امریکی الیکشن: ڈونلڈ ٹرمپ سے یاری کے بعد اب خلیجی ممالک کو نومنتخب صدر جو بائیڈن کی حقیقت کا سامنا


برطانیہ میں سعودی سفیر اپنے فون پر کچھ دیکھ رہے تھے جب انھوں نے کہا کہ 'مجھے معاف کرنا۔ میری توجہ بٹی ہوئی ہے۔۔۔ میں وسکونسن کے نتائج پر نظر رکھ رہا ہوں۔'

یہ آٹھ دن پُرانی بات ہے۔ اس وقت ہمیں معلوم نہیں تھا کہ جنوری میں وائٹ ہاؤس میں صدارت کون سنھبالے گا۔

جب جو بائیڈن کو فاتح قرار دیا گیا تو ریاض میں سعودی قیادت نے ڈونلڈ ٹرمپ کی گذشتہ جیت کے مقابلے میں اس بار ردعمل دینے میں کچھ دیر کی۔

یہ حیران کن نہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے سعودی عرب نے عالمی قیادت کی میز پر سے ایک دوست کھو دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن امریکہ کی خارجہ پالیسی کیسے تبدیل کریں گے؟

جو بائیڈن صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے کیا کریں گے؟

بائیڈن کی جیت کا دنیا کے باقی ممالک پر کیا اثر پڑے گا؟

امریکی صدارتی انتخاب 2020: ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست کیوں ہوئی؟

جو بائیڈن کی فتح سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے لیے طویل مدتی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ امریکہ اور اس خطے کی شراکت داری سنہ 1945 میں شروع ہوئی اور خیال ہے کہ یہ قائم رہے گی۔ لیکن کچھ ایسی تبدیلیاں ہوسکتی ہیں جنھیں خلیجی ممالک کی قیادت خوش دلی سے قبول نہ کرے۔

بڑے اتحادی کو کھو دینا

صدر ٹرمپ سعودی عرب کے حکمران خاندان آل سعود کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ 2017 میں صدر بننے کے بعد ان کا پہلا صدارتی دورہ ریاض کا تھا۔

ٹرمپ کے بیٹے جیرڈ کشنر نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ کام کے سلسلے میں ایک قریبی تعلق قائم کیا ہے۔

جب مغربی خفیہ ایجنسیوں نے سعودی ولی عہد پر الزام لگایا کہ وہ 2018 میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہوسکتے ہیں تو صدر ٹرمپ نے کھل کر اس معاملے پر بات نہیں کی اور ان پر یہ الزام نہیں دہرایا۔

بعد کے دنوں میں محمد بن سلمان کی ٹیم نے لوگوں کو بتایا کہ ‘فکر نہ کرو۔ یہ صورتحال ہمارے قابو میں ہے۔’

ٹرمپ، سعودی، مصر

جب کانگریس میں شور مچا کہ سعودی عرب کے ساتھ اسلحے کے معاہدے روکے جائیں تو ٹرمپ نے اس پر بھی چُپ سادھ رکھی۔

تو اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سعودی عرب، اور کچھ حد تک متحدہ عرب امارات اور بحرین، وائٹ ہاؤس میں اپنا قریبی دوست کھونے جا رہے ہیں۔

کئی امور پر شاید کوئی تبدیلی نہ آئے لیکن ممکنہ طور پر ان امور پر پالیسی میں تبدیلی آسکتی ہیں:

یمن کی جنگ

صدر باراک اوباما اور ان کے نائب صدر جو بائیڈن اپنے آٹھ برسوں کے دوران سعودی عرب کی جانب سے حوثی باغیوں کے خلاف محاذ سے خوش نہیں تھے اور ان کی بے چینی بڑھ رہی تھی۔

لیکن جب ان کا دور ختم ہوا تو فضائی جنگ قریب دو برس سے جاری تھی لیکن سعودی عرب کو بہت کم فوجی کامیابی ملی تھی۔ اس سے عام شہریوں اور ملک کے انفراسٹرکچر کو بھی کافی نقصان پہنچا تھا۔

جب امریکی ایوانوں میں اس جنگ کے لیے ناپسندیدگی بڑھی تو صدر اوباما نے اس سعودی جنگ کے لیے امریکی فوج اور خفیہ آپریشنز کے لیے فنڈ روک دیے۔

یمب، حوثی، سعودی، امریکہ

لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے اس اقدام کو ختم کردیا اور یمن میں کارروائیوں کے لیے سعودی عرب کو کھلی چھوٹ دے دی۔

لیکن اب لگ رہا ہے کہ معاملہ پھر الٹ جائے گا۔ جو بائیڈن نے کونسل برائے خارجی امور کو بتایا تھا کہ وہ ‘یمن میں تباہ کن سعودی جنگ کے لیے امریکہ کی حمایت ختم کردیں گے اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کا از سر نو جائزہ لینے کا حکم دیں گے۔’

ممکنہ طور پر اب بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے سعودی قیادت اور ان کے یمن کے اتحادیوں پر دباؤ بڑھے گا کہ اس جھگڑے کو اب سمیٹ لیا جائے۔

سعودی اور اماراتی یہ پہلے ہی جان چکے تھے کہ اس کا نتیجہ فوجی کامیابی میں نہیں ہوگا۔ وہ خود بھی اس سے ‘فیس سیونگ کے ساتھ’ نکلنا چاہ رہے تھے کیونکہ 2015 میں فضائی جنگ شروع ہونے کے بعد اب حوثی اپنی پرانی حالت میں نہیں رہے۔

ایران

مشرق وسطیٰ میں صدر اوباما کی بڑی کامیابیوں میں سے ایک ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ سمجھا جاتا ہے۔

اس سے ایران پر تجارتی سختیاں ختم کرنے کے بدلے اس کی جوہری سرگرمیوں پر نگرانی بڑھ گئی تھی جبکہ جوہری تنصیبات کا جائزہ بھی لیا جانا تھا۔

صدر ٹرمپ نے اسے ‘بدترین معاہدہ’ قرار دے کر اس کے لیے امریکی حمایت ختم کر دی تھی۔

اب ان کے جانشین کی کوشش ہوگی کہ دوبارہ امریکہ اسی طرز کا ایک معاہدہ ایران کے ساتھ طے کرے۔

قاسم سلیمانی، ایران، ٹرمپ

یہ سعودی عرب کے لیے اچھی خبر نہیں۔ ریاض میں گذشتہ سال سعودی تیل کی تنصیبات پر پُر اسرار میزائل حملے ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد جب میں سعودی وزیر خارجہ کی ایک پریس کانفرنس میں گیا تو دیکھا کہ انھوں نے ایران سے جوہری معاہدے پر کافی تنقید کی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ تباہ کن تھا کیونکہ اس میں ایران کے وسیع میزائل پروگرام یا مشرق وسطیٰ میں اس کے پراکسی ملیشیا گروہوں کے نیٹ ورک پر توجہ نہیں دی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ پورا معاہدہ اوباما انتظامیہ کی غلطی کا نتیجہ تھا اور اس میں ایران سے پورے خطے کو درپیش خطرے کا دھیان نہیں رکھا گیا۔

امریکہ نے رواں سال جنوری میں جب ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ڈرون حملے میں ہلاک کیا تو سعودی عرب اور کچھ خلیجی ریاستوں نے چُپ رہتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا۔ وہ ایران کے پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ تھے۔ یہ فورس ملک سے باہر آپرینشز کرتی تھی۔

اب انھیں فکر ہے کہ وائٹ ہاؤس دوبارہ تہران کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنے میں دلچسپی رکھ سکتا ہے جس سے ان کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔

قطر

مشرق وسطیٰ میں پینٹاگون کا سب سے بڑا اور علاقائی اعتبار سے اہم فضائی اڈہ قطر میں ہے۔ اس کا نام العدید ایئر بیس ہے۔

یہاں سے امریکہ شام اور افغانستان میں اپنے فضائی آپریشن کرتا ہے۔

ٹرمپ، قطر، مشرق وسطیٰ

لیکن اس کے باوجود سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ انھیں تشویش ہے کہ قطر اخوان المسلمون جیسی اسلامی انقلاب کی تحریکوں کی حمایت کرتا ہے۔

یہ بائیکاٹ تب شروع ہوا جب ٹرمپ نے 2017 میں ریاض کا دورہ کیا۔ عرب ممالک کو لگا تھا کہ انھیں ٹرمپ کی حمایت حاصل ہوگی۔

ابتدا میں ٹرمپ نے مختصر دورانیے کے لیے اس کی حمایت کی لیکن بعد میں انھیں بتایا گیا کہ قطر بھی امریکہ کا اتحادی ہے اور العدید ایئربیس امریکی محکمۂ دفاع کے لیے اہم ہے۔

نومنتخب صدر جو بائیڈن چاہیں گے کہ خلیجی ممالک میں اس اندرونی نتازع کو ختم کیا جاسکے۔ یہ امریکہ کے مفاد میں نہیں اور نہ ہی اس سے خلیجی ممالک کو کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے۔

انسانی حقوق

کئی خلیجی ممالک میں انسانی حقوق کا ریکارڈ کافی بُرا ہے۔

صدر ٹرمپ نے اس مسئلے پر اپنے عرب اتحادیوں کی توجہ مرکوز کرنے کے لیے زیادہ کوششیں نہیں کیں۔

استنبول، جمال خاشقجی، ترکی، سعودی، ٹرمپ

وہ سمجھتے تھے کہ انسانی حقوق کے مسائل پر تشویش کا اظہار امریکی علاقائی مفادات اور کاروباری معاہدوں پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ شاید اسی لیے انھوں نے خواتین کے حقوق کی کارکنان کی قید، قطر میں غیر ملکی مزدوروں کے ساتھ مبینہ بد سلوکی یا ایک منصوبے کے تحت صحافی جمال خاشقجی کی ہلاکت اور بعد میں سرکاری طیاروں کے ذریعے ان کی لاش کو استنبول جا کر ٹھکانے لگانا (جن کی لاش آج تک نہیں مل سکی) جیسے مسائل پر زیادہ زور نہیں دیا۔

تاثر ملتا ہے کہ نومنتخب صدر جو بائیڈن ایسے معاملات پر خاموش نہیں رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp