پاکستان اور مذہبی شدت پسندی


پاکستان سے مراد ایک ایسی ریاست ہے۔ جس کے بانیوں کے منشور کے مطابق پاکستان مذہبی تو تھا لیکن ایسا مذہبی جس میں رہنے والے تمام گروہ، فرقے اور مذاہب بغیر کسی تفرقے کے اس میں ایسے رہ سکیں گویا یہ ان کی اپنی جاگیر ہو۔ بانیان پاکستان اور آج کے پاکستان میں فرق کوہ ہمالہ کی بلندیوں سے بھی زیادہ ہے۔ بانیان پاکستان سے مراد وہ پاکستان تھا جس میں ایک شیعہ گورنر جنرل، ایک ہندو وزیر قانون، ایک احمدی وزیر خارجہ، ایک عیسائی سپیکر اسمبلی اور ایک سنی وزیراعظم تھے۔

ایسی فقید المثال ملی یکجہتی یقینی طور پر کسی بڑے مقصد کی تکمیل کا ہی پیش حیمہ ہو سکتی ہے۔ مگر آج میرا قلم یہ لکھتے ہوئے انتہائی شرمسار ہے کہ ہم نے یقینی طور پر بانیان پاکستان کی روحوں کو بے چین کرنے کا سامان خود اپنے ہاتھوں سے اکٹھا کر رکھا ہے۔ پاکستان گزشتہ پانچ دہائیوں خصوصی طور پر ضیاء آمریت سے ایسے مذہبی شدت پسندی کے دور میں داخل ہوا کہ بس پھر پھسلتا پھسلتا شدستان کی شکل اختیار گیا۔

پاکستان میں گزشتہ دنوں میں پھیلنے والے شدت پسندی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ وقت کے مصلحت پسندوں نے نظریہ ضرورت کے تحت ایسے ناعاقبت اندیش اور گھناؤنے تجربات انجام دیے کہ ان کی تفصیل روح کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہے۔ پے در پے ناکام تجربات نے اس ملک کو ناکام تجربات کی وہ آماجگاہ بنا دیا ہے جو اپنے شہریوں کے لئے وبال جان بن چکی ہے۔ جہاں مذہبی شدت پسندی، قتل و غارت اور اہانت مذہب جیسے مسائل کو اپنے ذاتی عزائم کی تکمیل کے لئے استعمال کرنا شیطان صفت لوگوں کا وتیرہ بن چکاہے۔

حالیہ شدت پسندی کے واقعات دیکھ کر یورپ کے چودھویں صدی سے ستہرویں صدی تک کے اس ظالمانہ دور کی یاد تازہ ہو گئی جب بے گناہ عورتوں کو جائیداد نہ دینے اور ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ان پر جادوگری ہونے کا الزام لگا کر پادریوں کی مدد سے انہیں زندہ جلائے جانے کے مذہبی فیصلوں کا استعمال ذاتی منشا کی تکمیل کے لئے کیا جاتا تھا۔ آج کا پاکستان کسی لحاظ سے اس قدامت پسند مذہبی شدت پسند معاشرے سے پیچھے نہیں رہا اور آئے روز ذاتی مخالفین کو نقصان پہنچانے کے لئے مذہبی قوانین کا ناجائز استعمال ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔

پاکستان کے ریاستی ادارے ایسے واقعات سدباب کرنے کی بجائے مذہبی پجاریوں کے آگے بھیگی بلی کا سا منظر پیش کر رہے ہیں اور گویا جیسے قانون آئین ریاست نام کی چیز کا وجود ناپید ہو گیا ہو۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے نیشنل ایکشن پلان کے تحت ریاست اور مذہبی طبقے اس حوالے سے ہم آہنگی پیدا کرنے اور مسائل کے حل کے لئے یکساں کوششوں کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے ورنہ اس ملک کو مذہبی شدت پسندوں کی بھینٹ چڑھنے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔ مذہبی تقریروں اور خطبات کو ریاست کے بیانیے کے مطابق ترتیب دلوانے اور مذہبی طبقے کو امن پسندی کی تبلیغ کے لئے ریاست اور مذہبی طبقے کو ایک پیج پر آنا ہو گا۔ تبھی فرقہ پرستی اور شدت پسندی کی اس آگ کو بجھانے میں مدد مل سکے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).