کورونا وائرس: ڈنمارک لاکھوں آبی نیولوں کی ہلاکت پر ہیجان میں مبتلا


A caged mink is seen at the farm of Henrik Nordgaard Hansen and Ann-Mona Kulsoe Larsen near Naestved, Denmark, November 6, 2020
ڈنمارک گذشتہ ہفتے اس وقت لرز اٹھا جب حکام نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر ایک کروڑ ستر لاکھ آبی نیولوں کو مارنے کا فیصلہ کیا۔ قومی سطح پر نیولوں کو اکٹھا کرنے کے اس اقدام پر سیاسی ردعمل سامنے آیا اور اب وزیراعظم نے یہ تسلیم کیا ہے کہ یہ منصوبہ جلد بازی میں کیا گیا تھا اور اس کی کوئی قانونی بنیاد نہیں۔

ڈنمارک کے حکام پریشان ہیں کہ کورونا وائرس کی تبدیل شدہ قسم آبی نیولے میں پائی گئی اور یہ ممکنہ طور پر مستقبل میں آنے والی ویکسن پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

سیاست دان بحث کر رہے ہیں، ملک کے مضافاتی علاقے ذبح ہونے والے جانوروں سے اٹے ہوئے ہیں اور بظاہر اجتماعی قبروں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔

ایک سخت حملہ

انتباہ: خبر کے آگے آنے والے حصے میں آپ کو کچھ تصاویر آپ کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں

پولیس اور مسلح فورسز کو تعینات کر دیا گیا ہے اور کسانوں کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے صحت مند جانوروں کو بھی مار دیں لیکن یہ کئی ہفتوں کا کام ہے۔

مارٹن فرام فنن میں رہتے ہیں۔ انھوں نے اپنے فارم میں موجود ہزاروں آبی نیولوں کے لیے بنائی گئی رہائش گاہوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے پاس 65000 آبی نیولے ہیں آنے والے ہفتوں میں ان سب کو مار دیا جائے گا۔

وہاں ان کے باغ میں ڈنمارک کا پرچم سرنگوں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ رات میں ہی ان کے رزق کا ذریعہ ختم ہو گیا۔ ’یہ بہت نا انصافی لگتی ہے۔‘


مارٹن فرام اپنے خاندان کی تیسری نسل ہیں۔ یہ ان کے خاندان کا 60 سالہ کاروبار ہیں۔

اب جانوروں کو ختم کرنے نے انھیں تباہ کر دیا ہے۔ ڈنمارک کے ٹی وی پر نظر آنے والے کسان رو رہے ہیں۔

آبی نیولوں کو اکٹھا کرنے اور انھیں ختم کرنے کی یہ مہم کئی ہفتوں تک جاری رہے گی اور اب 20 لاکھ 85 ہزار کو مارا جا چکا ہے۔

منگل تک جٹ لینڈ کے 237 فارمز میں کورونا وائرس کے کیسز سامنے آئے تھے اور دیگر 33 فارمز میں بھی مزید مشتبہ کیسز سامنے آئے ہیں۔

ڈنمارک میں مویشیوں اور خوراک سے متعلق شعبے کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اب تک 116 فارمز میں جانوروں کو مارا جا چکا ہے۔

جانوروں کو مارنے کا حکم کیوں دیا گیا؟

ڈنمارک پہلا ملک نہیں ہے جہاں وبا پھوٹنے کی رپورٹس آئی لیکن یہ پیداوار کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے۔

سپین، سویڈن، اٹلی اور امریکہ بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ آبی نیولوں کی افزائش نیدر لینڈ میں اگلے برس بہار تک نہیں ہو پائے گی۔

رپورٹس کے مطابق یہاں ڈنمارک میں پانچ میں سے ایک سے زیادہ فارمز متاثر ہوئے ہیں۔

Members of Danish health authorities assisted by members of the Danish Armed Forces dispose dead mink in a military area near Holstebro in Denmark, 09 November 2020

EPA/MORTEN STRICKER
آبی نیولوں کو مار کر نظر آنے والی اجتماعی قبریں

کوپن ہیگن میں سٹینز سیرم انسٹی ٹیوٹ کے سائنس دانوں نیولوں میں کورونا وائرس کی تبدیل شدہ قسم سامنے آنے کے بعد سب سے پہلے تنبیہ کی تھی۔

پھر گذشتہ بدھ کو اس مخصوص جانور کو مارنے اور ملک کے شمال مغرب میں کے مکینوں کے لیے چار ہفتوں کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔

وائرس پر تحقیق کرنے والے ادارے ایس ایس آئی کے سربراہ پروفیسر اندرس فومز گارڈ کا کہنا ہے کہ تبدیلی ہر وقت ہوتی رہتی ہے لیکن لیکن ایک بار یہ میوٹیشن سپائک پروٹین میں بھی ہو جاتی ہے۔

بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ کورونا وائرس کی سپائک پروٹین کچھ ویکسینز کی تیاری میں ٹارگٹ ہوتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اس وجہ سے تھوڑے پریشان ہوئے جب ہم نے ایک بار تبدیلیاں ددیکھی جو کہ امائنو ایسڈ کو بدلتی ہیں اور پروٹین کی شکل بناتی ہیں۔‘

Members of Danish health authorities assisted by members of the Danish Armed Forces dispose dead mink in a military area near Holstebro in Denmark, 09 November 2020

EPA/MORTEN STRICKER

'کلسٹر فائیو'

کووڈ 19 ابتدای طور پر جنگلی جانوروں سے آیا تھا اور پھر بعد میں یہ انسانوں میں پھیلا اور پھر انسانوں کی تھوڑی آبادیوں میں پھیلنے سے پہلے یہ ان سے فارمز میں موجود نیولوں میں منتقل ہوا۔

نیولوں میں معدد تبدیل شدہ وائرس سامنے آئے ہیں جو کہ انسانوں میں دکھائی نہیں دیے۔ لیکن ایک جس کا نام کلسٹر 5 ہے اس کے بارے میں بطور خاص تشویش ہے کہ وہ ڈنمارک کے 12 لوگوں میں منتقل ہوا ہے۔ مزید 200 دیگر لوگوں میں بھی نیولوں سے منسلک وائرس کی اقسام سامنے آئی ہیں۔

پروفیسر فومز گارڈ زور دیتے ہیں کہ ابھی تک ویکسین کے بارے میں پریشان ہونا فرضی ہے۔ لیکن ٹیسٹ سے پتہ چلا ہے کہ مریض کے جسم میں موجود اینٹی باڈیز کلسٹر 5 کے خلاف کم ردعمل ظاہر کرتی ہیں اور اس حوالے سے ابھی لیبارٹری میں مزید تحقیقات ہو رہی ہیں۔

Mink pelts on a rack in Denmark

عام طور پر ڈنمارک میں سال کے اس عرصے میں نیولوں کو ان کے بالوں کی وجہ سے مارا جاتا ہے

وہ کہتے ہیں کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کیا اس کا ویکسین پر اور حیاتیاتی طور پر کوئی اثر ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس ممکنہ مسئلے کے بڑھنے سے پہلے اسے فوری طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔

اس انفیکشن نے بین الاقوامی طور پر بھی توجہ حاصل کی ہے اور اب برطانیہ نے ڈنمارک کی فلائیٹس بند کر دی ہیں۔

لیکن اس صورتحال کے باوجود یہ تحفظات ہیں کہ ڈنمارک کا ردعمل شاید بہت زیادہ ہے اور ملک کے اندر اور باہر سائنس دانوں نے خطرے کا اندازہ لگانے کی کوشش ہے۔

سائنس دانوں نے ڈنمارک کے اخبار برلنگسکی ٹڈنڈی سے کہا ہے کہ کلسٹر 5 ستمبر کے بعد سے نہیں دیکھا گیا۔

غلطیاں کی گئی ہیں

منگل کو حکومت نے تسلیم کیا کہ اس کے پاس ملک بھر میں نیولوں کو مارنے کا قانونی اختیار نھیں تھا وہ فقط یہ کر سکتی تھی کہ متاثرہ جانوروں کو ان کے گروہوں کو محفوظ ماحول کے اندر مارتی ۔

ملک کی وزیراعظم فریڈرکسن نے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ یہ ایک غلطی ہے جس پر پچھتاوا ہے۔


حکومت نے اس کے ازالے کے لیے عجلت میں قانون سازی کی کوشش کی لیکن اپوزیشن جماعتوں نے کہا کہ وہ اس کی حمایت نہیں کریں گے اور نئے بل کے پارلیمان میں جانے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔

لبرل پارٹی کے چئیرمین جیکب ایلیمن نے کہا کہ یہ پریشان کن ہے۔ انھوں نے شفافیت نہ ہونے پر بھی اعتراض کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسانوں کو معاوضہ دیا جانا چاہیے۔ اس وجہ سے حکومتی اتحاد میں موجود جماعتوں نے بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

Members of Danish health authorities assisted by members of the Danish Armed Forces dispose of dead mink in a military area near Holstebro in Denmark, 09 November 2020 (issued 10 November 2020).

EPA/MORTEN STRICKER
ایک کروڑ ستر لاکھ نیولوں کی کل آبادی میں سے 20 لاکھ پچاسی ہزار ہلاک ہو چکے ہیں

وزیر خوراک و زراعت اور آبی حیات موگن جنسز کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوئی کہ کورونا کے دوران ملک میں نیولوں کی افزائش ایک بڑا ر خطرہ ہے۔

کسانوں کو کہا گیا تھا کہ وہ 16 نومبر تک اپنے پاس موجود نیولوں کو مار دیں لیکن کچھ نے اس پر تعاون کرنے سے انکار کیا۔

لیکن مارٹن کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس فارمز میں پھیل رہا ہے اور ہم اس کے لیے انتظار نہی کر سکتے۔ ہم فقط اقدامات کر رہے ہیں اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

تو کیا ڈنمارک میں نیولوں کا بزنس ختم ہو گیا ہے؟

ڈنمارک 1000 سے زیادہ فارمز کا گھر ہے۔ یہاں تجارتی مرکز کوپن ہیگن فر نے اس اقدام کے ملک بھر میں کیے جانے کو تباہ کن قرار دیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ اس جانور کے بالوں اور کھال کی صنعت کا عارضی طور پر خاتمہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ 6000 نوکریاں متاثر ہو سکتی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ سنہ 2018 اور 2019 کے دوران اس صنعت کو ایک بلین امریکی ڈالر آمدن ہوئی تھی۔

اس جانور کے فر یعنی بالوں کو گارمنٹ انڈسٹری میں استعمال کیا جاتا ہے اس کے علاوہ اس سے مصنوعی پلکیں بھی بنائی جاتی ہیں۔ چین اور ہانگ کانگ اس کے لیے ایک بڑی مارکیٹ ہیںگ

Mink pelts on a rack in Denmark

عام طور پر ڈنمارک میں سال کے اس عرصے میں نیولوں کو ان کے بالوں کی وجہ سے مارا جاتا ہے

کورونا وائرس کی وجہ سے نیولوں کی نیدرلینڈ میں صنعت پہلے ہی خراب ہو چکی ہے۔ برطانیہ اور آسٹریا نے بھی اس کی پیداوار کے لیے کئی برس پہلے پابندی لگا دی تھی۔ اس کے علاوہ جرمنی، بیلجئیم اور فرانس اور ناروے بھی اس کے خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

یورپ بھر میں اس وقت نیولوں کے لیے 4350 فارمز ہیں۔

اس صنعت کے گروہ فر یورپ کا اصرار ہے اب بھی نیولوں کے بالوں کے کی مانگ بہت ہے۔

بی بی سی کو بتایا گیا ہے کہ مارکیٹ کا ردعمل پہلے ہی آ چکا ہے اور کم سپلائی پر اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔

لیکن ڈنمارک میں جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہ کا خیال ہے دیگر یورپی ممالک کو بطور مثال لینا چاہیے اور اس کی تجارت کو مکمل طور پر ختم کر دینا چاہیے۔

ڈنمارک میں جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے آئی ورزن ڈیم کے برگیٹ کا کہنا ہے کہ یہ نیولوں کے ساتھ صنعتوں کی جانب سے برتا جانے والا رویہ جانوروں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے ضمن میں انتہائی ناقابل برداشت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp