیں۔ دوسری طرف خان صاحب نے اعتراف کیا ہے کہ معاشی ٹیم افراط زر کو قابو میں رکھنے میں ناکام رہی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ احکامات بھی صادر کیے ہیں کہ کھانے پینے کی اشیا کی رسد کو بہتر بنایا جائے۔

وزیراعظم نے اس بارے میں حکام کو یہ بھی ہدایت کی کہ میڈیا کو حکومت کی قیمتیں کم کرنے کے حوالے سے کاوشوں سے آگاہ رکھا جائے۔ وزیراعظم بھی سادا دل ہیں کیونکہ صارفین مارکیٹ کا چکر لگاتے ہیں تو انہیں یہ صدمہ ملتا ہے کہ آٹا، دال، چاول، چینی، گھی اور سبزیوں کی قیمتیں ان کامنہ چڑا رہی ہیں، عوام کا پیٹ طفل تسلیوں سے بھرا جا رہا ہے۔ وزیراعظم کے سابق دست راست جہانگیر ترین نے کم ازکم اپنی حد تک سستی چینی فراہم کرنے کی پیشکش کر دی ہے لیکن جب تک کوئی موثر حکمت عملی نہیں بنائی جاتی، مارکیٹ پراسیس کو کنٹرول میں نہیں لایا جاتا قیمتیں معمول پر لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہی ہو گا۔

آ ج کے دور میں کئی انہونیاں ہو رہی ہیں جن کا پہلے تصور بھی نہیں کیاجا سکتا تھا۔ مثال کے طور پر امریکہ کے آئین کے مطابق امریکی نومنتخب صدر جو بائیڈن جنوری میں حلف اٹھائیں گے جبکہ انتخابات 3 نومبر کو ہو چکے ہیں جن میں بالآخر وہ ٹرمپ کو شکست دے چکے ہیں۔ ہارنے والے صدر ٹرمپ مسلسل احکامات جاری کر رہے ہیں اور ان کاکہنا ہے کہ میں تو ہارا ہی نہیں ہوں، میرا مدمقابل جو بائیڈن قابض ہو گیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ نومنتخب صدر کے بجائے اس سے ہارا ہوا شخص صدر کے اختیارات استعمال کر رہا ہے۔

گزشتہ روز ٹرمپ نے سیکرٹری ڈیفنس مارک ایسپر کو اچانک تبدیل کر کے اپنے ایک حواری کرسٹوفر ملرکو فائز کر دیا ہے۔ ایسا کسی نے کبھی دیکھا نہ سنا تھالیکن ہارے ہوئے ٹرمپ کی موجودگی میں سب کچھ ممکن ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صورتحال حال اتنی زیادہ تشویشناک ہو جائے کہ دنیا کی واحد سپرپاور اندرونی طور پر بے اختیار محسوس ہونے لگے۔ کل کلاں اگر امریکہ حالت جنگ میں چلا جاتا ہے تو ٹرمپ اپنے اختیارات کا غلط اور بے جا استعمال کر کے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ امریکہ کا نظام حکومت مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی مرحلے پر امریکی آئین میں اتفاق رائے سے کچھ تبدیلیاں کرنا پڑیں گی لیکن تاحال ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).