کھول دو۔ پون صدی کا قصہ


ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا، اس کی نبض ٹٹولی اور سراج الدین سے کہا کھڑکی کھول دو۔

سکینہ کے مردہ جسم میں جنبش پیدا ہوئی، بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار کو نیچے سرکا دیا، بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا، زندہ ہے۔ میری بیٹی زندہ ہے۔ ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہو گیا۔

سکینہ کا باپ خوش تھا کہ اس کی بیٹی زندہ ہے مگر کشمور حادثے کا شکار ماں اپنی بیٹی کے بتائے معصوم اشارے کو دیکھ کر چیخ مارتی ہے کیونکہ یہ کھول دو کی ایک ایسی تعبیر تھی جس میں پورے معاشرے کی بے لباسی اور بے حرمتی واضح تھی۔ وہ معصوم تو بالغ بھی نہیں تھی، بے پردہ بھی نہیں تھی، معاشرے کی بھوک سے بے خبر اکیلے محو سفر بھی نہیں تھی۔ پھر کیا ایسا ہوا کہ اس چار سال کی بچی کا ہاتھ ایک ایسا اشارہ کرتا ہے جو وحشت کا شکار ہو نے والوں کے ظلم کو بیان کرنے سے بھی قاصر ہے۔

وہ ماں اور اس کی دل دہلا دینے والی چیخ بھی ساتویں آسمان کے ستونوں کو لرزا تو گئی ہو گی۔ جسے اپنا دکھ یاد بھی نہیں کہ وہ کیسے رزق کی تلاش میں خود مارکیٹ کے ایک بے جان کھلونے کی طرح بیچ دی گئی۔ مجھے بچپن کے دیکھے ایک میلے میں خریدی پلاسٹک کی وہ گڑیا یاد آ گئی جس کے ساتھ ایک ننھی گڑیا بھی اس پلاسٹک کے شاپر میں موجود معصوم آنکھوں سے باہر کی دنیا کو دیکھ رہی ہوتی تھی۔ مگر ہوس زدہ معاشرے میں ایک عورت کے ساتھ اس کی ننھی بچی کہاں جانتی ہو گی وہ ماں کی انگلی تھامے کن منزلوں کی طرف گامزن ہے۔ وہ مامتا کا آنچل سنبھالے خود کو کائنات کی سب سے محفوظ پناہ گاہ میں مقیم سمجھتے ہوئے دنیا کو حیرت سے دیکھتی چل پڑی ہوگی۔ اس کی ماں نے شاید سنہرے دنوں کے خوابوں میں اسے بھی شامل کیا ہو گا جن کی تعبیر کے دھوکے میں وہ بدقسمت کسی تاریک کوٹھڑی میں زندگی کی ایک سنہری کرن کو بھی ترس کئی ہوں گی۔

ماں جس نے اپنی ذات سے جڑی ہزاروں خواہشوں کو سینے میں دبایا ہو گا، شاید ننھی بیٹی کی آنکھوں میں بسے اچھی خوراک، اچھی تعلیم اور اچھے ماحول کے خواب کو نہ جھٹلا سکی ہو گی۔ شاید وہ خود کو اس وقت بھی فراموش کر گئی ہو گئی جب ظالموں نے اس کی بیٹی کو یرغمال بنایا ہو گا۔ اسے تو اب بھی اپنے ساتھ ہو نے والا ظلم کہاں یاد ہو گا لیکن بیٹی کے زخمی جسم اس کے سینے کو کھیتی میں چلتے ہل کے پھاہلے کی طرح چیر دیتے ہوں گے۔ آج اسے اپنے لیے انصاف کے دروازے کھٹکھٹاتے ہوئے اس کی بیٹی کی توتلی زبان میں دہرایا گیا ایک ہی جملہ یاد ہے کہ ”ان انکل کو پھانسی دی جائے“ ۔

بطور ایک فرد کے ہمیں روز ایک نئے خوف کا سامنا ہے۔ کیا خوف بھری، غیر محفوظ زندگی معاشرے کے ہر کمزور طبقے کا مقدر ہوتی ہے۔ جہاں انصاف عام ہو، ہر خاص و عام کے لیے قانون ایک ہو، جہاں ایک چھوٹی شہ سرخی کو دبانے کے لیے اس سے زیادہ خوفناک خبر کو سامنے لایا جائے، جہاں غربت کا خاتمہ اور روزگار کی فراہمی ریاست کہ ذمہ داری ہو وہاں ہوس کا عفریت اس طرح سر عام نہیں ناچتا۔

کسی بھی حادثے کی صورت میں عورت کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ جن کو مقید ہونا چاہیے وہ آزاد اور جن کو آزاد ہو نا چاہیے ان کو پابند کر کے اس معاشرتی بگاڑ کو کبھی سدھارا نہیں جاسکتا

ہماری کمزور اجتماعی یادداشت سے ابھی موٹر وے حادثے کے اثرات محو ہونے کو ہی تھے کہ ایک اور حادثہ۔ پھر ایک اور۔ یوں لگاتار ظلم کی ان گنت داستانیں۔ مگر اب ہمیں ایک ایسی کہا نی بھی دی جائے جس میں ظالم کے عبرت ناک انجام کو گزرتی صدیاں ہمیشہ ایک لرزہ خیز داستان کے طور پر یاد رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).