سوال کی بے توقیری کا خوف


18 اور 19 اکتوبر کی رات کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری تک جو کچھ ہوا وہ تو سب کو معلوم ہے۔ اس گرفتاری کو مقتدر سیاسی جماعت اور حریف پارٹی کے مابین سیاسی مخاصمت سمجھی جاتی اگر آئی جی سندھ پولیس کے اغوا کا واقعہ سامنے نہ آتا۔ اغوا کے ساتھ ہی یہ بات بھی عیاں ہو گئی کہ معاملہ سیاسی جماعتوں کی باہمی عداوت سے آگے کا ہے اور اس کے پس پردہ عناصر بھی کوئی اور ہیں۔ ایک صوبے کے آئی جی پولیس کا یوں اغوا کیا جانا یوں تو کوئی معمولی بات نہیں مگر مملکت خداداد نے اس سے بھی بڑے بڑے تماشے ہوتے دیکھے ہیں چنانچہ ہم چند روز میں یہ تماشا بھی بھلا بیٹھتے مگر سندھ پولیس کے افسران کی ایک بڑی تعداد نے احتجاجاً چھٹیوں پر چلے جانے کا فیصلہ کر کے معاملے کو یوں فراموش ہونے نہ دیا۔ سندھ پولیس کے افسران کی چھٹیوں پر جانے کی درخواستیں ملک میں پہلی دفعہ کسی ادارے کا اسٹبلشمنٹ کے رویے کے خلاف اجتماعی مزاحمت کا کھلم کھلا مظاہرہ تھا۔ پیپلز پارٹی نے بھی واقعے کی انکوائری کی درخواست کی۔ نتیجتاً جب تنازعہ طول پکڑتا گیا تو چار و ناچار آرمی چیف کو انکوائری بیٹھانا ہی پڑی۔

اب اس انکوائری کی رپورٹ آ گئی ہے۔ کچھ دوست جنہیں کسی انکوائری کی سرے سے امید ہی نہیں تھی وہ اس رپورٹ پر پھولے نہیں سما رہے ہیں۔ البتہ رپورٹ پر تنقیدی نظر ڈالی جائے تو اس کے مندرجات کئی ایک سوالات کو جنم دیتے ہیں۔

رپورٹ میں جس بات پر متعلقہ رینجرز اور آئی ایس آئی افسروں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے وہ ان کا ”جذباتی“ ہو کر قدم اٹھانا بتایا گیا ہے۔ حالانکہ سوال تو یہ بنتا ہے کہ انہوں نے ایک خالص سیاسی اور قانونی معاملے میں مداخلت کی ہی کیوں۔ متعلقہ افسروں کے جذبات گیج کرنے سے زیادہ یہ بات اہم تھی کہ انہوں نے ایک ایسے معاملے میں ٹانگ کیوں اڑائی جو ان کے دائرہ اختیار سے کوسوں باہر ہے۔ اسی نکتے کو دوسرے انداز میں یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ افسران اس معاملے کو زیادہ ”دانشمندانہ“ طریقے سے حل کر سکتے تھے۔

اس سے صاف طور پر یہ تاثر ملتا ہے کہ انکوائری والوں کے نزدیک یہ بیجا مداخلت قابل اعتراض نہیں ہے بلکہ قابل اعتراض بات ان کا اس معاملے کو حل کرنے کا غیر دانشمندانہ طریقہ ہے۔ یہاں یہ فرض کیجیے کہ اگر کیپٹن (ر) صفدر پر ایف آئی آر کاٹنے کے لئے رینجرز اور آئی ایس آئی بجائے آئی جی سندھ کو اٹھانے کے اسے فون کر کے ایسا کرنے کے لئے دباؤ ڈالنے پر اکتفا کرتے تو کیا یہ ٹھیک تھا؟ میرے خیال میں یہ بھی اتنا ہی آمرانہ اور غیر آئینی رویہ ہے جتنا کہ آئی جی سندھ کو اغوا کرنا۔

اصل بات تو یہ ہے کہ ایسی مداخلت اسٹبلشمنٹ کے تحکمانہ رویے اور غیرآئینی رجحانات کی عکاس ہے۔ مداخلت کی صورت جو بھی ہو لیکن اعتراض اور تشویش کے لئے یہی بات کافی ہے کہ آپ کے سویلین ادارے آزاد نہیں ہیں اور ان پر ایک مرئی طاقت غیر مرئی طریقے سے حاوی ہے اور جب چاہے صوبے میں قانون کے سب سے بڑے منتظم کو بھی غیرقانونی طریقے سے چمپت کر سکتی ہے۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ رینجرز اور آئی ایس آئی سے متعلقہ افسران نے کس کے ایما پر اس معاملے میں دخل اندازی کی۔ اب اس کا سادہ مگر بہت ہی مضحکہ خیز جواب یہ دیا گیا کہ انہوں نے ایسا پولیس کی سست روی کی وجہ سے پیدا ہونے والے ”عوامی دباؤ“ میں آ کر کیا۔ اب اس بات پر کسی بھی باشعور شخص کی ہنسی ہی چھوٹ سکتی ہے۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ ایک علاقے میں واپڈا کی نا اہلی کی وجہ سے لوڈشیڈنگ ہو رہی ہو جس کی وجہ سے بجلی کی بحالی کے لئے عوامی دباؤ بڑھ جائے اور اس دباؤ کے تحت محکمہ اوقاف آ کر معاملے میں مداخلت کرے!

انکوائری لکھنے والوں سے یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ بھئی عوام جانے اور پولیس، آپ کو بیچ میں آدھمکنے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر قانون اس کا فیصلہ نہ بھی کرتا تو عوام کا ہاتھ ہوتا اور پولیس کا گریبان، آپ کو ثالثی کی کرسی پیش کس نے کی۔ مجھے معلوم ہے کہ یہاں اس سوال کو کچھ زیادہ قابل اعتنا نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ ہمیں کئی دہائیوں سے سمجھایا جا رہا ہے کہ فوج تمام سول اداروں کی ان داتا ہے۔ اولاد سے نا اہلی ہو تو اسے حق حاصل ہے کہ وہ انہیں مرغا بنائے۔

اسی سوال کے ساتھ جڑا ایک ذیلی سوال بھی ہے۔ کیا مزار قائد کی بے حرمتی پر عوامی دباؤ اس قدر بڑھ چکا تھا کہ فوج کی مداخلت کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہ تھا۔ اگر ایسے واقعات میں واقعی میں کوئی عوامی دباؤ ہوتا ہے تو 2013 میں زیارت میں قائد کے آخری آرام گاہ کا دہشتگردوں کے حملے میں تہس نہس ہونے کے بعد آئی جی بلوچستان کو ایف سی کے کسی اعلیٰ افسر کو عوامی دباؤ کے تحت اغوا کر لینا چاہیے تھا کہ بلوچستان میں سیکیورٹی کی ذمہ دار ایف سی ہے۔ ویسے پوچھا تو یہ بھی جاسکتا ہے کہ کیا یہ اسٹبلشمنٹ کی صوابدید میں ہے کہ وہ پولیس کی کارکردگی کی نگرانی کرے اور یہ طے کرے کہ کسی معاملے میں ان کی کارروائی کافی ہے اور کس معاملے میں ناکافی اور سست۔ مگر ایسا کچھ سوچنے اور پوچھنے سے قبل فوج کے پست ہوتے مورال کا بھی کچھ خوف کریں۔

اب ان سوالات کے بعد کچھ مزید تحفظات سر نکال کر سامنے آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ سارے اقدامات رینجرز اور آئی ایس آئی کے مقامی افسروں نے کس کے ایما پر کیا۔ اب یہ سوال وہ ہڈی ہے جو نہ نگلی جا سکتی ہے اور نہ اگلی جا سکتی ہے۔ اگر اس کی ذمہ داری مقامی افسروں پر ڈالی جائے تو پھر تشویش ناک سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیا رینجرز اور آئی ایس آئی کے مقامی افسر اتنے طاقتور ہیں کہ صوبے کے پولیس چیف کو راتوں رات مکان سے اٹھا کر لامکان پہنچا دے اور اگر اس بات کا اعتراف کیا جائے کہ اس میں اعلیٰ حکام کی رضا شامل تھی تو پھر ظاہر ہے سوال اور بھاری ہوجاتا ہے کہ سیاسی بساط میں در آنے والے یہ ہوتے کون ہیں۔ (نواز شریف نے تو یہ کہہ کر رپورٹ مسترد کردی ہے کہ جونئیرز کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے)۔

ایک اور سادہ سا سوال یہ بھی ہے کہ ملوث فوجی افسروں کے نام ظاہر کیوں نہیں کیے گئے۔ اب اس بات کی تصدیق کیسے ہو سکتی ہے کہ کسی کے خلاف کارروائی ہوئی بھی یا نہیں۔

اس واقعے کے بعد ان سوالوں کے علاوہ کئی اور سوالات طاقت کے ان نان آفیشیل ترجمانوں اور ہمنواؤں سے بھی پوچھے جا سکتے ہیں جو آج تک اغوا جیسے کسی واقعے کے سرے سے منکر تھے۔ ان ترجمانوں میں خود ہمارے وزیر اعظم بھی شامل ہیں جس نے اسے کامیڈی قرار دیا تھا۔ ان حضرات سے سوال کرنا سوال کی بے توقیری اور بے حرمتی ہوگی۔ چونکہ انہوں نے ہر صورت ہمنوائی کا حلف لیا ہوا ہے۔ اس لئے حلف کا پاس رکھتے ہوئے سوال کے جواب میں یاوہ گوئی کو دلیل کے طور پر پیش کرنا ان کی مجبوری ہے۔ ہمیں سوال کی یوں اہانت اور دلیل کے ہتک سے خوف آتا ہے۔ اس لئے اعتراضات اور سوالات کا یہ بے انت سلسلہ یہی ختم کردیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).