جنید جمشید سے بغض یا محض بے حسی


\"junaid-jamshed\"پاکستان کا شاید ہی کوئ انسان \” دل دل پاکستان ،جان جان پاکستان \” کے جادو سے بچا ہوا ہو گا اور شاید ہی کوئی جیند جمشید کے نام سے ناواقف ہو۔ اگر آپ اسے ایک سنگر کی حیثیت سے نہی جانتے تو یقینا جے جے  کے نام سے لازمی واقفیت رکھتے ہوں گے۔

کل کی بات لگتی ہے جب چند برگر نوجوان لڑکوں نے اچانک دل دل پاکستان گا کے اپنی ایک شناخت بنائی تھی۔ چار خوبصورت لڑکے، اچھے گھروں سے آئے ہوئے تعلیم یافتہ جو اچھی شاعری والے گانے گاتے اور بات کرنے کا سلیقہ بھی رکھتے تھے، ایک دم مشہور ہو گئے۔

پھر اسی میں سے ایک خوبرو لڑکے نے اپنے کیریئر کے عروج پہ جا کے میوزک چھوڑ کے کپڑے کے کام میں ہاتھ ڈالا اور داڑھی رکھ کے اپنا ظاہری حلیہ بھی بدل ڈالا۔ تبلیغ کے کام میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا اور اسی سلسلے میں کل اپنے مالک حقیقی سے جا ملا۔

دیکھا جائے تو بات مکمل ہے۔ کہانی ختم ہو چکی۔ کیسے ایک دنیاوی انسان نے خود کو بدلا اور دین دنیا کو ساتھ چلانے کی اپنی سی کوشش کی، لیکن بحثیت \”بے حس قوم\” اب ہمارا کام شروع ہوتا ہے۔

کل سے ایک سوال میں خود سے کررہی ہوں اور اس کا جو جواب مجھے مل رہا ھے وہ مایوس کن بھی ہے اور تباہ کن بھی۔

کل جو بھی ہوا، کسی بھی شخص کی لاپرواہی ہو یا تکنیکی غلطی ہو، حتمی نتیجہ یہ ہے کہ سینتالیس لوگ اللہ کے پاس جا چکے اور گزر جانے والے کے بارے میں ہمارا دین ہمیں حکم دیتا ہے، \”ان کو اچھے الفاظ میں یاد کرو\”۔

لیکن کل سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ تین قسم کے لوگ سوشل میڈیا پہ نظر آرہے ہیں\"junaid-jamshed\"

ایک وہ طبقہ ہے جو مرنے والے سینتالیس لوگوں کو چھوڑکے صرف ایک انسان کے پیچھے لگا ہے کسی طرح اس کو \”شہید\” قرار دیا جائے۔ اس کی پڑھی نعتیں، مرثیے اور باتیں ایک تسلسل سے دہرائی جارہی ہیں کہ کسی بھی طرح وہ ایک نیک، پرہیزگار اور متقی انسان ثابت ہوجائے۔

دوسری طرف ایک مافیا نما گروہ اسے \” کافر \” قرار دیئے جانے پہ تلا بیٹھا ہے۔ گزر جانے والے انسان کے توہین آمیز خاکے بنا کے، اس پہ طنزیہ جملے لکھ کے، اپنے تیئں اسلام کی کوئی خدمت کر رہے ہیں۔

تیسرا طبقہ اس انسان کو اتنی اہمیت دینے پہ چڑا ہوا ہے۔ باقی لوگ انسان نہیں تھے جو صرف ایک بندے کا نام ہی ہائ لائٹ ہو رہا ہے، وہ بھی ایسا بندہ جو ساری زندگی گانا گاتا رہا، پھر گانا چھوڑ کے مہنگے کپڑے بنا کے بیچتا رہا اور اب آخر میں لوگ اسے متقی بنانے پہ تل گئے ہیں۔

یہ ہے ایک نیوکلئر پاور رکھنے والی قوم کی ذہنی پستی، جو کبھی بھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتی.

جانے والے جا چکے، اب وہ جانیں ان کا خدا جانے، ہم آپ فتوے دائر کرنے کا حق نہی رکھتے نا ہی ان کے پیچھے رہ جانے والے ورثا کا دل دکھانے کا حق رکھتے ہیں۔

یاد رکھیں کہ ہم اس کے امتی ہیں جو ایک یہودی کے جنازے کے احترام میں خاموش ہوکے ایک طرف ہوگئے تھے کہ وہ بہرحال انسان تھا، جبکہ کل کے حادثے میں تقریبا سارے \”مسلمان\” تھے

اچھے مسلمان تھے یا برے، اس کا فیصلہ اب اللہ خود کرے گا، ہم آپ کے بولنے سے کوئی فرق نہی پڑے گا

براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں، جانے والے بےشک اب آپ کے کسی سوال کا جواب نہی دے سکتے لیکن ان کے خاندان والے زندہ ہیں، ان کے دل دکھانے کا سبب نہ بنیں، دعائے خیر نہیں کر سکتے تو بدکلامی بھی نہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments