کورونا وائرس کی دوسری لہر اور تعلیمی ادارے: ’دو گھنٹے کے سکول سے زیادہ مجھے اپنے بچے کی جان اور صحت عزیز ہے‘


سکول
لاہور کی رہائشی سارہ پاکستان میں کورونا وائرس کی دوسری لہر سے خاصی خوفزدہ ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’میرا دل نہیں مانتا کہ میں اپنے بچے کو اِن حالات میں سکول بھیجوں۔‘

سارہ کا ایک بیٹا لاہور کے ایک نجی سکول میں دوسری کلاس کا طالبعلم ہے اور دیگر ماؤں کی طرح وہ اپنے بچے کی صحت پر کوئی بھی سمجھوتا کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں۔

محکمہ صحت پنجاب کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ دو ماہ کے دوران سکول کھلنے کے بعد سے لے کر اب تک 446 طلبا اور اساتذہ کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ تعلیمی اداروں میں انفیکشن کا تناسب تقریباً ایک فیصد کے لگ بھگ ہے۔

یاد رہے کہ این سی او سی کی جانب سے پہلے ہی تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے کورونا کیسز کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جا چکا ہے۔ جس کے بعد سردیوں کی چھٹیوں کو جلدی اور طویل کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

جبکہ اسی سلسلے میں 16 نومبر کو وفاقی وزیر برائے تعلیم مختلف صوبوں کے وزرا سے مشاورت کریں گے اور ملک کے تعلیمی اداروں میں درپیش صورتحال پر آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔

یہ بھی پڑھیے

بچوں کو کورونا سے کتنا خطرہ ہے اور کیا وہ وائرس پھیلا سکتے ہیں؟

جن سکولوں میں پانی تک میسر نہیں وہاں کورونا سے بچے کیسے بچیں؟

پنجاب میں 34 طلبا میں کورونا کی تشخیص، سندھ میں مزید تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ موخر

محکمہ سکول ایجوکیشن پنجاب کے ترجمان عمر خیام کے مطابق جن سکولوں میں کورونا وائرس کے کیسز زیادہ تعداد میں پائے گئے ہیں انھیں بند کر دیا گیا ہے۔

اب تک محکمہ سکول ایجوکیشن پنجاب کی جانب سے پنجاب بھر میں 28 سکولوں کو بند کیا گیا ہے۔ جبکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران تعلیمی اداروں میں کورونا وائرس کے متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

بچے کی سالگرہ اور کورونا وائرس کی تصدیق

سکول

یہ اعداد و شمار سامنے آنے سے پہلے ہی سارہ نے اپنے بیٹے کو سکول بھیجنا بند کر دیا تھا۔ انھوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مارچ میں میرے بیٹے کا سکول کورونا وائرس کی پہلی لہر آنے کے بعد بند کر دیا تھا۔ جس کے بعد اسے آن لائن پڑھایا گیا اور پھر گرمیوں کی چھٹیاں ہو گئیں۔

’ستمبر کے مہینے میں جب حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ سکول دوبارہ سے کھولے جائیں گے تو میں نے بھی اپنے بچے کو سکول بھیجنا شروع کر دیا۔‘

سارہ بتاتی ہیں کہ کچھ دن ہی گزرے تھے کہ انھیں یہ خبر ملی کہ اُن کے بیٹے کے سکول میں کورونا وائرس کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جس کے بعد سکول انتظامیہ نے دو کلاسز کو بند کر دیا۔

’میں اکیلی نہیں تھی جو یہ خبر سن کر گھبرائی۔ میں بہت سے ایسے والدین کو جانتی ہوں جنھوں نے اپنے بچوں کے حوالے سے پریشانی کا اظہار کیا۔ حالانکہ سکول انتطامیہ نے چھوٹے بچوں کے لیے خصوصی طور پر حفاظتی انتظامات کیے تھے۔ ‘

سارہ کے مطابق ’اس کے باوجود بھی چند روز بعد دوبارہ یہ خبر آئی کہ کچھ اور بچوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، اور تو اور ان میں سے ایک بچے نے اسی دوران اپنی پوری کلاس کو اپنے گھر سالگرہ پر بلایا تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد سکول انتظامیہ کی جانب سے والدین کو یہ آپشن دے دی گئی کہ اگر وہ اپنے کو آن لائن پڑھانا چاہتے ہیں تو وہ سکول مت بھیجیں اور جو بھیجنا چاہتے ہیں وہ بھیج سکتے ہیں۔

’انتظامیہ کے اس فیصلے کے بعد میرے بیٹے کی کلاس کے 21 میں سے صرف چھ طلبا ہی اس وقت سکول جا رہے ہیں تاہم باقی سب آن لائن کلاسز ہی لے رہے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ جو بچے سکول جا رہے ہیں وہ بھی صرف دو گھنٹے کے لیے جاتے ہیں۔ ’اب میں دو گھنٹے کے سکول کی خاطر اپنے بچے کی جان خطرے میں تو نہیں ڈال سکتی ہوں۔‘

سکول

’میڈیکل کالج میں آخری سال کے طلبا زیادہ کورونا وائرس کا شکار ہو رہے ہیں‘

سکولوں کے علاوہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی طلبا کورونا وائرس کا شکار ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بیشتر یونیورسٹیوں اور کالجوں کے ایسے شعبہ جات کو بند کرنے کا اعلان کیا گیا جہاں کورونا وائرس کے کیسز سامنے آئے تھے۔

ستمبر سے لے کر اب تک پنجاب بھر کے سکولوں میں تقریباً دو لاکھ بیس ہزار سے زائد ٹیسٹ کیے گئے ہیں جبکہ یونیورسٹیوں اور مدارس میں دو ماہ کے دوران اب تک صرف تقریبا بیس ہزار ٹیسٹ کیے گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان اداروں میں کیسز مثبت آنے کی شرح کم نظر آتی ہے۔

سیکریٹری پرائمری اینڈ سیکندڑی ہیلتھ کیئر کیپٹن (ر) محمد عثمان کے مطابق میڈیکل کالجز میں کیسز کی تعداد بڑھنے سے متعلق شکایات محکمہ صحت کو کورونا ہیلپ لائن پر موصول ہوئی۔ جس کے بعد انھوں نے تمام میڈیکل کالجز کے طلبا کی سکریننگ کے احکامات جاری کیے۔

جبکہ متعلقہ ٹیموں کو میڈیکل کالجز میں بروقت سیمپلنگ مکمل کرنے کی ہدایات بھی دی گئی تاکہ حالات کا اندازہ لگایا جا سکے۔

سکول

ان کا کا کہنا تھا کہ جن میڈیکل کالجز میں کورونا وائرس کے زیادہ کیسز رپورٹ ہوں گے اس کالج کو سیل بھی کیا جا سکتا ہے یا وہاں پر قرنطینہ سینٹرز بھی قائم کیے جا سکتے ہیں لیکن یہ فیصلہ نتائج آنے کے بعد کیا جائے گا۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے لاہور کے ایک سرکاری میڈیکل کالج کی طالبہ ہانیہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ میڈیکل کے آخری سال میں پڑھتی ہیں اور اس دوران لازمی ہوتا ہے کہ طالب علم پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہسپتال میں جا کر مریضوں کا علاج کرنا بھی سیکھیں۔

ان کے مطابق شاید یہی وجہ ہے کہ میڈیکل کالج کے آخری سال کے طلبا کورونا وائرس سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ہانیہ نے بتایا کہ ان کی کلاس کے بچے تو متاثر ہو رہی رہے تھے لیکن ایک دو ہفتوں سے ہمارے کافی سارے جونیئرز بھی اس وائرس کا شکار ہوئے ہیں۔

’جس کے نتیجے میں پہلے اور دوسرے سال کے طلبا کے لیے کالج بند کر دیا گیا ہے جبکہ تیسرے اور چوتھے سال کے طلبا کو بھی آن لائن کیے جانے پر غور جاری ہے۔ ‘

’تاہم اگر آخری سال کے طلبا کے لیے بھی کالچ بند کر دیا گیا یا انھیں آن لائن شفٹ کیا گیا تو ہمیں ڈر ہے کہ ہمارا سال ضائع ہو سکتا ہے۔ جو ہمارے لیے کافی نقصان دہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ جب ہم گریجوئیٹ ہی نہیں ہوں گے تو آنے والے سال میں اپریل میں ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے میرے خیال میں احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے ہمارے لیے میڈیکل کا آخری سال مکمل کرنا بے حد ضروری ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp