پاکستان کی معیشت: ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل اضافہ دیرپا ثابت ہو گا؟


ڈالر
ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی میں رواں برس ماہ اگست کے اختتام سے لے کر اب تک ساڑھے نو روپے کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے
امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں گذشتہ کئی ہفتوں سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی میں رواں برس ماہ اگست کے اختتام سے لے کر اب تک ساڑھے نو روپے کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اگست کے اختتامی دنوں میں ایک ڈالر کی قیمت 168 روپے 43 پیسے تھی جو اب بہتر ہو کر 158 روپے 91 پیسے ہو چکی ہے۔ اس سال فروری کے مہینے میں ڈالر کی قیمت 154 روپے کے لگ بھگ تھی تاہم اس کے بعد روپے کی قیمت میں بے تحاشا کمی دیکھنے میں آئی اور ڈالر مقامی کرنسی کے مقابلے میں 168 روپے کی سطح سے بھی تجاوز کر گیا تھا۔

ڈالر کے مقابلے میں پاکستان روپے کی قدر میں کمی نے ایک جانب ملکی درآمدات کو مہنگا گیا تو دوسری جانب اس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کی شرح میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ کرنسی کے کاروبار سے وابستہ افراد اور ماہرین معیشت روپے کی قدر میں بہتری کو حکومت کی جانب سے لیے گئے چند اقدامات اور کچھ مثبت معاشی اشاریوں سے منسوب کر رہے ہیں۔

روپے کی قدر میں کتنا اضافہ ہوا؟

ماہر معیشت خرم شہزاد نے پاکستانی کرنسی کی قدر میں اضافے پر تجزیہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر پہلی اکتوبر سے اب تک ڈالر اور روپے کی قدر دیکھی جائے تو روپے کی قدر میں 3.1 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ روپے کی قدر میں اکتوبر سے لے کر اب تک ہونے والے اضافے کی وجہ سے پاکستانی روپیہ ایشیا میں تیسرے نمبر پر ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر میں اضافہ کرنے والی کرنسی بن چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

آج کل ڈالر اور روپے کے درمیان کیا چل رہا ہے؟

روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ: بیرون ملک پاکستانیوں کو کیا سہولیات میسر ہوں گی؟

بیرون ملک پاکستانیوں کا سرمایہ ملک میں لانے کی سکیمیں ناکام کیوں ہوتی ہیں؟

انھوں نے کہا کہ اس عرصے کے دوران صرف انڈونیشیا اور جنوبی کوریا کی کرنسیوں کی قدر میں پاکستانی کرنسی سے زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملا۔ انڈونیشیا کی کرنسی نے اس عرصے کے دوران ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر میں 4.5 فیصد اضافہ کیا تو جنوبی کوریا کی کرنسی میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں 3.6 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

پاکستان

روپے کی قدر میں اکتوبر سے لے کر اب تک ہونے والے اضافے کی وجہ سے پاکستانی روپیہ ایشیا میں تیسرے نمبر پر ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر میں اضافہ کرنے والی کرنسی بن چکا ہے

فوریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان خان کہتے ہیں کہ فروری کے مہینے میں ایک ڈالر کی قیمت 154 روپے کے لگ بھگ تھی تاہم ملک میں کورونا وارئرس کی وجہ سے لگنے والے لاک ڈاؤن نے غیر ملکی سرمایہ کاروں پر گھبراہٹ طاری کر دی تھی جس کی وجہ سے ملک میں ٹریژری بلوں میں کی جانے والی سرمایہ کاری میں سے ساڑھے تین ارب ڈالر ملک سے نکل گئے، جس کی وجہ سے ملکی کرنسی دباؤ کا شکار ہوئی اور اس کی قدر میں تاریخی کمی دیکھنے میں آئی۔

وہ کہتے ہیں کہ تاہم حالیہ ہفتوں میں روپے کی قدر میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، اور یہ اضافہ مختصر عرصے میں بہت نمایاں ہے۔

روپے کی قدر میں اضافہ کیوں ہوا؟

ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافے پر بات کرتے ہوئے ملک بوستان نے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں مقامی کرنسی کی قدر میں ہونے والے اضافے کی کئی وجوہات ہیں جن میں درآمدات میں کمی، ترسیلات زر اور برآمدات میں اضافہ، روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کے ذریعے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ملک میں آنے والی سرمایہ کاری اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کا مؤخر ہونا شامل ہے۔

ملک بوستان نے بتایا کہ درآمدات میں مسلسل کمی نے مقامی کرنسی کو بہت زیادہ سہارا دیا جس کی وجہ سے بیرون ملک ڈالر کی منتقلی میں کمی دیکھنے میں آئی۔

انھوں نے کہا برآمدات میں ہونے والے اضافے نے بھی روپے کو سہارا دیا تو دوسری جانب بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم بھی روپے کی قدر میں اضافے کا باعث بنیں جس کی وجہ سے ملک کا مجموعی طور پر کرنٹ اکاؤنٹ یعنی ’جاری کھاتے‘ سرپلس ہوئے۔

انھوں نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے ملک بھیجی جانے والی رقوم دو ارب ڈالر ماہانہ سے زائد ہیں اور اس سال تارکین وطن کی جانب سے مجموعی طور پر پاکستان بھیجی جانے والی رقم کی سالانہ مالیت 30 ارب ڈالر تک رہنے کا امکان ہے جو ملک کے بیرونی تجارت کے شعبے میں ایک بہت مثبت پیش رفت ہے۔

پاکستان

روپے کی قدر میں اضافے کی وجوہات میں درآمدات میں کمی، ترسیلات زر اور برآمدات میں اضافہ، بیرون ممالک پاکستانیوں سے آنے والی سرمایہ کاری اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کا موخر ہونا شامل ہے

بوستان کے مطابق حکومت کی جانب سے حال ہی میں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ نامی سکیم نے بھی بیرون ملک پاکستانیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کرنے میں کافی مدد دی ہے جس کی وجہ سے ان کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

ان کےمطابق اب تک روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ سکیم میں صرف بیس فیصد اکاؤنٹ ہی فعال ہوئے ہیں لیکن اس نے بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔

ملک بوستان نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی میں ملنے والے ریلیف نے بھی ملکی کرنسی کو بہت زیادہ مدد فراہم کی جس کی وجہ سے پاکستان کی ادائیگیوں میں توازن دیکھنے میں آیا۔

معاشی امور کے ماہر فرحان محمود نے بتایا کہ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ملک کو شارٹ ٹرم میں غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی میں جو رعایت حاصل ہوئی اس نے روپے کو بہت زیادہ سہارا دیا۔ ترسیلات زر اور برآمدات میں اضافے نے روپے کو مزید تقویت پہنچائی۔

یاد رہے کہ پاکستان کی ترسیلات زر موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 31 فیصد اضافے کے ساتھ سات ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں، جو گذشتہ سال کی اسی سہ ماہی میں ساڑھے پانچ ارب ڈالر کے لگ بھگ تھیں۔

پاکستان کی اس سال اکتوبر کے مہینے میں برآمدات میں دو فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا جب کہ درآمدات میں دس فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی۔

پاکستان

ملک بوستان نے ڈالر کی قدر میں مزید کمی کا امکان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایک امریکی ڈالر 155 پاکستانی روپے تک آ سکتا ہے۔

روپے کی قدر میں اضافہ کیا دیرپا ہے؟

امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل ہونے والے اضافے کے بارے میں کرنسی ڈیلر اور معیشت کے شعبے کے ماہرین پُرامید ہے کہ یہ آنے والے دنوں میں برقرار رہے گا اور روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مزید مضبوط ہو گا۔

ملک بوستان نے ڈالر کی قدر میں مزید کمی کا امکان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایک امریکی ڈالر 155 پاکستانی روپے تک آ سکتا ہے۔ انھوں نے کہا ڈالر اور روپے کی آزادانہ تجارت کی سطح یہی بنتی ہے۔ ملک بوستان نے کہا کہ آئندہ برس فروری میں پاکستان کے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکنے کے روشن امکانات ہیں جس کے نتیجے میں نئی سرمایہ کاری کے آنے کی توقع ہے۔

پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے مارکیٹ میں روپے کی قدر کو مضبوط کرنے کے کردار کے بارے میں بات کرتے ملک بوستان نے کہا مرکزی بینک نے ڈالر اور روپے کی آزادانہ تجارت میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی۔

فرحان محمود بھی اگلے تین چار مہینوں میں روپے کی قدر میں کمی کو نہیں دیکھتے۔ ان کے مطابق اب سے لے کر فروری تک روپیہ تھوڑا مزید مضبوط ہو سکتا ہے جس کی بنیادی وجہ جی 20 ممالک کی جانب سے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کا موخر ہونا ہے۔

سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں میں توازن کے لیے دیے گئے دو ارب ڈالر کی واپسی اور اس سے روپے پر کسی قسم کے دباؤ کے سلسلے میں ملک بوستان نے کہا کہ دو ارب ڈالر کی ادائیگی کی صورت میں بھی کوئی فرق نہیں پڑنے والا کیونکہ پاکستان نے کچھ متبادل ذرائع سے مزید مالی امداد کا انتظام کر رکھا ہے جو سعودی عرب کو دو ارب ڈالر کی واپسی کی صورت میں روپے کو سہارا دیں گے۔

روپے کی قدر میں اضافے سے برآمد کنندگان کو ہونے والے نقصان کے بارے میں ملک بوستان نے کہا کہ پاکستانی کرنسی ابھی بھی ڈالر کے مقابلے میں خطے کی دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں ’انڈر ویلیو‘ ہے جو ابھی پاکستانی برآمدی شعبے کے لیے منافع بخش ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp