گلگت بلتستان انتخابات: اس علاقے سے الیکشن لڑنے والی خاتون جہاں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی بھی اجازت نہیں ملتی


بلاول بھٹو اور سعدیہ دانش
سعدیہ دانش کو پیپلزپارٹی نے ٹکٹ دیا ہے اور اس حلقے سے وہ پیپلزپارٹی کی پہلی امیدوار ہیں
’لوگ جمع ہوئے اور کہا کہ یہ عورت یہاں مہم چلانے آئی تو اس کو زندہ واپس نہیں بھیجیں گے۔‘

سعدیہ دانش کو یہ دھمکی اس وقت دی گئی جب انھوں نے ضلع تانگیر میں الیکشن لڑنے کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں اور وہ یہاں سے ہی انتخابات لڑ رہی ہیں۔

سعدیہ دانش کو پیپلزپارٹی نے ٹکٹ دیا ہے اور اس حلقے سے وہ پیپلزپارٹی کی پہلی امیدوار ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ سعدیہ دانش تانگیر میں انتخابات میں حصہ لینے والی پہلی خاتون ہیں۔ تانگیر گلگت بلتستان کا نیا ضلع ہے جو پہلے ضلع دیامیر کی ایک تحصیل تھا۔

سعدیہ دانش کے بارے میں تو ہم بعد میں بتائیں گے پہلے کچھ ذکر کرتے ہیں اس دوردراز علاقے کا۔

ضلع تانگیر کو گلگت بلتستان کی خوبصورت ترین وادیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک طرف کوہستان سے ملحق ہے جبکہ دوسری جانب ضلع داریل ہے۔ یہاں بلند و بالا پہاڑ ہیں اور ان سے بہتے دلکش جھرنے، سرسبز کھیت ہیں اور ان کے گرد لکڑی کے خوبصورت باڑ۔ ان کھیتوں میں جگہ جگہ گھوڑے گھاس چرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں لوگ لکڑی کا کاروبار کرتے ہیں، چلغوزے سپلائی کیے جاتے ہیں اور مال مویشیوں سے گزربسر کی جاتی ہے۔

مگر یہاں لڑکیوں کے لیے بنے سکول جلا دیے جاتے ہیں جیسا کہ گذشتہ برس ہوا جب ضلع دیامر میں بارہ سکول ایک ہی رات میں جلا دیے گئے، ان میں سے تین تانگیر میں تھے۔

یہ بھی پڑھیے

گلگت بلتستان میں تیر چلے گا، شیر دھاڑے گا یا بلا سب پر بھاری ہوگا؟

گلگت بلتستان: انتخابی مہم میں فوجیوں کی تصاویر پر پابندی کیوں

کیا گلگت بلتستان کی آئینی و قانونی حیثیت بدلنے جا رہی ہے؟

قراقرم ہائی وے واحد سڑک ہے جو اس علاقے کو باقی دنیا سے جوڑتی ہے اور یہاں پہنچ کر ایسا لگتا ہے کہ باقی دنیا سے رابطے کی کوئی خاص اہمیت نہیں اور اگر ہے بھی تو وہ صرف یہاں کے مردوں کے لیے ہے۔

یہاں عورت کا وجود خاصا بے وقعت ہے۔ ضلع دیامر پہنچنے سے پہلے ہی مجھے بتا دیا گیا تھا کہ تانگیر ہو یا داریل، گاڑی سے باہر نہیں نکلنا۔

ضلع تانگیر

ضلع دیامیر کی بیشتر آبادی کی طرح تانگیر کے لوگ بھی سخت گیر مذہبی اور قبائلی اقدار کے پیروکار ہیں

تو ایسے میں وہاں کسی خاتون کا کیمرے کے سامنے بات کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں ایک گھر میں گئی تاکہ کچھ خواتین سے بات چیت کر سکوں۔ یہاں میری ملاقات ماہ نور (فرضی نام) سے ہوئی۔ ان کی عمر انیس سال ہے اور وہ تین بچوں کی ماں ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ انھوں نے گلگت کے علاوہ کوئی شہر نہیں دیکھا ہوا۔ یہی حال ان کے گھر میں موجود دیگر خواتین کا بھی تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ووٹ کس کو دیں گی۔ تو انھوں نے منہ دوپٹے میں چھپا لیا۔ پھر کہنے لگیں ’ہمارا تو شناختی کارڈ بھی نہیں۔‘

ماہ نور نے بتایا کہ وہ ووٹ نہیں ڈالتیں کیونکہ یہاں عورت کا ووٹ ڈالنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ انھیں یہ علم نہیں تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم کون ہیں اور علاقے میں مشہور ’بھٹو‘ کا کیا بیک گراونڈ ہے۔ ماہ نور کی نند نے بتایا کہ وہ سیاست وغیرہ پر بات نہیں کرتی ہیں۔

جب میں ان کچے گھر کے لکڑی کے تختوں سے بنے دروازے سے باہر نکل رہی تھی تو ماہ نور اور ان کی نند مجھے رخصت کرنے دروازے کے قریب آئیں تو گھر میں موجود مرد نے انھیں فوراً واپس جانے کو کہا اور دروازہ بند کر دیا۔

یہیں ہماری ملاقات شبیر نامی ایک ڈرائیور سے ہوئی۔ انھوں نے ایک واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ ایک دن ان کی گاڑی میں دو خواتین نے بیماری کا بہانہ بنا کر گلگت تک کا سفر کیا کیونکہ ’وہ ساری زندگی اس گاؤں سے باہر نہیں آئیں تھیں۔ یہاں کی عورتیں جب گلگت تک ہی چلی جائیں تو وہ یہ عجیب دنیا دیکھ کر حیران رہ جاتی ہیں۔‘

تانگیر میں عورت ووٹ کیوں نہیں ڈال سکتی؟

یہ علاقہ اس خطے کے سب سے زیادہ قدامت پسند حصوں میں شمار ہوتا ہے۔ سنہ 2009 میں یہاں پہلی بار انتخابات کے دوران ایک خاتون کے ووٹ ڈالنے کے لیے آنے کے بعد بدمزگی پیدا ہوئی اور اس دن چار افراد قتل کر دیے گئے۔

مقامی افراد کے مطابق ’سنہ 2009 میں قانون ساز اسمبلی کے لیے پہلے انتخابات کے موقع پر داریل میں خواتین کے ایک پولنگ سٹیشن پر ایک عورت ووٹ ڈالنے آئی، ایجنٹ نے کہا کہ پہچان کے لیے چہرے سے نقاب ہٹا کر آنا ہے۔ خاتون کے ہمراہ موجود ان کے شوہر نے کہا کہ وہ ان کی بیوی ہیں اور تم کہہ رہے ہو کہ چہرے پر نقاب نہ ہو۔ اسی بات پر جھگڑا ہوا اور بات اتنی بڑھی کہ چار افراد کا قتل ہو گیا۔‘

سعدیہ دانش

سعدیہ دانش اپنے حلقے میں انتخابی مہم نہیں چلا سکتیں کیونکہ انھیں قتل کی دھمکیاں دی گئی ہیں

اس واقعے کے بعد جرگے نے فیصلہ کیا کہ عورتیں ووٹ ڈالنے نہیں جائیں گی اور آج گیارہ سال گزرنے کے باوجود خواتین کو دوبارہ ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

جب سنہ 2015 کے انتخابات سر پر آئے تو خواتین کے ووٹ ڈالنے کا مسئلہ ایک بار پھر سامنے آیا۔ اس وقت مقامی جرگے نے فیصلہ کیا کہ خواتین کا پولنگ سٹیشن جانا ان کی روایات کے منافی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ خواتین کے باہر نکلنے کی صورت میں دوبارہ بدمزگی پیدا ہو سکتی ہے جس سے حالات خراب ہوں گے۔

اس وقت کی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے بھی اس فیصلے کی حمایت کی تھی تاہم اس وقت پیپلزپارٹی کی گلگت بلتستان کی قیادت اور خواتین رہنماوں نے اس کی مذمت کی تھی لیکن جرگے کے فیصلے پر عملدرآمد کیا گیا تھا۔

میں اپنے حلقے میں ووٹ مانگنے نہیں جا سکتی`

ضلع دیامیر کی بیشتر آبادی کی طرح تانگیر کے لوگ بھی سخت گیر مذہبی اور قبائلی اقدار کے پیروکار ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق خواتین کے بازاروں میں نکلنے یا نامحرم سے بات کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اس صورتحال میں ایک خاتون امیدوار کا اس حلقے سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرنا خاصا جرات مندانہ قدم ہے مگر اس کا نقصان بھی ہوا ہے۔

اب سعدیہ دانش اپنے حلقے میں انتخابی مہم نہیں چلا سکتی ہیں کیونکہ انھیں قتل کی دھمکیاں دی گئی ہیں اور ان کے مطابق پولیس نے واضح ثبوت ہونے کے باوجود کسی کو گرفتار نہیں کیا اور نہ ہی کوئی قانونی کاروائی کی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ ان کے لیے تکلیف دہ ہے کہ انھیں ان کے حلقے میں جانے سے روک دیا گیا۔

سعدیہ دانش

سعدیہ دانش پیپلزپارٹی کی جانب سے خواتین کی مخصوص نشست کے لیے بھی نامزد کی گئی ہیں

’میں پورے گلگت بلتستان کی بیٹی ہوں مگر میں اپنے حلقے میں ووٹ مانگنے نہیں جا سکتی۔ میں ان عورتوں سے ہی نہیں مل سکتی جن کی میں نے نمائندگی کرنی ہے۔ اس سے زیادہ دکھ کی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟‘

سعدیہ دانش کہتی ہیں ’دھمکیاں دینے والے چند افراد ہیں مگر ان سب کی وجہ سے پورا علاقہ داغدار ہو رہا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ وہ اب گلگت میں ہی اپنی جماعت کے دیگر امیدواروں کے لیے مہم چلا رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ تانگیر میں اگرچہ ان کا بڑا ووٹ بینک نہیں مگر ’وہاں سے انتخابات لڑنے کا فیصلہ دراصل خواتین کو بتانا ہے کہ ان کے حقوق کیا ہیں اور یہ کہ اگر ان کے حلقے سے ایک عورت الیکشن لڑ سکتی ہے تو وہ عورتیں بھی ووٹ ڈال سکتی ہیں۔`

ان کے مطابق وہ کسی حد تک اس مقصد میں کامیاب بھی ہوئی ہیں کیونکہ لوگ اب اس معاملے پر بات کر رہے ہیں۔

سعدیہ دانش خود تو اپنے حلقے میں انتخابات کی مہم نہیں چلا سکتیں مگر ان کے ایک کارکن یہ کام کر رہے ہیں۔ تانگیر میں ہم عبد الولی سے ملے جو کہتے ہیں کہ ’یہاں ملا لوگ خفا ہوتے ہیں کہ یہاں تو کوئی عورت ووٹ نہیں ڈال سکتی تو اس علاقے سے الیکشن میں کھڑی کیسے ہو سکتی ہے؟‘

’ملا کہتے ہیں کہ یہ الیکشن لڑنے والی ہماری عورتوں کو خراب کرے گی اس لیے وہ یہاں نہ آئے۔ انھوں نے بولا ہے کہ میں ان کا ایجنٹ بن کر یہاں ان کی مہم چلاؤں اور ووٹ مانگوں۔ بس اب میں بھٹو کے نام پر ووٹ مانگ رہا ہوں۔‘

عبدالولی

عبد الولی سے کہتے ہیں کہ ’ملا لوگ خفا ہوتے ہیں کہ یہاں تو کوئی عورت ووٹ نہیں ڈال سکتی تو اس علاقے سے الیکشن میں کھڑی کیسے ہو سکتی ہے؟‘

یہاں ہمیں کسی بھی مقام پر سعدیہ دانش کی تصویر یا نام کا بینر یا جھنڈا نظر نہیں آیا۔ جو جھنڈے موجود تھے ان پر ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور بلاول بھٹو زرداری کی تصاویر اور نام درج تھے۔

سعدیہ دانش پیپلزپارٹی کی جانب سے خواتین کی مخصوص نشست کے لیے بھی نامزد کی گئی ہیں اور اس سے قبل ان کے پاس گلگت بلتستان میں وزارت اطلاعات کا قلمدان بھی رہا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ ممبر اسمبلی بنیں یا نہ بنیں، وہ تانگیر اور داریل جیسے علاقوں کی خواتین میں ان کے بنیادی حقوق سے متعلق آگاہی کے لیے کام کرتی رہیں گی۔

کیا اس بار کچھ مختلف ہوگا؟

اس بار الیکشن کمیشن آف پاکستان ایکٹ 2017 کا اطلاق گلگت بلتستان کے انتخابات پر بھی ہو گا۔ اس ایکٹ کے تحت ہر حلقے میں خواتین کے دس فیصد ووٹ لازم ہیں اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں الیکشن کالعدم قرار دیا جائے گا۔

مگر مقامی افراد کے مطابق اس کا حل بھی نکال لیا گیا ہے۔ انتخابات کے دن کچھ پولنگ سٹیشنز پر بزرگ خواتین کو ووٹ ڈالنے کے لیے لایا جائے گا جبکہ باقی خواتین اپنے اس حق سے محروم ہی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp