قصہ نیشنل کیڈٹ کور کا۔


” یا اللہ یہ مصیبت کب ختم ہو گی“ ؟ اگر آپ لوگوں میں سے کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ یہ الفاظ کسی بے صبرے اور پست ہمت شخص نے کہے ہوں گے تو فیصلہ سنانے سے قبل کم سے کم وجہ تو جان لیجیے۔ اگر آپ لوگ کراچی کے مقامی ہیں اور کراچی کے ان چنیدہ طالبعلوں میں سے ایک ہیں جن کو آدم جی سائنس کالج میں پڑھنے کا اعزاز حاصل رہ چکا ہے تو آپ اس کے گراؤنڈ کی لمبائی سے بخوبی واقف ہوں گے۔ اب آپ اس گراؤنڈ کا تصور کیجئے اور ”ڈڈو“ کا بھی۔ جی ہاں ”ڈڈو“ کا! یہ لفظ ہم نے زندگی میں پہلی مرتبہ اسی یادگار دن سنا تھا۔ اردو میں اس مخلوق کو مینڈک کہا جاتا ہے۔ یقین جانیے ہم کو جانور بالکل برے نہیں لگتے بلکہ ہم تو اس عمر میں بھی جس ملک کا سفر کرتے ہیں وہاں چڑیا گھر ضرور جاتے ہیں، لیکن اس دن کے بعد سے جیسے ہمیں مینڈک اور اس کی چال سے گویا نفرت سی ہو گئی ہے۔

یہ اس زمانے کی بات ہے جب اکیسویں صدی، وقت کے لئے محض سات جست یا یوں کہئے کہ سات ”ڈڈو چال“ کا مرحلہ تھا۔ ہم نے بارہویں کا تازہ تازہ امتحان دیا تھا۔ نیشنل کیڈٹ کور ٹریننگ ہم جیسے طلباء کے لئے اختیاری تھی۔ گو کہ اس ٹریننگ میں ہم کو چنداں دلچسپی نہ تھی مگر ان بیس نمبر کی حرص ضرور تھی جو کہ اس ٹریننگ کی بدولت طلباء کو ملا کرتے تھے۔ ہم نے بھی اسی طمع میں اپنے آپ کو رجسٹر کروا لیا۔ حالانکہ پاکستان میں رہنے والے طلباء بھی اس زمانے میں یہ ٹریننگ کرتے تھے لیکن ہمارا معاملہ کچھ مختلف تھا۔ یہ ٹریننگ محض ان اسٹوڈنٹس کے لئے مختص تھی جو کہ بیرون ممالک میں فیڈرل بورڈ میں پڑھتے رہے ہیں، لہذا اس میں ان کو کافی اضافی سہولیات مہیا کی گئی تھیں۔ مثلاً ان کے لئے بحری جہاز ”شمس“ اور فضائیہ بیس کے دورے وغیرہ کا بندوبست کیا گیا تھا۔

آدم جی سائنس کالج کے وسیع و عریض گراؤنڈ میں ”ڈڈو چال“ کا قضیہ یہ ہے کہ ایک پیریڈ سول ڈیفنس کا ہوتا تھا۔ استاد دبلے پتلے، بالوں کی کمی کو مونچھوں سے پورا کرنے کی کوشش کرتے، اپنی قدرے زنانہ آواز میں لیکچر دے رہے تھے کہ زور خطابت میں لڑکوں سے ایک سوال داغ بیٹھے۔ اس کلاس کی آخری صف میں بائیں جانب سے انہی جیسی آواز میں جواب دیا گیا جو کہ غالباً ان کو اچھا نہ لگا۔ ”کس نے جواب دیا ہے“ ۔ وہ گرجے۔ جواب پھر دھرایا گیا مگر اب کی مرتبہ جواب دائیں جانب سے آیا۔ لیکن اس مرتبہ گھٹی گھٹی ہنسی کی جگہ پوری کلاس قہقہوں سے گونج پڑی۔

اتھارٹی کو چیلنج کرنے کی قیمت ارزاں نہیں ہوتی۔ مگر کیا کیا جائے کہ عمر کے اس حصے میں حس مزاح پر مہار نہیں ڈالی جا سکتی، لہذا انسٹرکٹر نے اس دن ہماری لغت میں لفظ ”ڈڈو چال“ کا اضافہ کیا۔ ایک ان کہے کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت کسی نے بھی ان بہادر لڑکوں کا نام نہ لیا۔ سزا تو گراؤنڈ کے پورے دس چکروں کی تھی لیکن ان سرپھروں نے ایک چکر کے بعد اعترافی بیان دے کر کم از کم باقیوں کی جاں خلاصی کروائی اور ہنستے کھیلتے اس سزا کو پورا کیا۔

یہ تین چار لڑکوں کا گروہ تھا۔ ایک طرف ہم تھے جو کہ جولائی کی شدید چپچپی گرمی میں جس میں ہماری خاکی وردی بھیگ جاتی تھی اس بات کا انتظار کرتے تھے کہ کسی طرح چھٹی ہو، اور دوسری جانب یہ لوگ تھے کہ صوبیدار صاحب کو تنگ کرتے اور نتیجتاً سزا سمیٹتے۔ اب یہی دیکھئے کی فائرنگ کی مشق کے لئے ہمیں کہا گیا کہ ایک خاص انداز سے لیٹیں، ہم بھی اپنے تئیں باقیوں کی طرح پیٹ کے بل لیٹ گئے۔ خدا گواہ ہے کہ کیوں کہ ہم نے یہ کام کبھی کیا ہی نہیں تھا لہذا اس میں غلطی کی جس ممکن حد تک گنجائش ہو سکتی تھی، وہ ہم نے کی۔ مگر یہ کیا کہ ایک مسٹنڈے سے صوبیدار، اس جرم کی پاداش میں، قطار میں لیٹے بیرون ملک سے آنے والے نازک کم عمر لڑکوں کی پیٹھ پر، باغ میں چہل قدمی کرنے کے انداز سے چلتے چلے جائیں اور وہ بھی جوتوں سمیت۔ شاید جوتوں کا یعنی انگریزی میں بوٹس کا چلن یہی رہا ہے۔

جہاں سو لڑکوں کے اس گروپ میں زیادہ تر لڑکے، پاکستانی عوام کی طرح سر تسلیم خم کرنے کے روادار تھے وہاں ان چار لڑکوں کی بے خوفی پر تعجب بھی ہوتا تھا۔ بھلا زندگی کو مشکل بنانے کا فائدہ؟ جو کہا جا رہا ہے، کچھ سوچے سمجھے بغیر مان لو۔ رعایا ہو، رعایا کی طرح رہو، اپنی حد سے آگے نہ بڑھو۔

جانے کتنی ہی مرتبہ انہوں نے، صاحبان اختیار سے، کراچی میں مستعمل، ”پ“ سے شروع ہونے والا چار حرفی وہ لفظ، جس کا متبادل شاید لغت میں موجود نہیں ہے، لیا اور ہر مرتبہ اس کی قیمت چکائی مگر کمبخت مسکراتے رہتے۔

اسی ٹریننگ کے دوران ہم اپنی سادہ لوحی پر بھی ایمان لے آئے۔ یہ الگ بات کہ ہماری زوجہ محترمہ اس کو ہماری ایک اور حماقت پر محمول کرتی ہیں۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ اگر آپ کو فائرنگ کی مشق کے لئے لے جایا جائے اور آپ نشانہ بازی کے بعد بڑے اشتیاق سے اپنی مہارت کا مشاہدہ کرنے جائیں اور خلاف توقع اس قد آدم پیپر کو بے داغ پائیں تو یوں بھی آپ کا موڈ کچھ زیادہ خوشگوار نہیں رہتا اور پھر حسب روایت کسی منچلے کی شرارت کی بناء پر پوری پلاٹون کو یہ سزا دی جائے کہ چار سو گز دور موجود بورڈ کو ہاتھ لگا کر جو پہلے دس لوگ واپس آئیں گے، ان کو بخش دیا جائے گا اور باقی ماندہ لوگوں کو یہ شغل اس وقت تک کرتے رہنا ہو گا جب تک اس ریس میں صرف دس لوگ نہ رہ جائیں تو اس صورت میں ایک عقلمند آدمی کو کیا کرنا چاہیے۔

بھئی یقیناً تمام توانائیوں کو بروئے کار لا کر بھاگنا چاہیے۔ کم از کم اس وقت تو ہم اسی نتیجے پر پہنچے تھے۔ لہذا جس تیز رفتاری سے بھاگ سکتے تھے، ہم بھاگے۔ بورڈ کے قریب پہنچ کر دائیں بائیں دیکھا تو محض چار لڑکوں کو قریب پایا۔ زیر لب کھلتی ہوئی فاتحانہ مسکراہٹ کو بڑی دشواری سے چہرے پر اترنے سے روکا، بورڈ کو ہاتھ لگایا اور پلٹے ہی تھے کہ منظر دیکھ کر سٹپٹا سے گئے۔ ہاتھ پاؤں پھولنے کا محاورہ اس لمحہ سمجھ میں بھی آ گیا کیونکہ باقی پچانوے افراد راستے سے ہی واپس پلٹ چکے تھے! شروع میں بے بسی کی حالت میں گڑبڑا کر ہم نے ایڑ تو بیشک لگائی لیکن جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ اب خواہ ہم کتنا ہی تیز دوڑ لیں، چھیانوے نمبر سے ایک نمبر بھی کم نہیں آ سکتے۔

بچپنے میں ہم ”ٹوم اینڈ جیری“ کارٹون بہت شوق سے دیکھا کرتے تھے۔ اس میں جب ”ٹوم“ سے کوئی انتہائی حماقت کی بات سرزرد ہو جاتی تھی تو احساس ہونے پر اس کو اپنے اوپر کسی بوجھ اٹھانے والے جانور کا گمان ہوتا تھا۔ یقین جانیے کچھ ایسی ہی کیفیت اس دن ہماری بھی تھی۔

ہوم اکنامکس گرلز کالج میں ہمارے لئے الوداعی پارٹی بھی رکھی گئی۔ ملی نغمے گائے گئے، تقاریر ہوئیں، سزا دینے اور سزا کاٹنے والوں میں خوب ہنسی مذاق ہوتا رہا۔ ہم بھی بے حد خوش تھے کہ ٹریننگ ختم ہوئی اور یہ کہ اب ہم بیس نمبر کے حقدار ہو گئے کہ اچانک ایک سوچ ہمارے ذہن میں آئی اور ہم دم بخود رہ گئے۔

ہم نے بھی ان چار لڑکوں کی طرح یہ تیس دن گزارے تھے۔ ہماری نازک طبعی نے اس کو عذاب جانا تھا۔ ہم بے چینی سے ان کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ دوسری جانب یہ ہنستے کھیلتے شرارتی لڑکے بھی تھے جو اپنی چنچل طبیعت کے باعث ہم سے زیادہ مشکل وقت کاٹ چکے تھے۔ ان کے لئے بھی یہ تیس ہی دن تھے۔ محض ان کو دیکھنے کا انداز جدا گانہ تھا۔ ہم نے مشکلوں کو بار سمجھا تھا، انہوں نے اسے وقتی جانا تھا۔ ہم نے یہ دن کرب میں گزارے اور انہوں نے مشکلوں کو ہنسی میں اڑا دیا۔ اس دن ہم پر یہ رمز کھلا کہ زندگی تو ہر ایک کی گزر ہی جاتی ہے، اسے اچھی یا بری گزارنے کا اختیار البتہ ہمیں دیا گیا ہے۔ چاھیں تو اچھی گزاریں، چاھیں تو بری!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).