حیات سعدی اور مجلس ترقی ادب کا عہد نو


اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے حکومت پاکستان نے 1950 ء میں ”مجلس ترجمہ“ کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی تھی۔ جس کا بنیادی کام مشرق و مغرب کی اعلیٰ درجے کی علمی کتب کا اردو زبان میں ترجمہ اور اس کی اشاعت

تھا۔ 1954 ء میں ادارے کی تنظیم نو ہوئی اور اس کانام بدل کر ”مجلس ترقی ادب“ رکھا گیا۔ مجلس ترقی ادب اسم بامسمیٰ رہی اور علم و ادب کے فروغ میں گراں قدر ذخیرے کا اضافہ کیا۔ جس کا سبب ان علمی شخصیات کی انتھک محنت تھا جو اس تمام عرصہ میں اس کی نظامت کے منصب پر فائز رہے۔ نظامت کا سب سے زیادہ عرصہ ترقی پسند شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی مرحوم کا رہا ہے، جو کم و بیش بتیس سال تک اس علمی ادارے کے ناظم رہے۔

2013 ء سے اس کی نظامت ڈاکٹر تحسین فراقی فرما رہے ہیں۔ اس سے قبل ادارے کی شائع کردہ کتابوں سے وہی لوگ آشنائی حاصل کرتے تھے تو مطالعے اور تحقیق کے شوق و جستجو میں رہتے تھے۔ لیکن آج ڈاکٹر تحسین فراقی کی کاوشوں سے ادارے نے ابلاغ کے نئے ذرائع کو خوب استعمال کیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ادارے سے شائع ہونے والی کتابوں کی آگاہی کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے۔ ادارہ جہاں نئی ادبی تحقیق کی سرپرستی کرتا ہے وہاں ان شاہکار کتابوں کی اشاعت نو کا بھی اہتمام بھی کرتا ہے جو کئی دہائیوں قبل شائع ہوئیں تھیں۔ یعنی وہ علم کے موتی جو صرف پرانے کتب خانوں کی الماریوں میں بند تھے ان کی اشاعت نو سے نئی نسل کو متعارف کروایا جا رہا ہے، جو خود ایک عظیم اور بڑا کام ہے۔ اشاعت نو میں اس بات کا خصوصی خیال رکھا گیا کہ سابقہ ایڈیشنوں کی اغلاط کو درست کیا جائے۔

مجلس ترقی ادب نے ابھی حال ہی میں شمس العما خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی تصنیف ”حیات سعدی“ کوازسر نو شائع کیا ہے جو اردو ادب میں اپنی طرز کی پہلی سوانح عمری ہے۔ اسی لئے حالی کو اردو زبان میں سوانح عمری کا امام بھی کہا جاتا ہے۔ سعدی کی فصاحت و بلاغت، انسان دوستی اور آفاقی افکار کے معترف مشرق و مغرب دونوں میں موجود ہیں۔ فارسی زبان جس نے صدیوں تک برصغیر میں دفتری اور ثقافتی زبان کا درجہ حاصل رہا ہے، آج اپنے زوال کی آخری درجے پر ہے۔ فارسی پر پہلا ظلم انگریز نے کیا اور دوسرا عصر حاضر کی بے مقصدیت نے، جسے ہم عہد جدید بھی کہتے

ہیں۔ فارسی کی جس کتاب نے مذہب اور جغرافیائی قیود سے آزاد ہو کر بر صغیر میں ذہنوں پر اثر انداز ہوئی وہ سعدی ہی کی گلستان ہے۔ گلستان بنیادی طور پر اخلاقی مضامین اور پند و نصائع پر مشتمل ہے۔ اگرچہ فارسی ہی میں حکایات لقمان اور بہارستان جامی بھی ہیں لیکن جو موضوعات کا تنوع اور طرز بیان گلستان کا ہے وہ کسی اور میں نہیں ہے، یہی سبب ہے کہ جو مقبولیت گلستان کو حاصل ہے وہ اس نوعیت کی کسی اور کتاب کو نہیں مل سکی ہے۔ سعدی جن کی وفات کو سات سو برس سے زائد عرصہ بیت چکا ہے ان کی مقبولیت آج بھی موجود ہے اوران کے کلام کے نئے نئے زاویے اہل علم تلاش کر رہے ہیں۔

”حیات سعدی“ کا پہلا ایڈیشن 1886 ء میں شائع ہوا تھا، اور تازہ ایڈیشن دسمبر 2019 ء میں مجلس ترقی ادب نے شائع کیا۔ کتاب کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن ڈاکٹر تحسین فراقی نے اپنے مقدمے میں سعدی کے حوالے جو علمی تحقیق بیان کی ہے، میرے ایسے طالب علموں کے لیے نہایت اہم ہے اور سعدی کے متعلق مطالعے کا اشتیاق بھی کرتا ہے۔ مقدمے ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ گلستان کے دیباچے کے ابتدائی اشعار پر گوئٹے کی پانچ سطروں کی ایک نظم ہے، جس کی چوتھی سطر خود اس کا اضافہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گوئٹے کا فلسفہ جدلیات پر جسے بعدمیں ہیگل نے ایک مربوط فلسفے کی شکل دی، اس کی بنیاد گلستان کا دیباچے کا مذکورہ اقتباس ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مقدمے میں سعدی پر براؤن کی ان تنقیدات کا بھی جواب دیا ہے جو اس نے تاریخ ادبیات ایران جلد دوم میں سعدی سے متعلق مقالے میں کی ہیں۔

سعدی سے متاثر ہونے والوں میں ہائنے ( 1856۔ 1797 ) گوئٹے کا کم عمر معاصر تھا، اسے سنسکرت اور فارسی شاعری سے عشق تھا، اور اس درجے کا تھا کہ وہ خود کو اپنے ہی ہم وطنوں میں اجنبی محسوس کرتا تھا۔ اسے مشہور اشعار ہیں :

”O Firdusi, O Jami, O Saadi,
Wie elend ist euer Bruder!
Ach wie sehne ich mich natch dem
Rosen von Schiras ”

ڈاکٹر تحسین فراقی بتاتے ہیں کہ ہائنے کی یہی فریاد ہے جس کا ترجمہ اقبال ؔ نے پیام مشرق کے دیباچے میں ان لفظوں میں درج کیا ہے ”اے فردوسی! اے جامی! اے سعدی! تمھارا بھائی زندان غم میں اسیر شیراز کے پھولوں کے لیے تڑپ رہا ہے۔“

حیات سعدی کے اس ایڈیشن میں حالیؔ کا بیان اور فراقی صاحب کا مقدمہ بقول چراغ حسن حسرت ”اک عشق کا آفت اس پہ یہ دل آفت“ ہے اور ہمیں سعدی کے وسیع تناظر سے آگاہ کرتا ہے۔ آج جب کہ مادی وسائل کے حصول کی دوڑ تیز سے تیز تر اور اقدار معدوم ہوتی جا رہی ہیں ایسے

زوال پذیر سماج میں شیخ سعدی کا مطالعہ اور ان کی فکر کا فروغ امید صبح بہار کا بہترین زاد راہ ہے۔ امید ہے کہ مجلس ترقی ادب کی کاوشیں رنگ لائیں گی۔

حاجی حق نواز جوئیہ کی رحلت

گزشتہ ہفتے دیپالپور موضع باہری پور میں حاجی حق نواز جوئیہ اس جہان فانی کو الوداع کہہ کر اپنے رب کے حضور ہمیشہ کے لیے حاضر ہو گئے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔ وہ رشتے میں میری اکلوتی بہن کے سسر تھے اور ہمارے پورے خاندان کے لیے دعاؤں کا منبع۔ حاجی صاحب اپنی معاشی ذمہ داریوں کو با احسن نبھا کر، اب اپنی سماجی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے اپنے خاندان کے لیے ایک سایہ دار اور گھنے شجر کی اہمیت رکھتے تھے۔ قرآن مجید جس نفس مطمئنہ کا ذکر کرتا ہے اسے میں نے عملی طور پر حاجی صاحب کی شخصیت میں دیکھا۔

جب تک صحت نے اجازت دی نماز پانچ وقت نماز باجماعت ادا کرتے۔ کچھ عرصے سے چلنے میں کچھ دقت محسوس کر رہے تھے تو گھر پر ہی نماز ادا کرتے تھے۔ جس بے قراری اور بے تابی سے نماز کے وقت کا انتظار کرتے، بہت کم لوگوں میں یہ شوق اب تک دیکھا ہے۔ نیک اور محبت کرنے والی شخصیت تھے۔ طبیعت بگڑی اور چند لمحوں میں جاں اس جاآفرین کے اس طرح سپرد کی کہ چہرہ اس وقت بھی قبلہ رخ تھا۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).