جوہری توانائی کا عالمی ادارہ آئی اے ای اے: ایران کے پاس مقررہ حد سے 12 گنا زیادہ یورینیم موجود ہے


ایران
اقوامِ متحدہ کے جوہری توانائی کے ادارے نے کہا ہے کہ ایران کے پاس عالمی جوہری معاہدے میں وضع کردہ مقدار سے 12 گنا زیادہ افزودہ یورینیم موجود ہے۔

جوہری توانائی کے عالمی ادارے ’آئی اے ای اے‘ نے کہا ہے کہ ایران کے پاس موجودہ افزودہ یورینیم کی مقدار 2442.9 کلو گرام تک پہنچ گئی ہے۔

تاہم ایران اس بات پر زور دیتا آیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔

ایران نے حال ہی میں آئی اے ای اے کو اپنے ملک میں کسی نامعلوم تنصیب کے قریب جوہری مواد کی موجودگی کی وضاحت پیش کی ہے تاہم عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ یہ وضاحت ’مصدقہ‘ نہیں ہے۔

ٹوئٹر پر ایران کے سفیر برائے آئی اے ای اے غریب ابدی کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں ’کسی بھی قسم کے نامناسب بیان سے اجتناب کرنا چاہیے۔‘ ان نے مزید کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے بات چیت تاحال جاری ہے اور ہم اس معاملے کو انجام تک پہنچائیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

ایران جوہری معاہدہ: کیا کوئی راستہ بچا ہے؟

’جوہری معاہدے کی پاسداری کے بغیر کوئی نئی ڈیل نہیں ہوگی‘

ایران کا جوہری معاہدے کی نئی خلاف ورزی کا اعلان

جوہری توانائی کے عالمی ادارے کی جانب سے جاری کی جانے والی تازہ ترین رپورٹ، جسے رکن ممالک میں بھی تقسیم کیا گیا ہے، میں آئی اے ای اے نے تاحال اس مقام کی نشاندہی نہیں کی جہاں سے اسے یہ جوہری مواد ملا ہے۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کو ایک نامعلوم ذرائع کی جانب سے معلوم ہوا کہ اس حوالے سے کوئی شواہد نہیں ملے کہ اس مقام پر یورینیم کی افزودگی کی جاتی تھی تاہم یہ ضرور ممکن ہے کہ یہاں ایسا مواد سٹور ضرور کیا جاتا رہا ہو گا۔

آئی اے ای اے کا مزید کہنا ہے کہ ایران یورینیم کی افزودگی کو 4.5 فیصد تک لے جا چکا ہے جو سنہ 2015 کے معاہدے میں طے شدہ 3.67 فیصد کی حد کی خلاف ورزی ہے۔

ایران

جوہری توانائی کے عالمی ادارے کے مطابق ابھی ستمبر میں دو مشکوک جوہری تنصیبات سے لیے گئے شواہد کا جائزہ لیا جا رہا ہے جنھیں اس سال جائزہ لینے والی ٹیموں کے لیے کھولا گیا تھا۔

گذشتہ برس ایران نے چین، فرانس، جرمنی، روس، برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ دستخط کیے گئے عالمی جوہری معاہدے سے کھلے عام انحراف کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ایران کی جانب سے یہ اقدام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے معاہدے سے دستبرداری اور ایران پر سخت معاشی پابندیاں عائد کرنے کے اقدام کے بعد سامنے آیا ہے۔

اس معاہدے کے تحت ایران کو صرف 300 کلو یورینیم کی افزودگی کی اجازت ہے جو ایک مخصوص کمپاؤنڈ فارم میں ہونا چاہیے جو کہ 202 اعشاریہ آٹھ کلوگرام عام یورنیم کے برابر ہے۔

یورینیم کی ایک حد سے کم افزودگی یعنی تین اور پانچ فیصد کے درمیان ہونے سے اسے صرف پاور پلانٹس کے لیے ایندھن بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہتھیاروں میں استعمال ہونے والی یورینیم کو 90 فیصد تک افزودگی کی ضرورت ہوتی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ادارے کی اس تازہ ترین رپورٹ پر ردِ عمل دیتے ہوئے خطے میں ایران کے حریف سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ دنیا کو ایران کی جانب سے جوہری ہتھیار بنانے کی کوششوں پر ‘فیصلہ کن مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔ تاہم ایران کی جانب سے ہمیشہ سے ایسے الزامات کی تردید کی گئی ہے۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی میٹنگ کے دوران ایران کے وزیرِ خارجہ ماجد تخت راواندچی نے کہا تھا کہ ان کے ملک اور آئی اے ای اے کے درمیان ‘اچھے ماحول میں کام کرنے پر آمادگی کا اظہار’ کیا گیا ہے اور اس حوالے سے متعلق سوالات کا حل ڈھونڈیں گے اور جوہری نظام سے متعلق خدشات کا حل ڈھونڈیں گے۔

امریکی نومنتخب صدر جو بائیڈن نے امریکہ کی اس جوہری معاہدے میں واپسی کا عندیہ دے رکھا ہے اور ایران کو ‘سفارت کاری کی راہ پر واپسی’ کے لیے آفر بھی دے رکھی ہے۔

بدھ کے روز ایران کے صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ ان کا ملک ‘کسی بھی موقع’ کو ‘اپنے لوگوں کے کندھوں سے پابندیوں کا بوجھ ہٹانے کے لیے’ ضائع نہیں کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp