گلگت بلتستان الیکشن 2020ء: قومی سیاست کی سمت بھی متعین کرے گا


گلگت بلتستان آج کل ملکی سیاست کا محور بن گیا ہے۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ یہاں ہونے والے انتخابات ملک کے آئندہ کی سیاست کی سمت کا تعین کریں گے۔ تجزیہ یوں کیا جاتا ہے کہ اگر حکمران جماعت یہاں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اپوزیشن کی گیارہ جماعتوں پر مشتمل اتحاد کے حکومت کا غیر مقبول ہونے کا دعویٰ دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ اگر یہ کامیابی حزب اختاف کی بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ کے حصے میں آجاتی ہے تو حمکمران جماعت کو پورے ملک میں دھچکا لگے گا۔

حکمران جماعت کو گلگت بلتستان میں حکومت بنانے کے لئے خود اکثریت حاصل کرنی ہوگی یا آزاد جیتنے والوں کو اپنے ساتھ ملانا ہوگا کیونکہ وزیر اعظم عمران خان حزب اختلاف کی جماعتوں کو چور کہتے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر حکومت بنانا تو درکنار بیٹھنا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔ آزاد جیتنے والے گھوڑوں کو نکیل ڈال کر حکمران جماعت کے اصطبل تک لانے کے لئے دیدہ و نادیدہ ہاتھوں کی صفائی میسر ہوئی تو یہ کرشمہ بھی ہو سکتا ہے۔

مگر حزب اختلاف کی جماعتوں خاص طور پر مصالحت کے گرو آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی کو کسی کے ساتھ بھی بیٹھنے میں کوئی دقت نہیں ہوگی، نہ اس کو مسلم لیگ اور نہ ہی جمیعت علمائے اسلام سے کوئی مسئلہ ہوگا۔ آزاد جیتنے والوں پر اگر ریاستی دباؤ نہ آیا تو وہ بھی وہی پدھاریں گے جہاں سبزہ زیادہ ہوگا۔

ملکی سیاست بھی اس بار گلگت بلتستان کے انتخابات پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ گلگت میں بیٹھے بلاؤل بھٹو کے نواز شریف سے کچھ پس چلمن کرداروں کا نام لینے پر اختلاف کو خاص طور پر اہمیت دی جا رہی ہے۔ اس دوران پاکستان کی سب سے طاقتور اسٹبلشمنٹ کی طرف سے آئی جی سندھ کے مبینہ اغوا کے واقعہ کی تحقیقاتی رپورٹ کو بھی سیاسی حلقے اگر آبپارہ کو نہیں تو کم از کم جوٹیال کے غیر جانبدار رہنے کی طرف اشارہ قرار دے رہے ہیں۔

میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اس بار یہ انتخابات گلگت بلتستان میں محض وفاق کی حاشیہ بردار حکومت کے قیام سے بڑھ کر منعقد کیے جا رہے ہیں۔ اگر پاکستان کے قومی سلامتی کے اداروں کو اس خطے میں کسی قسم کی سیاسی، قانونی اور آئینی پیش قدمی کرنی ہے تو اس کے لئے یہاں سے منتخب ہونے والی اسمبلی کے انگوٹھے کے علاوہ ایک موثر آواز کی بھی ضرورت ہوگی جو مقامی، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مجوزہ اقدامات کے لئے رائے ہموار کرسکے، جس کے ریاستی ادارے خواہاں ہیں۔ یہ کام صرف تنخواہ، مراعات اور ترقیاتی سکیموں کے لئے حکومت میں شامل ہونے والے نام نہاد ایلکٹیبلز سے ہو نہیں سکے گا اس کے لئے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے غیر روایتی نمائندوں کی ضرورت ہوگی۔

پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے انتخابات کے ضابطہ اخلاق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وفاقی وزراء انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ حکمران جماعت نے زیادہ تر انتخابی ٹکٹ ان کو دیا ہے جو ہر بار سیاسی جماعتیں بدلتے آئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جو مشرف کے بعد ق لیگ، نواز لیگ کا حصہ رہے ہیں۔ وزراء کی طرف سے مختلف منصوبوں کے اعلان کے علاوہ عمران خان نے بھی عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کیا ہے جس پر حکمران جماعت اپنی کامیابی کے لئے بہت پر امید ہے۔

انتخابی مہم کے دوران کچھ وزراء خاص طور پر علی امین گنڈا پور وفاقی وزیر برائے گلگت بلتستان و آزاد کشمیر کی مخالفین کے بارے میں بدزبانی پر پورے ملک کے سماجی و سیاسی جماعتوں کی طرف سے مذمت کے علاوہ گلگت بلتستان کے سنجیدہ حلقوں کی طرف سے بھی اس طرز عمل کو علاقے کی روایات کے خلاف گردانتے ہوئے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔

بیانات و تقاریر سے لگتا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت کو گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے بارے میں زیادہ سمجھ ہے نہ دلچسپی اس لئے ان کی انتخابی مہم زیادہ ترقیاتی منصوبوں کے وعدوں اور مخالفین پر روایتی بہتان تراشی پر مبنی ہے۔

مسلم لیگ نواز گزشتہ پانچ سال گلگت بلتستان پر حکومت کرتی رہی ہے جو اپنی کارکردگی کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ اس جماعت کے بیشتر سابق وزراء، مشیر اور ارکان اسمبلی اب تحریک انصاف کو پیارے ہوچکے ہیں وہ اپنی ہی سابقہ جماعت کے خلاف انتخابات لڑتے ہوئے گوں مگوں کی کیفیت میں نظر آتے ہیں۔ تحریک انصاف کا مفلر گلے میں ڈالے اپنی کارکردگی کی تعریف کرتے ہیں تو کریڈٹ مسلم لیگ نون کو جاتا ہے جو مد مقابل ہے اگر شکایت کرتے ہیں تو ان کی اپنی کارکردگی بھی صفر ہو جاتی ہے۔

مسلم لیگ نون گلگت بلتستان کے مستقبل کے بارے میں اپنی مرتب کردہ سرتاج عزیز کی رپورٹ پر عمل کرنے سے قاصر رہی جس کی بنیاد پر اب پاکستان کے قومی سلامتی کے ادارے یہاں اصلاحات کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس کی وجہ اس خطے کے بارے میں پائی جانے والی گلگت بلتستان کا کشمیر کے ساتھ الحاق کی سوچ ہے جس کے ساتھ مسلم لیگ کی مقامی قیادت بھی کھڑی ہے۔ مسلم لیگ نون گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کے بارے میں اب تک تذبزب کا شکار ہے اس لئے انتخابی مہم میں اس کے قائدین اس بارے میں چپ اور مقامی قیادت کا لہجہ معذرت خواہانہ نظر آتا ہے۔

گلگت بلتستان کی انتخابی مہم بلاؤل بھٹو کا بطور نوجوان چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی انتخابی سیاست میں قیادت کا عملی آغاز یا ڈیبیو بھی ہے۔ گلگت بلتستان کے بارے میں پیپلز پارٹی کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے 1974 ء کے اصلاحات، بے نظیر بھٹو کے 1994 ء کی اصلاحات اور آصف علی زرداری کے 2009 ء کی اصلاحات کا ذکر کرتے ہوئے بلاؤل بھٹو کے لہجے میں تفخر اور آواز گرجدار ہوجاتی ہے۔

بلاؤل بھٹو کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کا عبوری صوبہ تو ان کے والد آصف علی زرداری کے 2009 ء کی اصلاحات کے تحت بن چکا ہے۔ ان کے بقول گلگت بلتستان میں صوبائی اسمبلی، وزیر اعلیٰ اور گورنر موجود ہے۔ اب قومی اسملی اور سینیٹ میں نمائندگی دینے کے لئے اس علاقے کو آئینی صوبہ بنانے کی ضرورت ہے جس کے لئے وہ تیار ہے۔

پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کا صدر امجد ایڈوکیٹ کافی عرصے سے عوام کی حق ملکیت اور حق حاکمیت کی ایک مہم چلاتا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو اپنے وسائل پر اختیار اور حکمرانی کا حق ہے جو ان کو ملنا چاہیے۔ انتخابی مہم کے دوران بلاؤل بھٹو نے بھی تفخر کے ساتھ کہہ دیا ہے کہ گلگت بلتستان کی قانونی اور آئینی حیثیت کے بارے میں اگر پاکستان کے قومی سلامتی ادارے بھی ان کے جیالے صدر امجد کے صفحے پر آچکے ہیں تو ان کو یہ موقع بھی ملنا چاہیے کہ وہ اپنے منشور پر عمل کرواسکے۔

بلاؤل بھٹو آئینی صوبے کے ساتھ سی پیک میں اس علاقے کی شمولیت پر بھی زور دیتے ہوئے چین سے اپنے تین نسلوں کے تعلق کا بھی ذکر کرتے ہوئے یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہی اس علاقے کے مفادات کا بہتر خیال رکھ سکتا ہے۔

بلاؤل نے برملا کہہ دیا ہے پیپلز پارٹی پہلے گلگت بلتستان اور پھر وفاق میں حکومت بنا کر اس تصور کو کہ جس کی وفاق میں حکومت ہو وہی گلگت بلتستان میں بھی حکومت بنا سکتا ہے، غلط ثابت کرے گی۔

گلگت بلتستان کی انتخابی مہم مسلم لیگ نون کی سابقہ کارکردگی، تحریک انصاف کے ترقیاتی منصوبوں کے وعدوں اور پیپلز پارٹی کے آئینی صوبہ بشمول حق حاکمیت اور حق ملکیت کے حصول کے گرد اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ 15 نومبر کی شام کو کون جشن مناتا ہے اور کون دھاندلی کے الزامات لگاتا ہے۔

یہ بات تو طے ہے کہ اس بار گلگت بلتستان کے انتخابات کے نتائج ملکی سیاست کی سمت کا تعین بھی کریں گے کیونکہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کو طے کرنے کے لئے صرف کچھ اداروں کا ہی نہیں بلکہ پورے ملک کو ایک صفحے پر آنا ہے۔ ان انتخابات میں اس کتاب کی بھی نشاندہی ہوگی جس کے صفحے پر سب کو آنا ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan