احسن اقبال کی ٹوئٹ ری ٹوئٹ کرنے پر امریکی سفارت خانے کی معذرت


امریکہ کے اسلام آباد میں قائم سفارت خانے نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کی ایک ٹوئٹ ری ٹوئٹ کرنے پر معافی مانگ لی ہے۔

احسن اقبال نے امریکی اخبار ‘واشنگٹن پوسٹ’ کے ایک مضمون کی سرخی ٹوئٹ کی تھی جسے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ری ٹوئٹ کیا گیا۔

بعد ازاں یہ ری ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دی گئی لیکن سوشل میڈیا پر سفارت خانے کے خلاف ٹوئٹر پر ایک مہم شروع ہو گئی اور امریکی سفارت خانے پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا۔

پاکستانی سوشل میڈیا صارفین بدھ کی صبح سے امریکی سفارت خانے سے معافی مانگنے اور معاملے کی وضاحت دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

وفاقی وزیرِ برائے انسانی حقوق شیریں مزاری اور گورنر سندھ عمران اسماعیل نے بھی سفارت خانے سے معافی کا مطالبہ کیا تھا۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پاکستان میں کئی گھنٹوں سے #ApologiseUSembassy ٹرینڈ کر رہا ہے۔ پاکستانی صارفین اس ٹرینڈ کے تحت امریکی سفارت خانے کو اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں۔

معاملہ کیا ہے؟

یہ معاملہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کی ایک ٹوئٹ سے شروع ہوا جس میں انہوں نے واشنگٹن پوسٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون کی ہیڈ لائن کی تصویر پوسٹ کی تھی۔ سرخی امریکی انتخابات کے نتائج اور صدر ٹرمپ کی ممکنہ شکست سے متعلق کچھ یوں تھی۔

“ٹرمپ کی شکست دنیا میں عوام کو اکسانے والے سیاسی رہنماؤں اور آمروں کے لیے دھچکا ہے”

احسن اقبال نے اپنی اس ہیڈ لائن کو ٹوئٹ کرتے ہوئے ساتھ میں لکھا کہ ہمارے پاس بھی پاکستان میں ایک ایسا ہی شخص ہے۔ اسے بھی جلد باہر کا راستہ دکھا دیا جائے گا۔

اس ٹوئٹ کو امریکی سفارت خانے کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ری ٹوئٹ کیا گیا اور بعد ازاں ڈیلیٹ کر دیا گیا۔

صوبۂ سندھ کے گورنر عمران اسماعیل نے ٹوئٹ کیا کہ یہ سراسر مضحکہ خیز ہے۔ آپ کیسے ہمارے وزیرِ اعظم کے خلاف ایسا ٹوئٹ کر سکتے ہیں۔ یہ سفارتی آداب کے بھی خلاف ہے۔ اگر اکاؤنٹ ہیک ہوا ہے یا یہ ٹوئٹ جعلی ہے تو فوری وضاحت اور معافی مانگنی چاہیے

۔ عمران اسماعیل نے پاکستان کی وزارتِ خارجہ سے بھی اس عمل پر ایکشن لینے کا مطالبہ کیا۔

پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ امریکی سفارت خانہ اب بھی “ٹرمپین موڈ” میں کام کر رہا ہے، اشتہاری مجرم کی حمایت کر رہا ہے اور پاکستان کی اندرونی سیاست میں دخل اندازی کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکی سفارت خانے کو سفارتی آداب کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس ٹوئٹ کی وضاحت دی جائے اور معافی مانگی جائے۔

اس کے علاوہ ٹوئٹر پر سیکڑوں ٹوئٹس کی گئیں جن میں امریکی سفارت خانے سے معافی کے مطالبات کیے گئے جس کے بعد امریکی سفارت خانے نے معافی کا ٹوئٹ کر دیا ہے۔

سفارت خانے نے اپنے بیان میں معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد میں قائم امریکی سفارت خانے کے ٹوئٹر اکاؤنٹ تک گزشتہ شب بغیر اجازت رسائی حاصل کی گئی۔ امریکی سفارت خانہ اس دوران پوسٹ ہونے والے کسی ٹوئٹ، ری ٹوئٹ یا سیاسی پیغامات کی توثیق نہیں کرتا۔

بیان میں کہا گیا کہ سفارت خانہ اس پوسٹ سے پیدا ہونے والی کنفیوژن پر معذرت خواہ ہے۔

سفارت خانے کے اس بیان اور معافی کے باوجود بعض لوگ امریکی سفارت خانے کی وضاحت سے مطمئن نہیں ہیں اور ٹوئٹر پر اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔

ایک صارف نے لکھا کہ ہماری کیمپین نے سفارت خانے کو معذرت پر مجبور کر دیا لیکن یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ کوئی شخص امریکی سفارت خانے کے ٹوئٹر اکاؤنٹ تک رسائی کی بھی جرات کر سکتا ہے اور بلا اجازت پوسٹ بھی کر سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa