محترم وزیر اعظم! واقعی کامیڈی ہو رہی ہے


آئی جی سندھ پولیس کے تحفظات کی تحقیقات مکمل، پاک فوج نے رینجرز اور آئی ایس آئی کے متعلقہ افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹادیا۔ کس قدر خوبصور ت خبر ہے۔ اس تحقیق کے مکمل ہونے پر میں سب سے پہلے عمران خان حکومت کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کیونکہ آج نہیں تو کل کوئی حکومتی نمائندہ اس اہم ترین تحقیق کا کریڈٹ انہیں دے ہی دے گا تو کیوں نا آج ہم سب سے پہلے یہ کام کر لیں۔ ویسے یہ مبینہ اعلامیہ کس پلیٹ فارم پر جاری کیا گیا ہے اس بارے شعبہ تعلقات عامہ کا ٹویٹر اور ویب سائٹ خاموش ہیں، ممکن ہے میڈیا چینلز کو کانفیڈینشل موصول ہوا ہو۔

اس خبر پر رد عمل آنے کا سلسلہ بھی جاری ہے، پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین کے چیئرمین اور متعلقہ شکایت کرنے والے بلاول بھٹو زرداری نے اس کا خیر مقدم کیا ہے، حکومت سابقہ روایت برقرار رکھتے ہوئے تحقیقاتی رپورٹ آنے پرایک بار پھر خوش ہے، ساتھ ہی سندھ حکومت پر ”باغی سندھ پولیس افسران“ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کر رہی ہے، یہ کن افسران کے خلاف کس کارروائی کا مطالبہ کررہی ہے اس کے لیے علیحدہ سے تحقیق کرنا پڑے گی۔

میں نہ مانو والے میاں صاحب نے اسے ”ریجیکٹ“ کر دیا ہے جبکہ قریبا دس دن پہلے ہی انہوں نے آئی جی اغوا معاملے کی تحقیقات منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا تھا۔ بہت سے لوگون کا خیال ہے نواز شریف نے چار برس پہلے ڈان لیکس تحقیقات کی روشنی میں اٹھائے گئے اقدامات پر اس وقت شعبہ تعلقات عامہ کی ریجیکٹڈ والی ٹویٹ کا جواب دیا ہے۔ اس جواب سے میاں صاحب کے مانند اونٹ کینہ پرور ہونے کے خیال کو تقویت ملتی ہے جو محض موقع کی تلاش میں ہے کب موقع آئے اور وہ اپنا کینہ ظاہر کردے۔

اس ساری صورتحال میں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اصل معاملہ تو دب گیا، اصل معاملہ تھا کیا؟ کیپٹن صفدر کا مزار قائد پر نعرے بازی کرنا اور مزار قائد کی توہین کرنا۔ دو نعرے ”جذبات“ میں آ کر کیپٹن صفدر نے لگائے ووٹ کو عزت دو، اور مادرملت زندہ باد یہ نعرے یقیناً توہین کے زمرے میں آتے ہوں گے جب ہی تو فوری ایف آئی آر کٹ گئی اور چوبیس گھنٹے کے اند ر ہی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی۔ جو ہوا، نہیں ہونا چاہیے تھا، سیاسی نعرے بازی سیاسی میدانوں میں ہی اچھی لگتی ہے مگر یہ اصول مزار قائد تک محدود نہیں ہونا چاہیے، صحن مسجد ہو کہ غار حرا یا کوئی اور مقدس مقام، مقام عبادت ہے وہاں سیاسی نعرے لگانا یا لکھنا گناہ نہیں تو اور کیا ہے۔ نفرت کی سیاست میں آپ اتنے اندھے ہوجائیں کہ مقدس مقامات کا خیال تک نہ رہے یہ نہایت افسوس کا مقام ہے۔

مزار قائد کا تقدس دیکھنا ہو تو یوم آزادی کی چند تصاویر و ویڈیوز ہی کافی ہیں جب سیٹیوں سے قائد کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا تھا اور بعض لوگ سلامی کے واسطے مثل سپائیڈر مین مزار کی دیواروں پر چڑھ رہے تھے۔ اس پر کتنی ایف آئی آر کٹیں اور کتنی گرفتاریاں ہوئیں یہ معاملہ بھی تحقیق طلب ہے۔ مزار ہی کیوں قول قائد بھی تو تقدیس کا متقاضی ہے، قائد کہیں کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ہونا چاہیے تو کیا ایسا ہو رہا ہے؟ قائد کہیں کہ مذہب عبد و معبود کے مابین معاملہ ہے، ریاست کو اس میں دخل نہیں، تو ریاست دخل اندازی کیونکر کرے؟ قائد کہیں کہ فوج کا کام سیاست میں دخل اندازی نہیں تو کیوں ”چند جذباتی“ لوگ جب چاہیں سیاسی بساط لپیٹ دیں؟

آخر میں خان صاحب کی ایک بات سے اتفاق کرتے ہوئے یہ بتانا چاہتا ہوں، خان صاحب جسے ”کامیڈی“ سمجھ رہے ہیں، یہ کامیڈی پچھلے تہتر برس سے حقیقتاً ہو رہی ہیں، اب اسے بند ہوجانا چاہیے اس سے ملکی وقار مسلسل داغدار ہو رہا ہے۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں، جذبات قابومیں رکھیں، عوامی دباؤ کا کوئی پتا نہیں کب کہاں کس پر آ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).