جنسی ہراسانی کی مظلوم اسی وقت آواز کیوں نہیں اٹھاتیں؟


فیصل نیند سے جاگا، موبائل میں سوشل میڈیا کی فیڈز دیکھیں، اور سخت کوفت میں مبتلا ہو گیا۔ ایک اور محترمہ کو اپنے ساتھ ہوئی کئی سال پرانی جنسی ہراسانی یاد آ گئی تھی اور اپنی مظلومیت کا رونا آج رو رہی تھیں۔ جھوٹی عورت، فیصل نے سوچا، اگر سچی ہوتی تو اسی وقت بولتی نا۔ تب تو بولی نہیں اور آج کسی شریف انسان کی عزت ٹویٹر پر اچھال رہی ہے۔ فیصل کو اس شریف انسان سے بہت ہمدردی محسوس ہوئی۔

کچھ اور لوگوں نے بھی فیصل والا سوال اٹھایا تھا، یہ اس وقت کیوں نہ بولی، کیا ٹویٹر ایجاد ہونے کا انتظار کر رہی تھی، یا ہالی وڈ میں می ٹو شروع ہونے کا؟ ہم خیال آوازیں سن کر فیصل کی کوفت تھوڑی کم ہوئی، لیکن پھر جواب میں ان لوگوں کو کچھ عورتوں نے بے حس کہا، کہا کہ وہ ہراسانی کی نفسیات سے نابلد ہیں، سفاکانہ طریقے سے ٹرول کیا۔ فیصل کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ ہاں، جیسے یہ عورتیں تو نفسیات میں پی ایچ ڈی ہیں۔ سخت غصے میں اس نے اپنی مڈل کلاس سوزوکی نکالی اور پیٹرول اور دل جلاتے ہوئے اپنی مڈل کلاس نوکری کی جانب چل پڑا۔

ایک اپر کلاس کی سیاہ ٹویوٹا ڈبل کیبن نے اچانک فیصل کی لین میں کٹ مارا اور تقریباً اس کی سوزوکی کو روند ہی ڈالا۔ فیصل کے منہ سے شاندار مغلظات کا سیلاب بہنے ہی والا تھا کہ اس نے اپنی زبان کو از خود لگام دیا۔ ساتھ اپنے ہاتھ کو بھی جو ہارن کی جانب بڑھ رہا تھا۔ ڈبل کیبن کے شیشے سیاہ تھے اور پیچھے مسلح گارڈ بیٹھے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ مڈل کلاس سوزوکیاں ایسی ڈبل کیبنز سے ٹکر لے کر خس و خاشاک کی طرح بکھر تو سکتی ہیں، ان سے لڑ نہیں سکتیں۔

تو وہ خاموش رہا، لیکن اپنی بزدلی اور کم مائیگی کا احساس اس کے اندر زہر بننے لگا۔

کام پر معلوم ہوا کہ اس کی چھٹی کی درخواست رد ہو چکی تھی۔ اور اس کی میز پر ایک مہینے کا کام ایک ہفتے کی ڈیڈ لائن اور بہت سی تذلیل کے ساتھ پٹخ دیا گیا تھا۔ باس بھی خوابوں کو روندنے میں ٹویوٹا ڈبل کیبنز سے کم نہیں ہوتے۔ اندر کا زہر ابال پر آ رہا تھا۔ اس کی بس ہو رہی تھی۔ وہ نوکری باس کے منہ پر مارنے والا تھا جب اسے یاد آیا بجلی کا بل، گیس کا بل، دودھ کا بل، روٹی کا بل، یہ بل اور وہ بل، اور وہ اپنے بل میں دبک گیا۔ دو سال سے وہ تصور میں باس کو گالیاں دیتا، تھپڑ مارتا، لیکن وہ جانتا تھا کہ ایسے تصورات بارودی سرنگوں کی طرح ہیں۔ اس لئے حقیقت میں خاموش رہتا، اپنی آگ میں جلتا رہتا، اور کام کیے جاتا۔

آج بھی اس نے اپنی سلگتی کنپٹیوں کو رگڑا، گردن میں پڑے غلامی کے طوق کو تھوڑا ایڈجسٹ کیا، اور کام میں لگ گیا۔

زندگی کیا صرف بارودی سرنگوں سے بچنے کا نام ہے؟ اس نے سوچا کیا کبھی سرنگ پر پاؤں رکھنے کی ہمت ہو گی تمہیں یا نہیں۔ فوراً ہی اس نے خود کو جواب دیا، نہیں۔ ایک اچٹتا ہوا خیال اس کے ذہن میں آیا اس عورت کے بارے میں جس نے آج صبح فیصلہ کیا تھا کہ بس اب اور نہیں، اب بارودی سرنگ سے نہیں ڈرنا۔ اس سے پہلے وہ اس عجیب خیال کو مزید کریدتا، کمپنی کے مالک، عزت مآب جناب سیٹھ صاحب کی تشریف آوری ہوئی۔ رات کی پارٹی اور دن کی نیند کے بعد سیٹھ صاحب غلاموں کی زنجیریں چیک کرنے آئے تھے۔ ٹائم پر چھٹی ہوتی تو فیصل کو گھر پہنچ کر پانی کے ٹینکر کا انتظام کرنا تھا۔ لیکن اب تمام ملازمین کو سیٹھ کے جانے تک بیٹھنا تھا۔

آج کی رات بغیر پانی کے گزرنی تھی۔ فیصل کا دل چاہا سیٹھ کو جا کر کہے وہ گھر جا رہا ہے، پھر اس کے آفس کے سارے شیشے توڑ دے، یونین بنا کر فیکٹری میں تالے ڈلوا دے، استعفیٰ لکھ کر سیٹھ کے منہ پر مار دے۔ جنون کے نغمے ”دھرتی کے خدا“ کے الفاظ اس کے دماغ میں دھماکے کرنے لگے، اتنے ہی حسب حال جتنے نوے کی دہائی میں جب جنون نے پہلی بار دھرتی کے خداؤں کو للکارا تھا۔

دھرتی کے خدا ا ا ا ا
بنتے ہیں یہا ا ا ا اں
ان کو بھی ذرا ا ا ا ا
کوئی دے سزا ا ا ا
لیکن دھرتی کے خداؤں کا روز حساب نہ جانے کب آنا تھا۔

ایک ماتحت نے کچھ پوچھا۔ فیصل نے شدید غصے سے جواب دیا۔ ماتحت کی نگاہوں میں نفرت کی لہریں دیکھیں، اپنی خون آشام نگاہوں سے اسے ڈبل نفرت لوٹائی، اور پھر سوچا، وہ اپنے ماتحت کو ہراساں کرتا ہے، اس کا باس اسے ہراساں کرتا ہے، اور سیٹھ باس کو ہراساں کرتا ہے۔ اسی طرح یہ ظلم کا پہیہ گھومتا رہتا ہے اور کوئی بھی مخالفت میں بولنے کی ہمت نہیں کرتا۔

اسے پھر وہ عورت یاد آئی۔ فیصل نے سوچا، یقیناً جنسی ہراسانی کئی درجے زیادہ خوفناک ہے ایک چھٹی کی درخواست رد کیے جانے کے مقابلے میں۔ باس نے صرف چھٹی سے انکار کیا اور میری بولتی بند رہی، تو اگر ایک عورت کو کوئی ہاتھ لگائے، یا گندی نظر ڈالے، غلیظ جملہ اچھالے یا ذو معنی بات کہے، یا مسلسل ہراسانی کا جال بچھا کر اسے خوف کی ایسی سطح پرلے جائے جہاں انسان سکتے میں آ جائے، ذہن ماؤف ہو، زبان مصلوب ہو، تو کیا یہ ممکن ہے کہ ایسی حالت میں وہ عورت اسی لمحے شور کرے، لوگوں کو جمع کرے، اور معاشرے کو مزید تفریح کا مواد مہیا کرے، یہ کہنے کا موقع دے کہ اس نے ہی مرد کی حوصلہ افزائی کی ہو گی؟

فیصل کو خود پر ہنسی آئی۔ تم اپنے سیٹھ کے سامنے چھٹی کے ٹائم اٹھ کر گھر نہیں جا سکتے، سیاہ شیشوں والی ڈبل کیبن تمہارا دور سے ریپ کر جائے تو تم جنون کے گانوں میں پناہ لو یا سڑک پر اپنی جیسی کسی سوزوکی کو گالی دے لو، باس تضحیک کر دے تو تصور میں اس کو چیر پھاڑ ڈالو۔ یہ سب برسوں ہوتا رہے لیکن تم خاموش رہو۔ پر اگر ہراسانی کے مظلوم اسی وقت نہیں چیخ اٹھیں تو انھیں تم جھوٹا کہو۔ اپنی چھوٹی سی دھرتی کے ننھے سے خدا تو تم بھی ہو، فیصل صاحب۔

اپنے صبح کے خیالات اسے یاد آئے اور ساتھ ہی ہارپر لی کے لازوال کردار ایٹکس فنچ کا ایک جملہ: ”ہم صحیح طور پر کسی کو تب تک نہیں سمجھ سکتے جب تک ان کی جگہ کھڑے ہو کر چیزوں کو ان کے زاویہ نگاہ سے نہ دیکھیں۔“

صبح سے اب تک وہ جن ہراسانیوں کا شکار ہوا تھا وہ جنسی تو نہ تھیں۔ پھر بھی اتنی طاقتور تھیں کہ وہ ذہنی اور جذباتی صدمے میں تھا۔ اگر جنسی ہوتیں تو شاید اتنا سب سوچنے کی صلاحیت بھی سلب ہو چکی ہوتی۔ اسے کچھ کچھ جنسی ہراسانی کے مظلوموں کی خاموشی سمجھ آئی۔ اسے اپنی صبح کی سوچ پر افسوس ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).