اصل نئے پاکستان کا راستہ کیا ہے؟


2007 میں ارسلان افتخار کی خلاف ضابطہ پولیس سروس آف پاکستان میں ہونے والی تعیناتی کی رپورٹ ہیرلڈ میں پڑھی تو میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا شدید ناقد بن گیا تھا، لیکن جب وہی افتخار محمد چوہدری زیر عتاب آئے اور انھیں پرویز مشرف کی جانب سے خلاف قانون اپنے عہدہ سے ہٹایا گیا تو میں دیگر وکلا، سول سوسائٹی اور سیاسی کارکنوں کی طرح ان کا ہمدرد اور حامی بن گیا اور عدلیہ بحالی تحریک میں بھر پور حصہ لیا۔

یہ تحریک چونکہ کئی ماہ چلی اور اس دوران ریلیوں میں شریک رہا، سیمینار اٹینڈ کیے، قومی اور بین الاقوامی جرائد میں اس موضوع پر چھپنے والے بے شمار مضامین پڑھے، کئی دانشوروں، قانونی اور سیاسی ماہرین کو سننے کا موقع ملا۔ عدلیہ بحالی تحریک صرف افتخار چوہدری کی بحالی ہی نہیں بلکہ پاکستان میں عدلیہ کی آزادی، جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی بالا دستی کی تحریک بھی سمجھی جانے لگی، شاید یہی عرصہ تھا جب میری عقلی اور جذباتی وابستگی جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے ساتھ بہت حد تک بڑھ گئی۔

عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی ایک چھوٹی جماعت ہونے کے باوجود اس تحریک کے ساتھ پوری سنجیدگی اور مستقل مزاجی کے ساتھ جڑی رہی لہذا میری ان کے لیے پسندیدگی بھی بہت بڑھ گئی تھی۔ اعتزاز احسن کی تو کیا ہی بات تھی کہ اپنے علاوہ وہ واحد شخص تھے جن کی تصویر میں نے اپنے یاہو میسنجر پر کئی مہینے بطور ڈی پی لگائے رکھی۔ ایسے میں جب پیپلز پارٹی نے اپنے آپ کو عدلیہ بحالی تحریک سے دور کرنا شروع کیا تو میرے دل میں پیپلز پارٹی کے لیے ناپسندیدگی پیدا ہونا شروع ہو گئی جو پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت کی جانب سے پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت ختم کر کے گورنر راج نافذ کرنے پر اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی تھی۔ 2008 میں ماڈل ٹاؤن میں جب میاں نواز شریف نے اپنے امیدواروں سے کامیاب ہونے کی صورت میں عدلیہ بحالی کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانے کا حلف لیا تو میں اس تقریب میں سول سوسائٹی کے کچھ دیگر نمائندوں کے ساتھ سٹیج پر موجود تھا۔ وہ جمہوریت کے لیے ایک تاریخی لمحہ محسوس ہوا تھا۔

پھر وقت بدلا افتخار چوہدری بحال ہوئے، پنجاب میں گورنر راج کا خاتمہ ہوا اور پرویز مشرف رخصت ہوئے، مٹھائیاں بٹیں، بھنگڑے ڈلے اور لگا کہ اب بس جمہوریت کا سفر آگے بڑھے گا۔ لیکن کیری لوگر بل کا لوچہ آ گیا، مرکزی حکومت کے خلاف سازشیں نظر آنے لگیں، چوہدری نثار، شہباز شریف اور آرمی چیف کی میثاق جمہوریت کے خلاف ہونے والی ملاقاتوں کے چرچے عام ہونے لگے، پھر کیا تھا کہ افتخار چوہدری اور نواز شریف پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف سازشوں میں یکسو اور ایک پیج پر صاف نظر آنے لگے اور مجھے ڈاکٹر مہدی حسن کا میرے ساتھ ایک مختصر مکالمہ کے دوارن کہا ہوا جملہ سمجھ آنے لگا کہ ”میں تو نواز شریف کے کندھوں پر سوار ہو کر آنے والے شخص کو چیف جسٹس تسلیم نہیں کر سکتا“ ۔

اب کی بار ناپسندیدگی کی لسٹ میں شامل ہونے کی باری نواز شریف اور افتخار چوہدری کی تھی اور یہ ناپسندیدگی میمو گیٹ اور یوسف رضا گیلانی کی برطرفی پر اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی۔ اب میری تمام تر ہمدردیاں اور حمایت پیپلز پارٹی کے لیے تھیں۔ جیسے تیسے کر کے آصف زرداری اور ان کی پیپلز پارٹی پانچ سال پورے کرنے میں کامیاب رہے۔ 2013 کا الیکشن آیا پیپلز پارٹی تو بدقسمتی سے پنجاب میں مقابلہ میں تھی نہیں لہذا میں نے پورے جوش و خروش سے مسلم لیگ نون کے خلاف تحریک انصاف کو ووٹ دیا لیکن جیتی نواز شریف کی مسلم لیگ ن۔

اس سارے عرصہ میں دو چیزیں بہرحال ایسی ہوئیں جنھوں نے پاکستان میں جمہوریت کے تابناک مستقبل کی امید بنائے رکھی۔ جن میں سے ایک تو اٹھارہویں آئینی ترمیم تھی اور دوسری سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ جس کے تحت پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی اور پی سی او کو کالعدم قرار دیا گیا۔ یہ پہلی بار تھا کہ کسی آمر کی آئین شکنی کو عدالت اور پارلیمنٹ کی جانب سے قانونی تحفظ نہیں ملا تھا۔ ایک اور کامیابی جو اس عرصہ میں جمہوریت کو حاصل ہوئی وہ یہ تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کی شدید مخالفت کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون دونوں کی حکومتوں نے اپنی اپنی آئینی مدت پوری کی جو کہ ضیا الحق کے مارشل لا، 90 کی کنٹرولڈ جمہوریت اور پھر پرویز مشرف کے مارشل لا کے بعد یقیناً ایک بڑی کامیابی تھی۔

خیر 2013 کے الیکشن کے بعد آیا 2014 کا دھرنا جس میں سازش کی بو بہت واضح تھی اور یہی وہ وقت تھا جب میں عمران خان اور تحریک انصاف سے بد ظن ہونا شروع ہوا اور میری پسندیدگی اور ہمدردیاں نواز شریف اور اس کی مسلم لیگ نون کے ساتھ ایک بار پھر سے جڑنے لگیں۔ استعفی کا مطالبہ ہو، ایکسٹیشن کے لیے دباو، ڈان لیکس، ریجیکشن والا ٹویٹ یا پھر پانامہ کیس کون کون سی ایسی سازش تھی کہ جس کے لیے عمران خان اور اس کی تحریک انصاف کا کندھا دستیاب اور شامل حال نہ رہا ہو۔

نواز شریف جب تک حکومت میں رہے ان تمام سازشوں کا درست طور پر مقابلہ مصالحانہ، مدبرانہ اور مدافعانہ انداز میں کرتے رہے اور بڑی حد تک کامیاب بھی رہے۔ نہ استعفی دیا نہ ہی ایکسٹینشن۔ پرویز مشرف کا ٹرائل شروع کروایا، ریجیکشن والا ٹویٹ واپس کروایا اور پارٹی کی حکومت نے آئینی مدت بھی پوری کی۔ شاید حکومت میں ہونے کی وجہ سے حقیقت پسندی کا تقاضا بھی یہی تھا کہ جس وقت آصف علی زرداری اینٹ سے اینٹ بجا رہے تھے اس وقت وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے جارحانہ انداز نہ اپنایا جائے اور نپے تلے انداز میں ہی آگے بڑھا جائے۔

یقیناً جمہوریت کا فائدہ بھی اسی میں تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ مجھے ذاتی طور پر حکومت سے ہٹائے جانے کے بعد نواز شریف اور مریم نواز شریف کا پاکستان میں جمہوریت اور قانون کی بالا دستی کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر کھل کر بات کرنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دونوں بطور سیاستدان آج مجھے سب سے زیادہ پسند ہیں۔ لیکن بات جو سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے پاس آج بھی سندھ کی حکومت ہے۔ اس کے حالات مسلم لیگ نون سے بہت مختلف ہیں۔

آج بلاول بھٹو ”مدبرانہ“ انداز اپنانے میں حق بجانب ہیں۔ البتہ ہم اپوزیشن اتحاد میں شامل تمام جماعتوں سے ایک سا انداز اپنانے کی توقع رکھنے میں ہرگز حق بجانب نہیں۔ یہ حقائق سے صرف نظر ہے۔ جمہوریت کا راستہ انقلاب کا راستہ نہیں ہے بلکہ ارتقا کا ہے۔ اس میں کبھی بھی سو فیصد کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ اس میں ہار بھی ہوتی ہے اور جیت بھی۔ اس میں دو قدم آگے بڑھنے کے لیے کئی بار پہلے ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ اس میں برداشت کرنا اور پیچھے ہٹنا زندگی موت کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ دہائیوں نہیں بلکہ سینکڑوں سال کی جمہوری تاریخ رکھنے والوں کو بھی چار برس کے لیے ٹرمپ جیسے سربراہوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔

اپوزیشن اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کا ایک سا جارحانہ انداز اپنانا اہم نہیں۔ نہ ہی حکومت کو عوامی احتجاج کے ذریعے گرا لینا کوئی کامیابی ہو سکتا ہے۔ ہاں اپنی عوامی حمایت کی طاقت کا مظاہرہ کر کے بطور اپوزیشن کردار ادا کرنے، بات کرنے اور حکومتی و ریاستی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرنے کی چھینی گئی سپیس ضرور واپس لی جانی چاہیے۔ نمبر پورے ہونے کی صورت میں آئینی اور قانونی طریقے سے حکومت کی تبدیلی بھی ضرور ہونی چاہیے۔

لیکن جو سب سے اہم ہے وہ میثاق جمہوریت کی طرز پر جمہوریت، سویلین بالا دستی اور قانون کی حکمرانی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے اتفاق رائے سے تیار ہونے والا ایک نیا میثاق ہے۔ یہ میثاق آج وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ آج کثیر عوامی حمایت یافتہ اپوزیشن اتحاد ایسے میثاق کے متعلق یکجا اور سنجیدہ نظر آتا ہے۔ ایسے مواقع بار بار نہیں آتے۔ آج پاکستان میں جمہوریت کے لیے اس سے زیادہ خوبصورت کچھ نہیں ہو سکتا کہ ایک ایسا نیا میثاق وجود میں آئے جس پر تمام اپوزیشن جماعتوں اور سول سوسائٹی کا اتفاق ہو۔

جو کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے ہماری حمایت اور ناپسندیدگی کا معیار ہو۔ جس پر اگلا الیکشن لڑا جائے اور عوامی مینڈیٹ ملنے کی صورت میں اسے آئینی ترمیم کی صورت آئین کا حصہ بنایا جائے، اس پر عملداری کو یقینی بنایا جایے۔ یہ سب یقیناً ایک سنجیدہ جدوجہد اور کمٹمنٹ کا متقاضی ہے، لیکن صرف یہی تبدیلی کا راستہ ہے۔ اصلی نئے پاکستان کا راستہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).