گلگت بلتستان الیکشن۔ خواتین کی آواز کتنی شامل ہوگی


گو کہ ملک کا آئین اس بات کی ضرور گارنٹی دیتا ہے کہ ریاست کے ہر شہری کو انتخابات میں آزادی سے حصہ لینے اور ووٹ دینے کا مکمل حق حاصل ہے مگر عملاً ایسا دکھائی نہیں دیتا ہے۔ رائے دہی کے استعمال میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں ان سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف ملکی سطح کی فیصلہ سازی میں خواتین کے حصہ پر نظر ڈالی جائے تو صورتحال کوئی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ 1956 سے لے کر 1972 تک جتنے بھی آئین یا طرز حکومت ملک میں رائج رہے ان کے تحت قومی اسمبلی اور سینیٹ میں خواتین کی براہ راست ووٹ کے ذریعے نمائندگی بہت ہی قلیل رہی۔ خواتین کی مخصوص نشستوں کے نام پر کچھ سلیکشن کی گئی مگر پاپولر ووٹ کے ذریعے خواتین کو فیصلہ سازی کے جمہوری اداروں میں آنے میں رخنہ ڈالا گیا۔

1973 کا آئین اس حوالے سے منفرد ہے کہ اول تو اسے تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر منظور کیا دوسری جانب یہ ملک کا واحد آئین ہے جو ملک کی تمام اکائیوں کے حقوق کا ضامن ہے۔ اس آئین کے تحت پہلی بار خواتین کو براہ راست منتخب ہونے کا موقع ملا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اس آئینی ضمانت کے باوجود ملک کی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں نے اب تک بہت کم خواتین امیدوران کو جنرل ٹکٹ جاری کیے جب کہ دوسری جانب مذہبی جماعتیں تو عورت کی حکمرانی کے خلاف ہیں تو پھر ٹکٹ دینا دور کی بات ہے۔

پاکستان بھی دیگر ممالک کی طرح Sustainable Development Goals یعنی SDGs کا دستخطی ہے جس کے Goal۔ 5 کے تحت ہر ملک کی بنیادی ذمہ واری ہے کہ خواتین کو معاشی اور سماجی طور پر با اختیار بنائے تاکہ وہ آزادانہ طور پر ہر قسم کی فیصلہ سازی میں شریک ہوں۔ 2015 سے 2030 کے لئے عالمی سطح پر تعین کیے گئے اہداف پر پاکستان کی پراگریس پر نظر ڈالی جائے تو خواتین کی ایمپاورمنٹ میں اب تک کی پیشرفت مایوس کن ہے۔ SDGs رپورٹس کے مطابق پاکستان اس سلسلے میں پچھلے نمبروں پر ہے۔

اس سارے پس منظر کے بیان کی وجہ یہ ہے کہ ان دنوں گلگت بلتستان میں انتخابات کا زور شور جاری ہے۔ گو کہ یہاں 1973 کا آئین نافذ نہیں اور نہ ہی یہ خطہ ائینی طور پر پاکستان میں باقاعدہ شامل ہے۔ تاہم ایک صدارتی آرڈیننس کے تحت 2009 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے عبوری صوبائی حیثیت دی ہے اس میں معمولی تبدیلی کے ساتھ کام چلایا جا رہا ہے۔

15 نومبر کو ہونے والے ان انتخابات میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں جن میں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ نون بھر پور انداز میں شرکت کر رہی ہیں۔ انتخابی مہم کے سلسلے میں بلاول بھٹو اور مریم نواز ان دنوں گلگت بلتستان میں جلسے کر رہے ہیں جبکہ وزیراعظم عمران خان بھی گلگت آ کر گئے ہیں اور اب ان کی پارٹی کے وزراء جلسہ جلوس کرنے اور منصوبوں کے اعلانات میں مصروف ہیں۔ سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان کے الیکشن کے لئے الیکشن ایکٹ آف پاکستان 2017 کو توسیع دی رکھا ہے۔

گلگت بلتستان میں 1948 سے لے کر 1960 تک کوئی باقاعدہ جمہوری عوامی ادارہ موجود ہی نہیں تھا۔ 1961 کے بعد سے ایڈوائزری کونسل، پھر ناردرن ایریاز کونسل اور پھر عبوری صوبائی اسمبلی جیسے ادارے بتدریج بنتے گئے۔ 1961 سے لے کر 1990 تک ناردرن ایریاز کونسل میں کسی بھی خاتون کی کوئی براہ راست نمائندگی موجود نہیں تھی۔

1994 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ریفامز پیکج کے تحت ناردرن ایریاز کونسل کی نشتیں 16 سے بڑھا کر 24 کر دیا جس میں خواتین کے لئے 02 علیحدہ نشستیں تھیں۔ جبکہ 2000 ء کے لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت خواتین کی سیٹوں کے لئے بالواسطہ انتخابات ہوئے۔ اس دور سے لے کر 2015 تک کے الیکشنز میں کسی بھی پارٹی نے جنرل سیٹوں کے لئے خواتین امیدواروں کو ترجیح نہیں دی۔

اب 15 نومبر کو منعقد ہونے والے الیکشن کے لئے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے صرف ایک ایک خاتون کو پارٹی ٹکٹ دیا ہے جب کہ مسلم لیگ نون نے تو یہ بھی زحمت گوراہ نہیں کیا ہے۔ دوسری جانب مذہبی جماعتوں کا وہی رویہ ہے جو پاکستان میں مروجہ ہے لیکن ہنزہ سے ایک خاتون غالباً JUIF کے ٹکٹ پر لڑ رہی ہے۔ فافین (FAFEN) اور ٹرسٹ فار ڈیموکریٹک ایجوکیشن اینڈ اکاؤنٹیبلٹی (TDEA) نے گلگت بلتستان کے حلقہ وار ووٹ کی جو تجزئیاتی رپورٹ 2020 جاری کیا ہے اس کے مطابق گلگت بلتستان میں خواتین کے ووٹ 339,998 ہیں جو کہ کل ووٹ کا 46 فی صد بنتا ہے۔ اس طرح خواتین ایک بڑا ووٹ بینک ہونے کے باوجود فیصلہ سازی کے آئینی ادارے میں ان کی آواز شامل نہ ہونے کے برابر ہے۔ کچھ مختص نشستوں پر خواتین کی سلیکشن ہوگی وہ بھی مرد ممبران کی مرضی سے۔

اگر پچھلے پانچ سالوں میں ہی گلگت بلتستان اسمبلی میں قانون سازی اور پیش کیے گئے بلوں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں خواتین کے امور سے متعلق قانون سازی نہ ہونے کے برابر ہے اور لگتا ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں بھی صورتحال جوں کی توں رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).