وادی کشمیر مسلم آبادی کا تناسب بدلنے کا بھارتی خطرناک منصوبہ!


پروفیسر ڈاکٹر محمد کلیم عباسی وائس چانسلر جامعہ کشمیر کے چشم کشا حقائق نامہ کے مطابق ہندوستان میں برسراقتدار مودی کی حکومت راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے مکروہ اور انتہاء پسندانہ مسلم مخالف ایجنڈے کی تکمیل میں گامزن ہے۔ ہندوستان میں مسلم مخالف شہریت ترمیمی ایکٹ (Citizenship Amendment Act) ، مقبوضہ جموں و کشمیر کا غیر قانونی انضمام، بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ، مسلمانوں کے جداگانہ عائلی قوانین کا خاتمہ، مقبوضہ جموں و کشمیرمیں نئے ڈومیسائل قانون کی آڑ میں لاکھوں غیر ریاستی باشندوں کی آباد کاری، مقبوضہ جموں و کشمیر میں غیر انسانی لاک ڈاؤن اور بتدریج نسل کشی (incremental Genocide) یہ سارے اقدامات راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے مسلم مخالف ایجنڈے کا حصہ ہیں۔

دفعہ 370 اور دفعہ 35۔ A کے خاتمے کے بعد ہندوستان نے مقبوضہ ریاست میں ہزاروں کی تعداد میں اضافی فوج تعینات کی ہے۔ اس وقت تقریباً 9 لاکھ بھارتی افواج نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ 5 /اگست 2019 کے بعد مقبوضہ کشمیر ایک انسانی جیل بن چکا ہے، جہاں پر ذرائع ابلاغ اور مواصلات کے تمام رابطوں کو بند کر دیا گیا ہے اور ہر قسم کی مذہبی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور تعلیمی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

پبلک سیفٹی ایکٹ اور آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ جیسے کالے قوانین کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے تقریباً چار ہزار سے زائد سیاسی قیادت کو نظر بند کر دیا گیا ہے۔ اور تقریباً 14 ہزار نوجوانوں کو غیر قانونی طور پر گرفتار کرتے ہوئے حبس بے جا میں رکھا گیا ہے اور انہیں سنگین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے عرصے میں سیکٹروں نوجوانوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ایک خوف کی فضا ء ہے اور کشمیریوں کو روزانہ بدترین انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سامنا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی مقامی این جی او JKCS (Jammu & Kashmir Coalition for Civil Society) کے مطابق صرف 2020 کے پہلے 7 مہینوں میں 347 نوجوانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا ہے۔

دفعہ 370 اور 35۔ Aکے خاتمے کا مقصد؟

دفعہ 370 اور 35۔ A کے خاتمے کے بعد ہندوستان مقبوضہ کشمیر کے اندر تیزی سے آبادی کے تناسب کو تبدیل کر رہا ہے تا کہ مقبوضہ ریاست کے مسلم تشخص کو ختم کرتے ہوئے مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلا جا سکے۔ اس سارے عمل کا بنیادی مقصد جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے اطلاق کو ناکام کرنا ہے تاکہ رائے شماری کے عمل میں مسلم اکثریتی فیصلے کے امکان کو ختم کیا جا سکے۔ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے ہندوستان نے اس سال 27 /جون سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے حصول کے لیے آن لائن درخواستوں کا ایک تیز ترین نظام متعارف کروایا ہے جس کے ذریعے تقریباً 5 منٹ میں درخواست فارم مکمل کیا جا سکتا ہے۔

نئے ڈومیسائل قانون کے مطابق کوئی بھی غیر ریاستی شخص صرف 15 سال تک مقبوضہ ریاست میں رہائش پذیر رہنے پر، اور تمام سرکاری ملازمین اور ان کے خاندان کے لوگ بشمول فوج کے ملازمین، صرف 10 سالہ خدمات کی انجام دہی پر مقبوضہ جموں و کشمیر کا ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ ابھی تک صرف چارہ ماہ کے قلیل عرصے میں تقریباً 22 لاکھ درخواستیں جمع ہو چکی ہیں جن میں سے ساڑھے 18 لاکھ غیر ریاستی باشندوں، راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے انتہاء پسندوں اور قابض فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ لوگوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹس تقسیم کیے جا چکے ہیں۔ اتنے کم عرصے میں ساڑھے اٹھار لاکھ ڈومیسائل سرٹیفکیٹس کی تقسیم سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ

مودی حکومت کے مقبوضہ ریاست کے حوالے سے کیا مکروہ اور جارحانہ عزائم ہیں۔ مختصراًہندوستانی منصوبہ ساز یہ چاہتے ہیں کہ:۔

1۔ نئے ڈومیسائل قانون کے ذریعے سے تقریباً 50 لاکھ ہندووں اور غیر ریاستی باشندوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹس جاری کیے جائیں۔

2۔ اگلے مرحلے میں ان لاکھوں ہندووں کی مقبوضہ کشمیر میں آبادکاری کی جائے۔ چونکہ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے حامل افرادمقبوضہ کشمیر میں جائیداد خرید سکتے ہیں، ووٹ دے سکتے ہیں۔ لہذا خصوصی بستیاں آباد کر کے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کیا جائے۔

3۔ اس کے بعد ان نئی ہندو آبادیوں کو مقبوضہ کشمیر کے اندر سرکاری ملازمتیں دینا تاکہ مقامی مسلمانوں کو معاشی اعتبار سے مزید کمزور کیا جا سکے۔

4۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامی کشمیر یوں کے کاروبار کو تباہ کر کے نئی ہندو آبادیوں اور ہندوستانی سرمایہ کاروں کو مقبوضہ کشمیر میں پرموٹ کرنا۔ کشمیر چیمبر آف کامرس کے مطابق 5 /اگست 2019 سے لے کر آج تک مقامی تاجروں کو تقریباً 400 بلین روپے کا نقصان ہو چکا ہے جو کہ تقریباً 5.3 بلین ڈالر کے برابر ہے۔ جس کے نتیجہ میں مقبوضہ کشمیر میں معاشی حالات انتہائی کشیدہ ہیں اور بے روز گاری میں شدید اضافہ ہو چکا ہے۔

5۔ اگلے مرحلے میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں انتخابات کروا کر مودی حکومت بی جے پی کی حکومت بنوانا چاہتی ہے۔ تقریباً 50 لاکھ نئے ہندو ووٹرز کے ساتھ اور نئی حلقہ بندیوں کے بعد بی جے پی کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر میں حکومت بنانا آسان ہو جائے گا۔

6۔ اور اس منصوبے کا سب سے اہم مقصد اقوام متحدہ کی قراردادوں کے اطلاق کو ناکام بنانا، تحریک آزاد ی کو ختم کرنا اور مقبوضہ جموں و کشمیر کو مکمل طور پر عملاً ہندوستان میں ضم کرنا ہے۔ اور اگر کسی وقت اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدآمد کے لیے عالمی دباو بڑھ جائے تو آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے نتیجہ میں ریاست کا فیصلہ اپنے حق میں کروایا جا سکے۔

ہندوستان کے مقبوضہ کشمیر میں کیے گئے اقدامات اور ان کے ممکنہ اثرات کی مفصل منظر کشی کرنے کا مقصد

ہم درپیش خطرات کے تناظر میں بین الاقوامی قوانین کے مطابق مستقبل کے لیے موزوں اور قابل عمل سیاسی، سفارتی اور قانونی لائحہ عمل کا تعین کر سکیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے معروضی حالات کا تیزی سے بدلتے ہوئے علاقائی و عالمی سیاسی منظر نامے کے تناظر میں تنقیدی جائزہ لینے سے محتاط اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے ڈیڑھ سے دو سال انتہائی اہم ہیں اور اگر اس عرصے میں مقبوضہ کشمیر کے اندرہندوستانی اقدامات کو روکا نہ گیا تو مقبوضہ جموں و کشمیر کے مقامی باشندوں کا سیاسی، معاشی و ثقافتی استحصال و وسیع پیمانے پر نسل کشی نوشتہ دیوار ہے۔ وادی کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو اگر کم کر دیا گیاتو ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش اور کاوشیں کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔

جہاں ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں انتہائی خطرناک صورتحال ہے وہیں بہت سارے مثبت پہلو بھی ہیں :

سب سے پہلے، مقبوضہ جموں و کشمیر کے بہادر اور نڈر مسلمانوں کا جذبہ حریت، نوجوانوں کی لازوا ل قربانیاں اور کشمیر ماؤں اور بہنوں کا بے مثال صبراس تحریک کے پیچھے بنیادی قوت محرکہ ہے۔ اس کے علاوہ 5 / اگست 2019 کے بعد بین الاقوامی میڈیا میں مقبوضہ کشمیر کی کوریج، ایمینسٹی انٹرنیشنل اور دیگر انسا نی حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں کی مسئلہ کشمیر سے متعلقہ رپورٹس، اقوام متحدہ کے کشمیر برائے انسانی حقوق کی مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوستان کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی پامالیوں پر دو مفصل رپورٹس ’اقوام متحدہ کے ملٹری ابزرور گروپ برائے انڈیا و پاکستان (UNMOGIP) کی رپورٹوں پر سلامتی کونسل کے مسئلہ کشمیر پر دو خصوصی اجلاس، کشمیری تارکین وطن (Diaspora) کا پوری دنیا بالخصوص یورپ، برطانیہ‘ امریکہ اور کینیڈا میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے اہم کردار، پاکستان کی عوام اور مسلح افواج کا کشمیریوں سے غیر متزلزل تعلق وہ مثبت پہلو ہیں جو مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

ہندوستان تمام تر فسطائی ہتکھنڈوں کے باوجود ناکام ہو گا:

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جہد مسلسل ہمیشہ کامیاب رہی ہے۔ مثلاً 1823 میں فرانس نے الجزائر پر قبضہ کر لیا۔ 1848 ء میں فرانس نے الجزائر کے مقامی باشندوں کو پوچھے بغیر اسے فرانس کا اٹوٹ انگ صوبہ قرار دے دیا۔ گورے فرانسیسی جو ق در جوق الجزائر میں آباد ہونے لگے۔ انہوں نے صنعت، زراعت اور معیشت پر قبضہ کر لیا۔ مگر الجزائر ی کبھی بھی فرانس کا قبضہ ہضم نہ کر سکے۔ چنانچہ ایک سو چوبیس برس بعد 1954 ء میں الجزائر میں جذبہ حریت کا لاوا ابل پڑا۔ حریت پسندوں اور قابض فوج کے درمیان آٹھ سال تک جنگ رہی جس میں ایک ملین الجزائری اور ہزاروں فرانسیسی فوجی مارے گئے۔

بالآخر 1962 ء میں الجزائر ی فرانس سے آزاد ی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گے۔ اسی طرح 1975 میں پرتگال نے مشرقی تیمور کے جزیرے پر اپنا نوآبادیاتی قبضہ ختم کیا۔ مشرقی تیمور میں عیسائیوں کی آبادی تقریباً ً 8 لاکھ تھی۔ پرتگال کے بعد انڈونیشیا نے ایک سال بعد 1976 ء میں اس پر قبضہ کر کے اسے اپنا 27 واں صوبہ قرار دیا۔ مگر تیموریوں نے ہمت نہ ہاری اور بالآخر 1999 ء میں اقوام متحدہ نے ریفرنڈم کرایا اور 99 فیصد آ بادی نے آزادی کے حق میں ووٹ دے کر 2002 میں مشرقی تیمور کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے سامنے لایا۔ اسی طرح اسرائیل کب سے فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مسترد کر تا چلا آ رہا ہے۔ گولان پر قبضہ، مشرقی یروشلم کو اسرائیل میں ضم کرنے اور مقبوضہ علاقوں میں یہودیوں کی آباد کاری بھی اسرائیلی قبضے کو جائز نہیں بنا سکتی۔

بھارت اس قوم کو کیا شکست دے گا جن کا جذبہ حریت تمام ہتکھنڈوں کے باوجود مانند نہیں ہو سکا بلکہ اس میں اور تیزی آتی جا رہی ہے۔ اور وہ ہر صورت پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں جواپنی تدفن پاکستانی پرچم میں پسند کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ بہت جلد شہدا کا لہو قربانیاں جذبہ آزادی رنگ لائے گا اور کشمیر آزاد ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).