تیجاشوی یادو: انڈیا کا ناکام کرکٹر جس نے بہار کے انتخابات میں اچھی کارکردگی دکھائی


تیجاشوی یادو
بطور کرکٹر تیجاشوی یادو ناکام رہے تھے۔

وہ سیاست سے جڑے ایک خاندان میں پیدا ہوئے اور انھوں نے کرکٹر بننے کا خواب دیکھ کر کم عمری میں ہی سکول جانا چھوڑ دیا تھا۔ سات فرسٹ کلاس میچوں میں وہ صرف 37 رنز بنا سکے اور انھوں نے انڈین پریمیئر لیگ میں دلی کی ٹیم کے بینچ پر بیٹھ کر چار سیزن گزار دیے۔

سنہ 2012 میں یادو نے یہ کھیل چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور اپنی آبائی ریاست بہار کی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔

یہ بھی پڑھیے

کیا پاکستان کے اراکین پارلیمنٹ ’مودی‘ کے نعرے لگا رہے تھے؟

ارنب گوسوامی کی ضمانت مسترد، ’اب تو انھیں بی جے پی بھی نہیں بچا سکتی‘

مودی سرکار: نعرے بہت مگر کارکردگی؟

اس مرتبہ رائے شماری کے جائزوں نے پیشگوئی کی تھی کہ اب ان کی باری ہے۔ اس میں پیشگوئی ہوئی تھی کہ ان کی جماعت راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کی سربراہی میں قائم اتحاد حکمراں جماعت جنتا دل سے بہتر کارکردگی دکھائے گا۔

بہار کے اتحاد نے 15 سال تک نیتیش کمار کی سربراہی میں بہار پر حکومت کی۔ وہ علاقے میں سب سے بڑے رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ لیکن اب ان کے ستارے ان کا ساتھ نہیں دے رہے۔

اس اتحاد میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی اہم ساتھی سمجھا جاتا ہے جنھوں نے اپنے اتحادیوں کو دوبارہ منتخب کروانے کے لیے ان کی انتخابی مہم میں بھی حصہ لیا تھا۔

یادو اس مہم میں دیر سے داخل ہوئے۔ ایسا لگ نہیں رہا تھا کہ وہ جیت سکیں گے۔ ان کے مخالفین نے سیاسی طور پر کمزور ہونے پر ان پر طنز کیا تھا۔

مودی

انڈیا میں مودی کی مقبولیت میں تاحال کمی واقع نہیں ہوئی

لیکن ان کے لیے سب سے اہم اپنے والد لالو پرساد یادو کے داغدار ماضی سے باہر آنا تھا جو اس وقت بدعنوانی کی سزا میں قید ہیں۔ لالو پرساد ایک رنگین مزاج سیکولر رہنما تھے۔

72 سالہ اس سیاستدان نے بہار میں 15 برس حکومت کی لیکن بعد ازاں وہ بدعنوانی اور طاقت کے ناجائز استعمال جیسے الزامات کی وجہ سے بدنام ہوئے۔ نریندر مودی بھی انڈیا کی اس غریب ریاست میں ان کے دور کو ’جنگل کا قانون‘ کہتے رہے۔

لیکن دیگر سیاسی خاندانوں کی طرح یادو کو بھی اچھی شروعات ملی۔

ایسی ریاست جہاں ذات سے وفاداری کے اصول بدل رہے ہیں، یادو نے یہاں ایک تہائی ووٹ تو اپنے والد کی وراثت میں حاصل کر لیے جن میں یادو ذات کے ہندو اور مسلمان شامل ہیں۔

لالو پرساد یادو نے یہ اتحاد بہت مشکل سے قائم کیا تھا اور وہ اپنی سیاست کو سماجی انصاف اور برابری کی مثال سمجھتے تھے۔ اور اسی طرح تیجاشوی یادو کے مطابق ان کا اتحاد اونچی ذات کے زمینداروں کی تاریخی اجارہ داری سے نجات دلانے آیا ہے۔

یادو نے اپنی مہم میں کافی تیزی دکھائی۔ انھوں نے اپنی تقاریر مختصر اور پُر اثر رکھیں۔ انھوں نے ذات کا ذکر کم اور نوکریوں، صحت کے نظام اور تعلیم پر زیادہ بات کی۔

سیاسی تجزیہ کار جیفری وٹسو، جنھوں نے بہار کی ذاتوں اور سیاست پر کافی پڑھ رکھا ہے، کا کہنا ہے کہ یادو کی سیاست میں یہ دیکھا گیا کہ وہ ’اپنے والد کی سیاست کو بدل رہے ہیں جس کی بنیاد سماجی انصاف پر تھی۔ ان کے والد کی کامیابی اور ان کے ساتھ لوگوں کی حمایت اس وراثت سے دور نہیں رکھی جاسکتی۔‘

تیجاشوی یادو

یادو اپنی انتخابی مہم میں کافی متحرک رہے

یادو نے اس مہم سے خاندان کو دور رکھا۔ وہ والدین کے نو بچوں میں سب سے جوان ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب کمار کو ان کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس کے باوجود یادو کو بہار کے انتخابات میں اس قدر کامیابی نہ مل سکی۔

ان کی جماعت نے 144 میں سے 75 سیٹیں جیتیں۔ یہ ایک جماعت کے لیے سب سے زیادہ سیٹیں تھیں۔

لیکن جماعت کی اتحادی کانگریس 70 میں سے صرف 19 سیٹیں جیت سکی اور اس اتحاد کا زیادہ فائدہ نہ ہوسکا۔ کمار اور مودی کے اتحاد نے یہ انتخابات جیت لیے۔

دلی میں سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے راہل ورما کے مطابق یادو نے ’اچھی کارکردگی دکھائی۔ وہ اپنی جماعت کو دوبارہ میدان میں لے آئے۔ انھوں نے ووٹروں کو متحرک کیا لیکن اپنی بنیاد پھیلانے میں ناکام رہے۔‘

بی جے پی نے 110 میں سے 74 سیٹیں جیتیں۔ فاتح اتحاد میں وہ اس مرتبہ بڑا حصہ لینے میں کامیاب رہے۔ یہ اہم ہے کیونکہ بہار وہ واحد ’ہندی بولنے والی‘ بڑی ریاست ہے جہاں بی جے پی نے اپنے بل پر الیکشن نہیں جیتا تھا۔

لیکن ابھی بھی مکمل طور پر خود جیتنے سے بی جی پی کافی دور ہے۔

ماہرین کے مطابق بی جے پی اب بہار میں داخل ہوچکی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ قدامت پسند مذہب، فلاحی سوچ، ذات کی سیاست، جماعت کے نظام، وسائل اور ذرائع ابلاغ میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

سیاسی امور کے ماہر سوہاس پالشیکر کا کہنا ہے کہ بہار میں بی جے پی کی کامیابی کو نریندر مودی کی مقبولیت کا نتیجہ کہا جاسکتا ہے جو اب ملک بھر میں ایک برانڈ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ’ایک برانڈ کی طرح اسے کسی بھی ریاست میں کسی بھی مقصد کے لیے اور کسی کے بھی مقابلے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔‘

بہار الیکشنز کے نتائج ایک چیز واضح کرتے ہیں کہ انڈیا میں اب بھی نریندر مودی سب سے مقبول رہنما ہیں۔ ماضی میں ان کی جماعت کا بہار میں ریکارڈ اتنا اچھا نہیں رہا تھا۔ بی جے پی نے اس سے قبل بہار میں گذشتہ چھ سالوں میں زیادہ انتخابات ہارے ہیں۔ انھوں نے چار سال قبل اتر پردیش میں فتح کے بعد سے کبھی کسی ریاست میں واضح اکثریت حاصل نہیں کی۔

ماہرین کے مطابق یادو نے اچھا مقابلہ کیا اور اس سے پتا چلتا ہے کہ انڈیا کی انتخابی سیاست میں ایک نیا منظرنامہ قائم ہو رہا ہے۔ ورما کا کہنا ہے کہ ’(جماعتوں کے لیے بہتر ہے اگر وہ) الیکشن میں مقامی مسائل پر غور کریں اور بڑے مقامی رہنماؤں سے الیکشن لڑوائیں۔ قومی سطح پر مت جائیں اور مودی پر حملہ نہ کریں۔ مقامی رہنما کا مقابلہ اپنے مقامی رہنما سے کریں۔‘

دوسرے لفظوں میں نریندر مودی کی بی جے پی وفاق میں مضبوط رہے گی اور مستقبل قریب میں انڈیا میں اس کی مقبولیت پھیلتی رہے گی، اس بات سے قطعہ نظر کہ مقامی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے لڑ کر اپنی ماضی کی ساکھ کو بحال کرنے میں مصروف ہیں۔

پالشیکر کا کہنا ہے کہ 31 سالہ یادو نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وقت ان کے ساتھ ہے۔

’آج نہیں تو کل مودی پر انحصار آپ کو ریاستی انتخاب میں نہیں جتوا سکے گا اور آہستہ آہستہ بی جے پی میں اندر کے لوگ اور باہر کے لوگ یہ جان لیں گے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp