اٹلی: ایک ’روحانی‘ حلف ہے جو عورتوں کو اپنے سمگلروں کے نام لینے سے روکتا ہے


اٹلی کے جزیرے سسلی کے پہاڑوں میں نائجیریا کی ایک خاتون خواتین کو جبری طور پر اپنا جسم بیچنے سے بچانے کے لیے ایک لڑائی کی قیادت کر رہی ہیں۔

پناہ گزینوں کے بین الاقوامی ادارے (آئی او ایم) کے مطابق سنہ 2016 میں سسلی میں آنے والی گیارہ ہزار نائجیرین خواتین کو رجسٹر کیا گیا جن میں سے 80 فیصد کو سمگلنگ کے ذریعے لایا گیا اور جن میں سے زیادہ تر کو جسم فروشی کے لیے مجبور کیا گیا۔

اٹلی پہنچنے سے قبل ان خواتین کو ایک تقریب حلف لینے پر مجبور کیا جاتا ہے جس کی نگرانی روحانی پیشوا کرتے ہیں اور خواتین پولیس کے سامنے اپنے سمگلروں کا نام نہ لینے اور اپنے قرضے ادا کرنے کا حلف اٹھاتی ہیں۔

اوساس ایگبون نے اطالوی جزیرے پر جنوری میں انسانی سمگلنگ کا شکار خواتین کے لیے ایک پناہ گاہ کھولی، جو اپنی نوعیت کی ایسی پہلی پناہ گاہ ہے جسے نائجیریا کی ایک عورت نے نائجیریا کی ہی خواتین کے لیے شروع کیا ہے۔

ان کے پاس اس وقت چار خواتین ہیں جن کی عمریں 20 کے لگ بھگ ہیں جبکہ ایک خاتون بچے کے ساتھ ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ اس برس کے اختتام پر مزید دو خواتین ان کے ساتھ شامل ہو جائیں گی۔

ستمبر کی ایک گرم دوپہر میں اس جزیرے کے دارالحکومت پالرمو سے دور ایک گاؤں میں اس پناہ گاہ کو دیکھنے گئی۔

یہ بھی پڑھیے

’شمالی کوریا کی خواتین چین میں جسم فروشی پر مجبور‘

’تمھیں خرید کر لائے ہیں، تم کوئی مطالبہ نہیں کر سکتی‘

’لندن سے اغوا کر کے زبردستی سیکس ورکر بنا دیا‘

یہ سسلی کے گاؤں کا ایک روایتی گھر ہے جس میں بہت بڑا کچن ہے اور ایک چبوترا ہے جس سے سرسبز پہاڑیاں نظر آتی ہیں۔ تمام خواتین کے اپنے الگ کمرے ہیں لیکن سب کے لیے کچن اور باتھ روم ایک ہی ہے۔

ایگبون کو یہ پراپرٹی ان کے ایک اطالوی دوست نے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ بہت سے اطالوی باشندے نائجیرین خواتین کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب تارکین وطن مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں تو بہت سے دوسرے اطالوی شہری انھیں ایسا کرنے سے روکتے ہیں۔

خوفناک قتل

میری ایگبون سے پہلی ملاقات سنہ 2018 میں ہوئی اوراس وقت انھیں اور دوسری خواتین کو ’وویمن آف بینن سٹی‘ کے نام سے تنظیم بنائے ہوئے تین برس گزر چکے تھے۔

یہ تنظیم سسلی میں انسانی سمگلنگ کا نشانہ بننے والی خواتین کی مدد کرتی ہے، جن میں سے زیادہ تر خواتین کا تعلق نائجیریا کی ریاست ایڈو سے ہے اور جس کا دارالحکومت بینن سٹی ہے۔

مس ایگبون کو 18 برس قبل جبری جسم فروشی کے لیے سمگل کیا گیا تھا۔

وہ اپنے سمگلروں سے ادائیگی کے عوض رہائی حاصل کرنے میں کامیاب رہیں اور اب وہ ہنسی خوشی پالرمو میں اپنے خاندان کے ساتھ رہتی ہیں لیکن وہ دوسری خواتین کو اس تلخ تجربے سے گزرنے سے بچانے کے لیے پر عزم ہیں۔

سنہ 2011 کے آخری اور سنہ 2012 کے ابتدائی اوائل میں دو نوجوان نائجیرین خواتین کے خوفناک قتل نے ایبگون اور ان کی دوستوں کو اس کام سے نکلنے کے لیے سوچنے پر مجبور کیا۔

مرنے والی خواتین کی عمریں صرف 20 اور 22 برس تھیں۔

اس واقعے نے سسلی کے لوگوں کو نہ صرف ہلا کر رکھ دیا بلکہ جبری جسم فروشی میں نائجیرین خواتین کے دل دہلا دینے والے تجربات پر بھی روشنی ڈالی۔

ایسی انسانی سمگلنگ نئی نہیں لیکن سنہ 2015 میں شروع ہونے والے نام نہاد تارکین وطن کے بحران میں اس میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔

خواتین کی آمد کے بعد، انھیں اپنے سمگلروں سے نجات حاصل کرنے کے لیے 35 ہزار ڈالر تک ادائیگی کرنی پڑتی ہے اور خواتین یہ رقم جبری جسم فروشی سے جمع کرتی ہیں۔

’جوجو قسمیں‘

پالرمو میں خواتین عام طور پر بالارو کے کثیر الثقافتی پڑوس پہنچتی ہیں جہاں انھیں ’رابطہ گھروں‘ میں جن کی دیکھ بھال ’ماماز‘ کرتی ہیں، میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے یا وہ گلیوں میں کام کرتی ہیں۔

اوبا

اٹلی پہنچنے سے قبل ان خواتین کو جوجو حلف کی قسم اٹھانے پر مجبور کیا جاتا ہے، ایک رسمی تقریب جس کی نگرانی روحانی پیشوا کرتے ہیں اور خواتین پولیس کے سامنے اپنے سمگلروں کا نام نہ لینے، ’ماماز‘ کا حکم ماننے اور اپنے قرضے ادا کرنے کا حلف اٹھاتی ہیں۔

سمگلر خواتین کے روحانی عقائد کا فائدہ اٹھا کر انھیں اپنا شکار بناتے ہیں جس کی وجہ سے خواتین اس بارے میں آواز اٹھاتے ہوئے خوف محسوس کرتی ہیں کہ اگر انھوں نے ایسا کچھ کیا تو انھیں یا ان کے پیاروں کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ایبگون کے مطابق یہ حلف خواتین کو سمگلنگ گروہوں اور استحصال کی زندگی سے آزاد کرانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

دو برس قبل بینن سٹی کے بااثر روایتی رہنما اوبا نے ایبگون اور ان کی ساتھیوں کی بہت زیادہ مدد کی اور سمگلروں پر لعنت بھیجی۔ اس وقت پالرمو میں اس خبر کا اعلان کرتے پوسٹر بھی آویزاں کیے گئے۔

مس ایبگون کہتی ہیں کہ تب سے خواتین کا اعتماد حاصل کرنا آسان ہو گیا ہے اور اس کے بعد سے وہ بہت سی خواتین کو آزاد کرانے میں کامیاب رہی ہیں۔

’خواب جو سچ ہو گیا‘

تنظیم ’وویمن آف بینن سٹی‘ ان خواتین کو مشورے اور سب سے اہم جذباتی لحاظ سے مدد کرتی ہے۔

رضا کار اس بات کو بھی سمجھتے ہیں کہ بہت سی خواتین کے اپنے سمگلروں کے ساتھ جنسی تعلق بھی ان کی فرار کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔

ایبگون کہتی ہیں کہ وہ خواتین کو تعلیم تک رسائی، اطالوی کلاسز اور ٹریننگ کے ذریعے خود مختار کرنا چاہتی ہیں تاکہ وہ اپنے لیے ملازمت حاصل کر سکیں۔

وہ خواتین کو اس پناہ گاہ میں ایک سال تک رہنے کی اجازت دیتی ہیں تاکہ وہ ان تکلیف دہ تجربات سے باہر نکل سکیں اور اپنے مستقبل کی تیاری کر سکیں۔

مس ابیگون کے لیے جو خواتین کے لیے ایک آنٹی، کونسلر اور بہن بن چکی ہیں، یہ پناہ گاہ ایک خواب تھا جو سچ ہو گیا۔

لیکن اسے چلانا کافی مشکل ہے کیونکہ یہ عطیات پر رضاکارانہ طور پر چل رہا ہے۔

پالرمو میں نائجیرین کمیونٹی کے اراکین اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مدد کر رہے ہیں جبکہ گرجا گھر بھی پیسے جمع کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

اس خفیہ پناہ گار میں ایک دوپہر گزارنے کے بعد میں نے یہ محسوس کیا کہ خواتین وہاں خوش اور محفوظ محسوس کرتی ہیں اور وہ اس تلخ تجربے سے بہتر انداز سے نمٹ رہی ہیں۔

مس ایبگون کی باتیں سنتے ہوئے خواتین ایک دوسرے کے بال بنا رہی تھیں اور اپنے رات کے کھانے میں بکری کے گوشت کے تیار ہونے کا انتظار کررہی تھیں جو میں خصوصی فرمائش پر ان کے لیے پالرمو سے لے کر گئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp