حسن ناصر: قلعہ لاہور میں دورانِ حراست ہلاک ہونے والے کمیونسٹ رہنما جن کی والدہ نے ان کی لاش پہچاننے سے انکار کر دیا


 

حسن ناصر

گورکنوں نے تازہ بنی ہوئی قبر کی مٹی ہٹائی تو نئی لکڑی کا بنا ہوا تابوت برآمد ہوا۔ اوپر کا ڈھکنا کھولا گیا اور اندر کفن میں لپٹی ایک میت برامد ہوئی۔ سر اور پاؤں سے کفن ہٹایا گیا تو معلوم ہوا کہ لاش بہت گل سڑک چکی تھی۔

لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں اس کارروائی کے دوران ایک بزرگ خاتون آگے بڑھیں، لاش کے بالوں کو ٹٹولا، ماتھے پر نگاہیں گاڑیں، دانتوں پر ایک ماہر دندساز کی طرح غور کیا اور پاؤں کی ساخت دیکھی۔ پھر نسبتاً بھرائی ہوئی آواز بلند ہوئی ’یہ میرے بیٹے کی لاش نہیں ہے۔ ظالموں نے میرے بیٹے کو مارا تھا، لاش تو دے دیتے۔‘

یہ بزرگ خاتون زہرہ علمبردار تھیں جو حیدرآباد دکن سے خصوصی طور پر اپنے بیٹے کی میت لینے لاہور آئی تھیں۔ ان کا بیٹا، حسن ناصر، پاکستان اور اس سے قبل مشترکہ انڈیا کا ایک نامور کمیونسٹ سٹوڈنٹ لیڈر تھا۔

حسن کے بارے میں پولیس کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے دورانِ تفتیش خودکشی کر لی، جبکہ ان کے ساتھیوں کا الزام تھا کہ ان کی ہلاکت کی وجہ تشدد بنی۔

حسن ناصر کون تھے؟

حسن ناصر کے والد سید علمبردار حیدرآباد دکن کے صدر مہاراجہ سرکشن پرشاد بہادر (جو خود ایک شاعر اور علامہ اقبال کے دوست بھی تھے) کے پرائیوٹ سیکریٹری تھے اور ان کے بعد کی حکومتوں میں بھی پرائیوٹ سیکریٹری کے عہدے پر فائز رہے۔

حسن کی والدہ زہرہ علمبردار آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی اور سر سید احمد خان کے ساتھی سید مہدی علی المعروف نواب محسن الملک کی صاحبزادی تھیں۔ ان کے والد انسپیکٹر جنرل آف روینیو سمیت حیدرآباد ریاست میں کئی چہدوں پر تعینات رہے۔

یہ بھی پڑھیے

جب نیلسن منڈیلا نے کشمیر کو ’متنازع خطہ‘ کہہ کر انڈیا کو ناراض کیا

وہ رہنما جن کی قبر کو بھی برطانوی سرکار نے قید میں رکھا

انڈیا میں کمیونسٹ سیاست کا خاتمہ

دوی کمار نے روزنامہ آندھرا جوتی کی 28 نومبر 2004 کی اشاعت میں لکھا تھا کہ حسن ناصر کے ماموں میں قابل ذکر عابد حسن سفرانی ہیں جو سبھاش چندر بوس کے ان دنوں کے ساتھی تھے جب وہ انجنیئرنگ کی تعلیم کے دوران جرمنی میں مقیم تھے۔

آزاد ہند فوج کے ذریعے مشہور ہونے والا نعرہ ’جئے ہند‘ عابد حسن سفرانی ہی کی دین ہے اور وہ اسی پرواز میں سوار تھے جس کے دوران بوس کی موت ہوئی تاہم انھوں نے درمیان میں سفر منقطع کر لیا تھا جس کی وجہ سے وہ حادثے کا شکار ہونے سے بچ گئے۔

وہ برما اور سنگاپور میں قید رہے اور تقسیم ہند کے بعد دفتر خارجہ کی جانب سے مختلف ممالک میں تعینات رہے۔

حسن ناصر

حسن ناصر اور ان کی والدہ

دارالعلوم حیدرآباد کے سابق صدر نورالحسن لکھتے ہیں کہ حسن ناصر ان کے بڑے بھائی سید علمبردار کے دوسرے بڑے صاحبزادے تھے۔

ان کی پیدائش 1928 اگست میں ہوئی اور ابتدائی تعلیم گرامر سکول میں حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی سے ہی وہ بہت اچھے مقرر تھے اور انھیں انگریزی زبان پر خاصا عبور حاصل تھا۔

انھوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی جانا چاہا لیکن ان کے والد نے کمسنی میں انھیں برطانیہ بھیجنا مناسب نہیں سمجھا اور ان کو کہا کہ وہ بی اے کرنے کے بعد تعلیم حاصل کرنے بیرون ملک جا سکتے ہیں۔

مایوسی کے عالم میں حسن علی گڑھ انٹرمیڈیٹ کرنے چلے گئے جہاں سینئر کیمبرج کرنے والے کو سیکنڈ ایئر میں داخلہ مل جاتا تھا اور ایک سال بچ جاتا تھا۔ علی گڑہ کی دنیا ان کے لیے انوکھی رہی اور ان کا واسطہ بھانت بھانت کے لڑکوں سے پڑا۔ پھر وہ واپس آئے اور نظام کالج میں بی اے میں داخل ہوگئے۔

کمیونسٹ فلسفہ اپنا کر ناصر نے گھر چھوڑ دیا

دارالعلوم حیدرآباد کے سابق صدر نورالحسن لکھتے ہیں کہ حسن ناصر کے اپنے سگے خالہ زاد بھائی کوکب دری سے گہرے تعلقات پیدا ہوگئے۔

کوکب کمیونسٹ خیالات رکھنے جوشیلے جوان تھے۔ انھوں نے ناصر کو کارل مارکس کے نظریے سے متعارف کروایا اور کمیونسٹ کتب پڑھنے کا شوق پیدا کیا جس کے نتیجے میں ناصر نے کمیونسٹ فلسفہ اپنا لیا، تعلیم ترک کر دی اور گھر بار چھوڑ دیا۔

ڈاکٹر راج بہادر گوڑ ہفتہ وار نیا آدم حیدرآباد کے 13 اگست 1973 کے شمارے میں لکھتے ہیں کہ حسن ناصر حیدرآباد دکن سٹوڈنٹ یونین سے وابستہ تھے اور مارچ 1942 میں سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی کے رہنماوں کی رہائی کے مطالبہ پر طالب علموں کی ہڑتالوں میں آگے آگے تھا۔

دوی کمار کا کہنا ہے کہ انھوں نے آزاد ہند فوج کے سپاہیوں کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے جامعہ عمثانیہ میں زبردست احتجاج منظم کیا۔ ان کا خیال ہے کہ اس احتجاج کی وجہ شاید ان کے ماموں کی سنگاپور جیل میں قید بھی ہوسکتی ہے۔

حسن ناصر

حیدرآباد دکن کے ناظم کے خلاف احتجاج

حسن ناصر حیدرآباد دکن کے انقلابی شاعر اور تلنگانہ کے کسانوں کی مسلح جدوجہد میں شریک مخدوم محی الدین کھدری سے متاثر تھے جو عثمانیہ کالج میں استاد رہے اور حیدرآباد دکن میں طلبہ اور مزدوروں کی جدوجہد کے ایک اہم کردار سمجھے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر راج بہادر گوڑ لکھتے ہیں کہ 1947 سابقہ ریاست حیدرآباد میں زبردستی عوامی جمہوری جدوجہد کا سال تھا اور ’ہندوستان کہیں آزاد تھا اور کہیں غلام اور حیدرآباد اہم غلام چپہ تھا۔ 31 جولائی 1947 کو 25 ہزار سے زائد طالب علموں کا ایک جلوس صدر سٹیٹ کانگریس کے پاس پہنچا کہ عوامی جدوجہد شروع کی جائے۔ حسن ناصر بھی اس جلوس کے رہنماؤں میں شامل تھا۔ پھر اگست اور ستمبر میں طالب علموں کی زبردست ہڑتالیں اور لڑائیاں ہوئیں اور ہند سرکار نے نظام کے ساتھ شرمناک معاہدہ کر لیا۔‘

پاکستان ہجرت اور راولپنڈی سازش کیس

پھر حسن ناصر بمبئی منتقل ہوگئے جہاں وہ سجاد ظہیر سمیت دیگر کمیونسٹ قیادت کے ساتھ منسلک رہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد انڈین کمیونسٹ پارٹی کی تنظیمی قیادت اور اس نظریے کے زیر اثر لکھاری اور شعرا پاکستان آگئے تھے جن میں سجاد ظہیر، سبط حسن، ساحر لدھیانوی وغیرہ شامل تھے۔ سجاد ظہیر کے کہنے پر حسن ناصر پاکستان منتقل ہوگئے۔

پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کے سابق رہنما تنویر شیخ لکھتے ہیں کہ 1948 کے آخر اور 1949 کی ابتدا میں پورٹ ٹرسٹ اور ٹراموے کی ہڑتال کے سلسلے میں پارٹی قیادت کو گرفتار کر لیا گیا اور حسن ناصر کو پارٹی کی تنظیمی ذمہ داریاں اٹھانی پڑیں۔ انھوں نے روپوشی میں بھی سرگرمیاں جاری رکھیں اور وہ سندھ صوبائی کمیٹی کے سیکریٹری اور سینٹرل سیکریٹریٹ کے رکن بنا دیئے گئے۔

1948 میں کشمیر کے معاملے پر انڈیا سے جنگ کی قیادت کرنے والے پاکستان فوج کے میجر جنرل اکبر خان اور وزیراعظم لیاقت علی خان کے درمیان اختلافات ہوگئے۔ اکبر خان کمیونسٹ رہنما سجاد ظہیر اور شاعر فیض احمد فیض کے دوست تھے۔

جنرل اکبر پر ان کمیونسٹ رہنماؤں کے ساتھ مل کر حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام عائد ہوا اور اسے ’راولپنڈی سازش کیس‘ قرار دیا گیا جس میں جنرل اکبر، ان کی بیوی، سجاد ظہیر اور فیض احمد فیض کے ساتھ حسن ناصر کو گرفتار کر لیا گیا اور کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی۔

حسن ناصر

پاکستان سے انڈیا ملک بدری

سنہ 1952 میں رہا ہونے کے بعد حسن ناصر پھر جماعت کی تنظیم سازی میں لگ گئے اور انھیں ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا اور 1954 میں ملک بدر کر دیا گیا۔

استاد اور کالم نویس پروفیسر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ حسن ناصر کی والدہ انھیں کراچی لینے آئیں اور انہوں نے فخرالدین جی ابراہیم سے ملاقات کی، جن کا حسن پر کچھ اثر تھا۔ پھر ان کے کہنے پر وہ والدہ کے ہمراہ انڈیا جانے پر راضی ہوگئے۔

حسن ناصر کے سیاسی ساتھی اور وکیل میجر اسحاق محمد کتاب ’حسن ناصر کی شہادت‘ میں ان کی والدہ زہرہ علمبردار سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں زہرہ علمبردار نے انھیں بتایا کہ حسن ناصر کو پاکستان بہت عزیز تھا۔ جب جلاوطنی کے بعد وہ حیدرآباد دکن واپس پہنچے تو ان کے عزیز و اقارب نے تمام کوششیں کر لیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح وہیں ٹکے رہیں یا تعلیم کے لیے انگلینڈ، یورپ یا امریکہ چلے جائیں۔ حتیٰ کہ آندھرا پردیش کمیونسٹ پارٹی تک سے کہلوایا گیا۔ تاہم ان کی والدہ نے خود ناصر کو پاکستان لوٹنے سے نہیں روکا کیونکہ وہ بھانپ چکی تھیں کہ حسن نہیں رکے گا۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ وہ چلا بھی جائے اور ماں کی نافرمانی کا بوجھ اٹھاتا پھرے۔

تنویر شیخ لکھتے ہیں کہ 1956 میں تمام مشوروں کے باوجود حسن جلاوطنی کی مدت ختم ہوتے ہی پاکستان واپس آ گئے اور پارٹی کے فیصلے کے مطابق کُل پاکستان نیشنل عوامی پارٹی کے آفس سیکریٹری بن گے۔

جب 1956 میں مارشل لا لگا تو حسن ناصر کو روپوش ہونا پڑا۔

روسی سفیر سے ملاقات

نومولود کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے بانی رہنما سجاد ظہیر راولپنڈی سازش کیس میں رہائی کے بعد انڈیا واپس چلے گئے اور پھر نہیں لوٹے اور حسن ناصر ایک متحرک رہنما کے طور پر سامنے آئے۔

حمزہ ورک ماہ نامہ ’عوامی جمہوریت‘ میں لکھتے ہیں کہ ایوب خان حکومت کی جانب سے پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست پر سخت گیری جاری تھی تاکہ سیٹو اور سینٹو جیسے امریکہ سرپرستی میں کیے گئے دفاعی معاہدوں میں شامل ہو سکے۔ حسن ناصر اور بائیں بازو کی قیادت کو ڈر تھا کہ تھا کہ ایوب خان پاکستان کو مکمل امریکی اڈے میں تبدیل کر رہے ہیں۔

حسن نے پاکستان کے خلاف سازش کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان میں روسی سفیر سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ وہ پاکستان کی معاشی مدد کریں تاکہ پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے۔

ان کے مطابق اسی ملاقات کے نتیجے میں ایوب خان کے وزیر معدنیات ذوالفقار علی بھٹو 1960 میں جب سوویت یونین کے دورے پر گئے تو روس اور پاکستان کے مابین پاکستان میں تیل تلاش کرنے کا معاہدہ طے پایا۔

آپ شاید سوچ رہے ہوں گے کہ حسن ناصر نے کس طرح روس کے سفیر سے ملاقات کی اور ان کو پاکستان کی امداد پر راضی کیا؟ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے بھی اس بات کی کھوج لگانے کی کوشش کی۔

حسن ناصر

فیض احمد فیض کا اضطراب

’حسن ناصر کی شہادت‘ میں میجر اسحاق محمد 19 نومبر 1960 کی دوپہر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس روز وہ فیض احمد فیض کے کمرے میں داخل ہوئے تو انھیں غمگین اور اداس پایا اور کہا کے چائے پینے چلتے ہیں۔ وہ قریب کے ایک ریستوران چلے گئے۔

فیض نے دہشت زدہ انداز میں پوچھا، ’تمیں معلوم ہے کہ قلعے میں ہمارا کون آدمی بند ہے؟‘

’حسن ناصر، میں نے کہا۔ فیض نے جواب دیا، ہاں اور مزید کہا کہ پچھلے مہینے میں وہاں بند تھا تو مجھے شک تھا کہ وہ وہاں ہے یا ہو کر گیا ہے۔ میں نے ایک سی آئی ڈی والے سے پوچھا تھا تو اس نے انکار کیا تھا، کہتا تھا کہ وہ کراچی سے متعلق ہے۔ ایک صاحب نے البتہ کچھ دن ہوئے مجھے بتایا کہ وہ قلعے میں نظر بند ہے اور اس پر تشدد ہو رہا ہے۔‘

مصنف لکھتے ہیں کہ فیض احمد فیض نے انھیں بتایا کہ حمید اختر (کمیونسٹ نظریے کے حامی صحافی) نے بتایا ہے کہ ان کے محلے کی ایک عورت کا خاوند قلعے میں بند ہے۔ حمید اختر کی انٹلیجنس کے سید اعجاز شاہ کو سفارش کرنے پر اس عورت کو اپنے خاوند تک کھانا لے جانے کی اجازت ملی ہوئی ہے۔ اس خاتون کا کہنا ہے کہ قلعے میں ایک سیاسی قیدی پر تشدد ہو رہا ہے اور اس کی کرب ناک دہاڑوں سے قلعے کے دوسرے باسی سہم کر رہ گئے ہیں۔ عورت نے بتایا کہ اس کے بعد تین دن تک قلعے بند رکھا گیا اور وہ خاوند سے نہیں سکی۔

بعد میں فیض احمد فیض نے میجر اسحاق کی کتاب کے سرورق پر لکھا تھا کہ ’دو تین برس گذر گئے۔ ایوب خان کی فوجی حکومت کو قائم ہوئے وہ لوگ پھر جیلوں میں بھر دیئے گئے۔ اس دفعہ لاہور قلعے کی وحشت ناک زندانوں کا منھ دیکھا۔ چار پانچ مہینے بعد رہائی ہوئی۔ انھیں رہا ہوئے تھوڑے دن گزرے تھے کہ ایک شام مال روڈ پر انھیں لاہور قلعے کا ایک وارڈر ملا جس نے بتایا کہ قلعے میں ہمارے ساتھ کا کوئی نیا قیدی آیا تھا جو دو دن پہلے فوت ہو گیا۔ اسی شام یا اگلے دن اسحاق سے ملاقات ہوئی اور ہم دونوں نے طے کیا کہ ہو نہ ہو، یہ قیدی ضرور حسن ناصر ہوگا۔‘

پاکستان میں حسن ناصر کے رشتے داروں کی تلاش

میجر اسحاق لکھتے ہیں کہ انھیں حسن ناصر کے کسی قریبی رشتہ دار کی تلاش تھی کیونکہ قلعے میں نظر بند ہونے والوں سے صرف ان کے رشتہ دار ہی مل سکتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کا کوئی رشتہ دار ملاقات کرنے آئے تو ممکن ہے ظلم کے لئے اٹھتے ہوئے ہاتھ رک جائیں گے۔

کراچی میں ان کے ایک ساتھی عطا نے بتایا کہ وہ حسن کے ایک ماموں کو جانتے ہیں جو کہ ڈاکٹر ہیں۔ اگلی رات گئے عطا کا فون آیا کہ اس نے ڈاکٹر کو پریشان پایا۔ ماموں نے عطا کو خفیہ پولیس کا آدمی سمجھا ان کی بڑی خاطر مدارت کی اور کہنے لگے کہ دل کا مریض ہوں آپ کے حسب منشا میرا اجازت نامہ تو آپ کو مل گیا ہوگا۔ عطا نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا۔

’عطا نے میرا پیغام پہنچایا تو وہ افسردہ ہوگئے اور سسکی لے کر کہنے لگے اب کچھ نہیں ہوسکتا اور اٹھ کر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد ان کی بیگم دیوانہ وار وارد ہوئیں اور چیخ چیخ کر عطا کو گھر سے نکال دیا۔‘

لاہور قلعہ

قلعہ لاہور

شاہی قلعہ جیل حکام کی لاعلمی

میجر اسحاق لکھتے ہیں کہ 21 نومبر کو انھوں نے میاں محمود علی قصوری سے رابطہ کیا جنھیں شہری حقوق سے متعلق مقدمے لڑنے میں مہارت تھی۔ اس کے علاوہ وہ، قصوری اور حسن ناصر تینوں نیشنل عوامی پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔

قصوری نے سارا قصہ سننے کے بعد عدالت کی طرف بھگانے کے بجائے ان سے رجوع کیا جن کی تحویل میں حسن ناصر تھے۔

انھوں نے سپرنٹینڈنٹ پولیس شہزادہ حبیب احمد کو ٹیلی فون کیا جنھوں نے قصوری کو بتایا کہ چونکہ حسن ناصر کا تعلق کراچی سے ہے اس لیے ان کے پاس حسن کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں۔

بینظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت 1988 میں شاہی قلعے کا عقوبت خانہ مکمل طور پر بند کر دیا گیا تھا۔

1960 کی دہائی کی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے میجر اسحاق لکھتے ہیں کہ ’لاہور کے شاہی قلعہ کے بندیخانے کا سرکاری درجہ ایک چھوٹی جیل یا سب جیل کا ہے جو ڈپٹی انسپیکٹر جنرل سی آئی ڈی کی نگرانی میں ہے۔ ہاتھی دروازے سے قلعے میں داخل ہوکر سڑک پر چڑھتے جائیں اور دیوان عام کے سامنے میدان کی سطح پر پہنچتے ہی دائیں گھومیں تو سامنے بندیخانے کا پھاٹک ہے۔

پھاٹک کے اندر ساتھ ہی بائیں جانب کوٹھڑیوں کی قطار ہے۔ یہ قید خانہ دراصل سی آئی ڈی کا تفتیشی مرکز ہے۔ ایک وقت میں یہاں بیس کے قریب قیدی رکھے جاتے ہیں جن کو پوچھ گچھ کے بعد عام جیل میں بھیج دیا جاتا۔ مجھے دو دفعہ قلعے لے جایا گیا تھا۔‘

حسن ناصر کی خودکشی؟

میجر اسحاق لکھتے ہیں کہ انھوں نے محمود علی قصوری کو ہائی کورٹ میں حبس بےجا کی درخواست داخل کرنے کا کہا چنانچہ اسی وقت درخواست ٹائپ کروا کر ہائی کورٹ میں دائر کر دی گئی اور قصوری اس کو دستی چیف جسٹس ایم آر کیانی مرحوم کے پاس لے گئے۔

اس درخواست میں تحویل کو غیر قانونی قرار دینے کے ساتھ یہ بیان کیا گیا تھا کہ گذشتہ دو دنوں سے لاہور اور کراچی میں ایک افواہ گشت کر رہی ہے کہ ناصر کو قتل کر دیا گیا ہے یا وہ مر گیا ہے یا ایسی حالت میں ہے کہ اس کی زندگی کو خطرہ ہے۔

چیف جسٹس ایم آر کیانی نے اسی دن احکام جاری کیے کہ نظر بند کو فوری عدالت کے سامنے پیش کیا جائے اور عدالت ہی کا ایک ذمہ دار افسر اس حکم کو سول سیکریٹریٹ لیکر جائے۔ میجر اسحاق ہائی کورٹ کے ایک سپرنٹینڈنٹ کو لیکر سول سیکریٹریٹ پہنچے اور وہاں امور داخلہ کے ڈپٹی سیکریٹری کے پاس بھیج دیا گیا۔ انھیں یہ پیغام دیا گیا۔

’ڈپٹی سیکریٹری اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے اور واپس آ کر ہائی کورٹ کے حکم کا دو سطر کا جواب لکھ دیا کہ سی آئی ڈی نے اطلاع دی ہے کہ حسن ناصر کو کراچی میں 16 اگست کو تحفظِ پاکستان قانون کے تحت ایک سال کے لیے نظر بند کر دیا گیا تھا اور اطلاع کے مطابق 13 نومبر کو اس نے خودکشی کر لی ہے۔‘

’یہ سنتے ہی میں بھڑک اٹھا اور کڑک کر کہا کہ یہ بکواس ہے، انھوں نے پہلے پھانسی دی اور اب نام بدنام کر رہے ہیں۔‘

وکیلوں نے کان پکڑ لیے‘

میجر اسحاق بتاتے ہیں کہ وہ واپس ہائی کورٹ پہنچے اور قصوری کو آگاہ کیا۔ مقدمہ دوبارہ چیف جسٹس کے پاس آیا اور انہوں نے ایک دوسرے جج شبیر احمد کے حوالے کر دیا۔ انھوں نے حکم دیا کیا کہ چونکہ قصوری بحث کرنا چاہتے ہیں، اگر میجسٹریٹ کی رپورٹ ہے تو عدالت میں پیش کی جائے اور اگر مکمل نہیں ہے تو اس میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے۔

قصوری صاحب واضح کرچکے تھے کہ وہ ہائی کورٹ میں مقدمے کی پیروی کرسکیں گے مگر ذیلی عدالت میں نہیں جائیں گے تاہم انھوں نے کسی دوسرے وکیل کی فیس دینے کی پیشکش کی۔ ’ہم سب نے مل کر بڑا زور مارا کہ کوئی تجربہ کار وکیل مل جائے لیکن جس سے بھی بات کی جاتی اس نے کانوں کو ہاتھ لگائے اور زبان دانتوں تلے دبائی، اس طرح اپنی معذوری کا اظہار کیا جس کے بعد (قصوری) نے ذاتی طور پر مقدمے کی پیروی کی۔‘

میخ میں آزار بند ڈال کر خودکشی؟

سی آئی ڈی پولیس کی جانب سے عدالت میں تحریری حلف نامے جمع کرائے گئے۔ چشم دید گواہ 50 سالہ بکھا خاکروب کو بتایا گیا جس نے بیان کیا کہ صبح آٹھ بجے میں نے اس کے کمرے کی صفائی کی تو اس وقت متوفی پلنگ پر بیٹھا اخبار پڑہ رہا تھا۔ ان کے درمیان کوئی گفتگو نہیں ہوئی اور نہ کبھی ہوئی تھی۔

’اس کے بعد گیارہ بجے کے بعد فنائل ڈالنے گیا تو طفیل سپاہی نے دروازہ کھولا۔ میں اندر گیا تو دیکھا متوفی دیوار سے لٹکا ہوا تھا۔ میں نے شور مچایا تو لائنز افسر اور دیگر آدمی آگئے۔‘

اے ایس آئی شبیر حسین خان نے اپنے حلف نامے میں کہا کہ ان کو بکھا خاکروب نے اطلاع دی کہ حسن ناصر اپنی کوٹھڑی میں پھندے سے لٹک رہا ہے۔ ’میں فورا اس کوٹھڑی کی طرف لپکا اور اس کو لوہے کی ایک میخ کے ساتھ اپنے آزار بند کے ذریعے لٹکتے دیکھا۔‘

اے ایس آئی نے حلف نامے میں بتایا کہ ’میں نے اس کو میخ سے نیچے اتارا اور اس کو سانس دلانے کی کوشش کی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ اس کے بعد میں بھاگا بھاگا صوبائی مسلح پولیس ریزرو کی ڈسپینسری میں پہنچا تاکہ طبی امداد حاصل کرسکوں لیکن وہاں کوئی مناسب آدمی نہ ملا کیونکہ اتوار کی چٹھی تھی۔ تب میں نے ڈی آئی جی پولیس کو گھر ٹیلی فون کر کے آگاہ کیا۔‘

میجر اسحاق دو مرتبہ خود بھی شاہی قلعے میں قید رہ چکے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ انھیں معلوم تھا کہ قلعے کی کوٹھڑیوں میں دیواروں میں میخیں نہیں ہوتیں کیونکہ انھیں کئی دفعہ اپنے کپڑے لٹکانے میں دقت پیش آئی تھی لیکن وہاں کے منتظمین نے یہ کہہ کر معذرت کردی تھی کہ دیواروں میں میخیں ٹھوکنا سختی سے منع ہے۔

تھانہ پرانی انارکلی

تھانہ پرانی انارکلی

ناصر نے دوران تفتیش ساتھیوں کے نام بتائے تھے؟

اسٹنٹ ڈپٹی انسپیکٹر جنرل پولیس سی آئی ڈی نے اپنے حلفیہ بیان میں بتایا کہ حسن ناصر کو ایڈمنسٹریٹر کے احکامات کے تحت قانون تحفظ پاکستان کے تحت گرفتار کیا گیا اور انھیں 13 ستمبر 1960 کو لاہور قلعے میں لایا گیا تاکہ اس سے سی آئی ڈی اور ڈپٹی ڈائریکٹر انٹلی جنس بیورو لاہور کے افسران تحقیقات کرسکیں۔

بیان کے مطابق ناصر سے پوچھ گچھ 24 اکتوبر کو مکمل ہوگئی اور 29 اکتوبر کو ایس پی سی آئی ڈی کراچی کو آگاہ کر دیا گیا تھا کہ ملزم کی ضرورت نہیں رہی اس لیے واپس منگوایا جائے اور 4 نومبر کو اس پیغام کی یاد دہانی کرائی گئی۔

بقول ان کے حسن ناصر غمگین اور اداس رہنے لگے تھے۔ انھوں نے پوچھ گچھ کے دوران اپنے بہت سے دوستوں اور ساتھیوں کے بارے میں اطلاع دے دی تھی جو ان کے ساتھ روپوشی میں مل کر کام کر رہے تھے۔ ان کو ڈر پیدا ہوگیا تھا کہ اب وہ پکڑے جائیں گے اور ممکن ہے کہ یہی وجہ تھی کہ وہ پشیمان بھی تھے۔

ڈپٹی سینٹرل انٹلیجنس افسر اعجاز حسین نے اپنے حلفہ نامے میں بتایا کہ حسن ناصر کراچی کی کمیونسٹ پارٹی کے صوبائی سیکریٹری تھے۔ اس سے وہ تقریبا ایک ماہ تک تفتیش کرتے رہے اور وہ نہایت حساس اور قابل جوان تھے۔ انھوں نے اس وعدے پر کہ ہم اس کے شرکا کو گرفتار نہیں کریں گے، اپنے تمام ساتھیوں کے پتے اور کارروائیاں بتا دیں۔ ان کے بقول حسن ایک بار بیان دیتے دیتے سخت نادم ہوئے کہ انھوں نے پارٹی سے غداری کی ہے۔

ماموں نے لاش لینے سے انکار کر دیا

اسسٹنٹ ڈپٹی انسپیکٹر جنرل پولیس سی آئی ڈی نے اپنے حلفیہ بیان میں بتایا کہ حسن ناصر کی موت کے بارے میں ان کے ماموں مہدی حسن ساکن کراچی کو مطلع کیا گیا تھا۔ انہوں نے لاش حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا بلکہ خواہش کی کہ اسے لاہور میں شیعہ رسومات کے مطابق دفنایا جائے۔ ان کی خواہش کا احترام کیا گیا۔

حسن ناصر کے ماموں ڈاکٹر مہدی حسن کا اجازت نامہ بھی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جس میں انہوں نے اور ان کی بیوی نے تحریری طور پر پولیس کو تدفین کی اجازت دے دی تھی۔

پھندے کا نشان نرخرے کی ہڈی کے نیچے

اسسٹنٹ ڈپٹی انسپیکٹر جنرل پولیس سی آئی ڈی نے اپنے حلفیہ بیان میں بتایا کہ 13 نومبر کو تقریبا 12 بجکر 40 منٹ پر پیغام ملا کہ حسن ناصر نے صبح گیارہ بجے خودکشی کرلی ہے لاش ڈاکٹروں کے حوالے کی گئی۔

انہوں نےڈسٹرکٹ مئجسٹریٹ اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مئجسٹریٹ کے ساتھ رابطہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن دونوں دستیاب نہیں تھے چنانچہ اس کے بعد سٹی مئسجٹریٹ ایم این رضوی سے رابطہ کیا گیا کہ وہ موت کی تحقیقات کرے اس وقت وہ تحقیقات کر رہے ہیں۔

میجر اسحاق لکھتے ہیں کہ لاش کے معائنے کی سٹی مئجسٹریٹ کی رپورٹ کا یہ فقرہ کہ لاش کے گلے میں پھندے کا نشان نرخرے کی ہڈی کے نیچے تھا جو لٹک کرپھانسی لینے کی تردید کر رہا تھا اور گلا گھونٹ جانے کی تائید کر رہا تھا۔

اس کے علاوہ انہوں نے میانی صاحب قبرستان میں جاکر خفیہ طور پر دریافت کیا تھا کہ آیا واقعی حسن ناصر کو وہاں دفن کیا گیاہے لیکن وہاں کے گورکنوں کو ایسی کسی لاش کی خبْر نہیں تھی جسے پولیس کی نگرانی میں دفنایا گیا تھا۔

قبرستان کے گیٹ پر ایک رجسٹر رکھا رہتا ہے میں نے اس کے انچارج کلرک کو پکڑا جو لاہور کارپوریشن کا ملازم تھا اور کوائف کی رجسٹریشن اس کا کام تھا لیکن وسط اکتوبر سے لیکر 26 نومبر تک مجھے حسن ناصر نام کا اندراج نہ ملا نہ ہی اس سے ملتے جلتے عمر، ولدیت، حلیئے وغیرہ کا کوئی اندراج تھا۔ میانی صاحب قبرستان میں عموما سنی عقیدے کے لوگوں کی میتیں دفنائی جاتی ہیں اور شیعہ مسلک کے لوگوں کے اپنے قبرستان ہیں۔

میانی صاحب قبرستان

میانی صاحب قبرستان

حسن ناصر کی گرفتاری میں کوئی ساتھی ملوث تھا؟

حسن ناصر کی پارٹی کے کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی گرفتاری مخبری سے ہوئی، تنویر شیخ لکھتے ہیں کہ کچھ غداروں کی وجہ سے حسن 1960 میں گرفتار کرلیے گئے۔

لندن میں مقیم بئریسٹر صبغت اللہ قادری اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب “بکھری یادیں اور باتیں” میں طالب علمی کے زمانے میں اپنی گرفتاری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انہیں جیل سے سی آئی اے سینٹر لے جاتے تھے وہاں تفتیش کی جاتی تھی، حسن ناصر کے بارے میں معلوم کیا جاتا تھا کہ وہ کہاں ہے۔ یہ بھی سوال ہوتے کہ کون لوگ اس جماعت سے وابستہ ہیں؟ پیغام کہاں سے ملتا ہے؟ فنڈنگ کیسے ہوتی ہے، حسن ناصر کہاں ہے؟

صبغت اللہ قادری کے مطابق وہ سمجھتے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی کے کچھ لوگ حکومت کے ایجنٹ بن گئے تھے۔ حسن ناصر کو کراچی کے علاقے پی ای سی ایچ ایس میں ایک کامریڈ کے گھر سے آتے ہوئے گرفتار کیا گیا اور پھر انہیں لاہور قلعے منتقل کردیا گیا۔

میجر اسحاق اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ حسن ناصر کی گرفتاری سے پہلے نیشنل عوامی پارٹی اور اس سے متعلق تنظیموں کے کچھ کارکن گرفتار کر لئے گئے تھے۔ اس وقت یہ افواہ گرم تھی کہ ان نظر بندوں میں سے ہی کسی نےسی آئی ڈی کے تشدد کے خوف یا تشدد کے نتیجے میں حسن ناصر کا اتا پتا بتا دیا تھا جس کے نتیجے میں اس کی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔

ان میں سے بعض نے اپنی اور دوسروں کی سیاسی کارروایوں کی تمام تر ذمہ داری حسن ناصر کے کندھوں پر ڈال دی تھی جس کی وجہ سے خفیہ پولیس کی نظر میں وہ اتنا بڑا انفلابی بن گیا تھا کہ اسے لاہور قلعے میں نظر بندی اور تشدد کا شرف بخشا گیا۔

ایک چھوٹے قد کی لاش کو حسن قرار دیا گیا

میجر اسحاق محمد کی درخواست پر ہائی کورٹ نے بالاخر قبرکشائی اور دوبارہ پوسٹ مارٹم کا حکم دے دیا، عدالت کو حیدرآباد دکن سے حسن ناصر کی والدہ زہرہ علمبردار حسین کی طرف سے تارموصول ہوا کہ وہ اپنے بیٹے کی لاش لینے کے لئے لاہور آرہی ہیں اس لیے لاش کو ان کی موجودگی میں قبر سے نکالا جائے۔

12 دسمبر 1960 کو میانی صاحب قبرستان میں قبرکشائی کی گئی اور حسن ناصر کی والدہ زہرہ علمبردار نے واضح کردیا کہ یہ ان کے بیٹے کی لاش نہیں۔ ’ہفت روزہ نیا آدم‘ کی خصوصی اشاعت کے لیے 1973 میں دیئے گئے ایک انٹرویو میں حسن ناصر کی والدہ زہرہ علمبردار نے کہا تھا کہ حسن قدرآور لمبا تڑنگا۔ پاکستان والوں نے انہیں ایک چھوٹے قد کی لاش دکھا کر یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ ناصر کی لاش ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں ڈرایا دھمکایا گیا۔ قبرستان میں ڈھاٹے باندھے ہوئے گورکنوں کو وہ اب تک بھول نہیں پائی ہیں لیکن وہ ڈری نہیں۔ انہوں نے لاش کے پاؤں کھول کر دیکھے، ناصر کو بچپن میں ایک چوٹ آئی تھی اور اس کا نشان اس کے پاؤں پر رہ گیا تھا انہیں جو لاش دکھائی گئی اس پر وہ نشان نہیں ملا۔

میجر اسحاق نے 22 نومبر 1960 کو حسن ناصر کی حبس بے جا کی درخواست دائر کی، اس روز حکومت نے دعویٰ کیا کہ 13 نومبر کو حسن نے خودکشی کرلی ہے اور 20 دسمبر کو لاش جب برآمد ہوئی تو والدہ نے اس کو قبول نہیں کیا۔

میجر اسحاق محمد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ میری دلچسپی اب مقدمے میں سرسری تھی اور سارا معاملہ خوفناک اسکینڈل بن گیا تھا اگر اس قوم میں کہیں بھی انصاف کی رمق باقی تھی تو اس معاملے میں تحقیق کرنے کے لیے مئجسٹریٹ کی جگہ اعلیٰ اختیارات کا ٹربیونل بیٹھنا چاہئیے تھا۔ سی آئی ڈی اسٹاف کو معطل کرناچاہیے تھا۔

حسن ناصر کی پراسرار ہلاکت کو 60 سال کا عرصہ گذر چکا ہے، لوگوں کی گمشدگی عقوبت خانوں میں تشدد اور لاشوں کی گمشدگی کی شکایت آج بھی آتی ہیں۔ چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس میں اس وقت بھی کئی لاپتہ افراد کی درخواستیں زیر سماعت ہیں کہ ان کے رشتے دار لاپتہ ہیں۔

اشاعت اول:  Nov 13, 2020 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp