مہدی حسن، رفیع، راج کپور اور قسمت کا کھیل


یہ پچاس کی دہائی کا واقعہ ہے۔ ریڈیو پاکستان، لاہور کے ایک پروڈیوسر ہوا کرتے تھے، سلیم گیلانی، جو بعد میں ڈائریکٹر جنرل کے عہدے تک گئے، شاعر بھی تھے، ان کے پاس ایک نوجوان آیا جسے گانے کا بہت شوق تھا۔ سلیم گیلانی نے اس نوجوان کا آڈیشن لیا، آڈیشن میں سلیم گیلانی کو اس کی آواز بہت پسند آئی۔ انہوں نے نوجوان سے کہا کہ تم میں بہت ٹیلنٹ ہے، ایسی آواز ہر کسی کی نہیں ہوتی مگر اس آواز کو ضائع نہ کرنا، کسی ایری غیری جگہ نہ جانا اور نہ ہی میراثیوں کے پاس جا کر اپنے گلے کا ستیاناس کرنا، میں فی الحال ایک تربیتی کورس پر امریکہ جا رہا ہوں، واپس آ کر تمہیں ریڈیو میں گانے کا موقع دوں گا۔

نوجوان یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ گیلانی صاحب امریکہ چلے گئے۔ اتفاق سے امریکہ میں ان کا قیام ضرورت سے زیادہ طویل ہو گیا اور انہیں وہاں تین سال رہنا پڑا۔ جب وہ واپس آئے تو ایک روز اپنے دفتر میں بیٹھے تھے کہ قاصد نے بتایا کہ ایک نوجوان آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ یہ وہی نوجوان تھا جسے سلیم گیلانی نے گانے کا وعدہ کیا تھا مگر وہ اسے بھول چکے تھے۔ نوجوان نے انہیں یاد دلایا کہ آپ کے کہنے کے مطابق میں نے تین برس تک کہیں گانا نہیں گایا، اپنے گلے کی حفاظت کی اور ریاض کرتا رہا۔ گیلانی صاحب اس کی استقامت پر بہت حیران ہوئے، انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیا، نوجوان کو گانے کا موقع دیا، اس کے ٹیلنٹ کو نکھارا اور ایسی تربیت کی کہ وہ کندن بن گیا۔ اس نوجوان نے پھر اپنی آواز کا ایسا جادو جگایا کہ اگلی کئی دہائیوں تک پورے ملک میں بس اسی کا طوطی بولتا رہا۔ نوجوان کا نام مہدی حسن تھا۔

محمد رفیع کو بھی گانے کا بہت شوق تھا، بچپن میں ان کے محلے میں ایک فقیر گا کر بھیک مانگا کرتا تھا، وہ فقیر اس قدر سریلا تھا کہ رفیع صاحب اس کے پیچھے چل پڑتے اور اس کی نقل میں گانے کی کوشش کرتے۔ ان کے اسی شوق کی وجہ سے بالآخر انہیں ایک فلم میں گانے کا موقع مل گیا۔ محمد رفیع نے اپنا پہلا گانا 1944 میں زینت بیگم کے ساتھ پنجابی میں گایا۔ مگر اس کے بعد رفیع کو کافی عرصے تک کوئی قابل ذکر کامیابی نہ مل سکی۔

ویسے بھی اس وقت لاہور میں زیادہ فلمیں نہیں بنتی تھیں، کلکتہ اور بمبئی فلموں کے مرکز ہوا کرتے تھے۔ رفیع صاحب نے کرایہ اکٹھا کیا اور لاہور سے بمبئی قسمت آزمانے پہنچ گئے۔ بمبئی میں انہوں نے کئی سال تک دھکے کھائے، کھولی میں رہے، سخت تنگدستی میں وقت گزارا۔ ایک مرتبہ موسیقار نوشاد نے رفیع کی آواز سنی مگر انہیں چانس نہیں دیا، چکر لگواتے رہے او ر ایک آدھ گانے میں کورس میں کھڑا کروا کے رفیع کی آواز لگوا لی۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ خود نوشاد نے فلمی دنیا میں بہت محنت سے اپنا مقام حاصل کیا تھا اور انہیں یہ گوارا نہیں تھا کہ رفیع جیسے لونڈے آئیں اور ایک ہی ہلے میں گلوکار بن جائیں۔ خیر محمد رفیع نے ہمت نہیں ہاری اور نگار خانوں کے چکر لگاتے رہے، بالآخر انہیں فلم ’جگنو‘ میں گانے کا موقع مل گیا۔ یہ دلیپ کمار اور نور جہاں کی فلم تھی، اس فلم کے بعد دونوں نے کبھی کسی فلم میں ایک ساتھ کام نہیں کیا۔ نور جہاں تو اس وقت بھی سٹار تھی جبکہ دلیپ کمار ’ملن‘ اور ’جوار بھاٹا‘ میں کام کر چکے تھے مگر کوئی نام نہیں بنا سکے تھے۔ شوکت حسین رضوی کی یہ فلم البتہ سپر ہٹ ثابت ہوئی، دلیپ کمار اور محمد رفیع، دونوں کی قسمت بدل گئی، اس کے بعد انہوں نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

اس فلم میں رفیع نے بطور اداکار بھی کام کیا، ایک سین میں کالج کے لڑکے جہاں کورس گا رہے ہیں ان میں محمد رفیع بھی موجود ہیں۔ رفیع صاحب اپنی ذاتی زندگی میں بہت شریف اور سادہ انسان تھا، شراب پیتے تھے اور نہ کسی پارٹی میں جاتے تھے۔ ایک مرتبہ او پی نیر کے گانے کی ریکارڈنگ تھی مگر رفیع کچھ دیر سے پہنچے حالانکہ وہ وقت کے بہت پابند تھے۔ اس سے پہلے نوشاد کے گانے کی ریکارڈنگ میں انہیں دیر ہو گئی تھی، اپنے بھولپن میں رفیع نے یہی وجہ او پی نئیر کو بتا دی، وہ خاصا بد دماغ اور نک چڑھا موسیقار تھا اور نوشاد سے خار بھی کھاتا تھا، رفیع کی بات سن کر اسے بہت غصہ آیا اور کافی عرصے تک وہ ان سے ناراض رہا۔

پرتھوی راج اپنے زمانے کا بہت بڑا اداکار اور تھیٹر کا بے حد کامیاب ڈائریکٹر تھا۔ راج کپور اس کا بیٹا تھا جو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوا تھا۔ پرتھوی راج چاہتا تو راج کپور کو بغیر کسی محنت کے بطور ہیرو کاسٹ کروا سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے برعکس اس نے راج کپور کو کیدار شرما کے پاس اسسٹنٹ ڈائریکٹر رکھوا دیا اور اسے کہا کہ اس کے بیٹے کا کسی قسم کا لحاظ نہ کیا جائے اور اس سے بالکل ویسے ہی کام لیا جائے جیسے اوروں سے لیا جاتا ہے۔

مقصد یہ تھا کہ راج کپور اس پوری مشقت سے گزرے جس سے ہر وہ شخص گزرتا ہے جو فلمی دنیا میں قدم رکھتا ہے۔ واضح رہے کہ لفظ اسسٹنٹ ڈائریکٹر صرف سننے میں بہت معزز لگتا ہے مگر حقیقت میں اس کا کام سیٹ پر ہیرو ہیروئن کی خدمت کرنا، انہیں پنکھا جھولنا، چائے وغیرہ لانا ہوتا ہے۔ جب راج کپور کو بطور اسسٹنٹ اچھی طرح ”رگڑا“ لگ گیا تو بالآخر کیدار شرما نے اسے بطور ہیرو پہلی فلم دی، فلم کا نام ’نیل کمل‘ تھا اور اس کی ہیروئن چودہ برس کی مدھو بالا تھی۔

یہ فلم کامیاب ہو گئی۔ راج کپور کو اس کے بعد دھڑا دھڑ فلمیں ملنا شروع ہو گئیں۔ اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب راج کپور کو کسی اعلیٰ تمغے کے لیے نامزد کیا گیا تو راج کپور نے کہا کہ یہ تمغہ اس کے استاد کیدار شرما سے دلوایا جائے مگر کیدار شرما نے انکار کر دیا، بلکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس بات کا کیدار شرما نے اتنا دکھ منایا کہ کچھ عرصے بعد وہ فوت ہی ہو گیا۔

ان تینوں قصوں میں ایک بات مشترک ہے۔ مشقت۔ ہم اکثر لوگوں کی ’راتوں رات کامیابی‘ پر رشک کرتے ہیں، خاص طور سے فلموں اور شو بز کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ جس کی قسمت اچھی ہو اسے پہلی فلم سے ہی ایسی شہرت ملتی ہے کہ اس کی نسلیں سنور جاتی ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ انگریزی کا مقولہ ہے کہ راتوں رات کامیابی حاصل کرنے کے لیے میں نے کئی برس تک محنت کی۔

کامیابی میں قسمت کا دخل یقیناً ہے مگر مشقت کے بغیر نہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ تیسرے کالے کو چھوتے ہوئے محمد رفیع کا سانس پھول جائے مگر قسمت کے زور پر وہ گلوکاری کے بادشاہ مانے جائیں۔ مشقت اور ہنر مندی مل کر قسمت کو جنم دیتے ہیں۔ یہ مشقت راج کپور کو بھی کرنی پڑتی ہے اور شاہ رخ خان کو بھی۔ شاہ رخ خان کی پہلی فلم یقیناً سپر ہٹ ہوئی مگر اس فلم سے پہلے کئی برس تک وہ مسلسل مشقت کرتا رہا تب جا کر اسے یہ کامیابی ملی۔ رہی بات مقدر کی تو اس کا کام تب شروع ہوتا ہے جب آپ پوری محنت سے دوڑ میں شامل ہوتے ہیں۔

بہترین مثال راجیش کھنہ کی ہے۔ موصوف کی مسلسل چودہ فلمیں سپر ہٹ ہوئیں، یہ پاک و ہند ہی نہیں بلکہ دنیا کا بھی ریکارڈ ہے، یہ ریکارڈ صرف قسمت سے ہی بن سکتا ہے، کیونکہ دنیا میں کوئی ایسا فارمولا نہیں جس کی مدد سے اوپر تلے چودہ فلمیں ہٹ کروائی جا سکیں۔ ہمیں کامیاب لوگوں کی یہ چکاچوند نظر آتی ہے جس کا ہم اپنی زندگی کے بد ترین لمحات سے موازنہ کر کے خوامخواہ دل برداشتہ ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کی مشقت اور ہنر مندی کی نقل کریں، قسمت کی دیوی خود پیروں میں آ کر بیٹھ جائے گی۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada