کھول دو نہیں اب بند کردو


آج ایک اور سکینہ نے ازار بند کھولا۔ بوڑھا سراج الدین کب کا مر چکا اسی لئے خوشی سے چلا کر بیٹی کی زندگی کا اعلان نہ کر سکا مگر جنم جلی ماں کی چیخیں صدیوں کے سناٹے چیر گئیں۔ چیخیں دلدوز چیخیں۔ ایک ماں کا جگر کٹ کٹ کر اس کی زبان پر آیا اور اس نے اس گلے سڑے معاشرے پر قے کر دی۔ ماں۔ جو بوڑھے سراج الدین کی طرح حوصلہ مند نہیں۔ ہو بھی نہیں سکتی۔ کیسے حوصلہ کرے۔ ارے اس کی کوکھ جلتی ہے۔ سنو۔ ریاست مدینہ کی ماؤں کی کوکھ جل رہی ہے۔ جہنم کیا ایسی ماں کی کوکھ سے زیادہ بھڑک سکتی ہے۔ کسی جنت سے کوئی آب رواں لاؤ شیریں دودھ اور شہد میں پھاہے بھگو کر اس کے زخموں پر رکھو۔ مگر ماں کی کوکھ کی آگ نہیں بجھے گی۔

ایک شور ہے ہر طرف۔ قیامت ایک کونے میں لرزاں کھڑی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر ہر طرف چھا کیوں نہیں جاتی مگر ماں کی کوکھ کی قیامت زیادہ طاقتور ہے جو اس قیامت کو خون آلود نظروں سے دیکھ رہی ہے۔

ہجوم ہے۔ شور برپا ہے۔ چیخیں ہیں۔ بند کرو۔ بند کرو۔ بند کرو۔ تہذیب کی کھڑکی بند کرو۔ علم کے دروازے بند کرو۔ معیشت کا چرخا بند کرو۔ کتنی سکینائیں بلی چڑھ چکیں اب یہ ظلم بند کرو۔ یہ جبر بند کرو۔ کہیں دور بستے آسمان کی طرف صرف ایک کھڑکی کھولو جہاں سے خدا ڈائریکٹ اپنی دنیا اور اس میں بستے انسانوں کو دیکھ کر ایک بار سوچے اسی کو سجدہ کرنے کا میں نے حکم دیا تھا۔ کہیں کوئی ایسی کھڑکی کھولو جہاں سے کچھ تو تازہ ہوا آئے جو اس متعفن معاشرے کی خون آلود شلوار کے داغ اڑا دے۔

علیشا خدارا اپنی خون آلود شلوار معاشرے کے منہ پر ایسے مارو کہ بھیڑیوں کے بھٹ کی نسل کشی ہو جائے۔ مائیں مرد پیدا کرنا بند کردیں اور قدرت فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جائے کہ ریاست مدینہ میں صرف مرد پیدا ہوں یا عورتیں اور دنیا نسل انسانی کی کوئی ایسی شکل دیکھے جو کسی ایسے سیارے کی مخلوق معلوم ہو جہاں آکسیجن کی بجائے باد مسموم کسی آدم نما کی پرورش کرتی ہے۔

سکینہ کی طرح علیشا بھی ہموطنوں کی درندگی کا۔ شکار ہوئی۔ مگر یہ سب تو عرصے سے ہو رہا ہے کسی کو کیا فرق پڑا۔ چند روزہ شور اور بس۔ حکومت، حزب اختلاف، فوج، عدالتیں، ادارے کسی کے پاؤں لرزے نہ ہاتھ کانپے۔ کسی کے کانوں میں اپنی علیشاؤں کی چیخیں نہ گونجیں۔ کسی کی ایک رات کی نیند حرام نہ ہوئی کیونکہ ان کے خیال میں ان کی علیشائیں محفوظ قلعوں میں اپنے محافظ رشتوں کے درمیان محفوظ و مامون ہیں۔ مگر اونچی دیواریں جیسے باہر کی آواز اندر نہیں آنے دیتیں اسی طرح اندر کی آواز بھی باہر سنائی نہیں دیتی۔ اونچی اونچی دیواروں میں قلعہ بند علیشائیں اپنے محفوظ محلات میں مہربان لوگوں میں بھی لٹتی ہیں اور ان کے منہ پر خاندان، ناموس اور عزت کے بھاری تالے لگا دیے جاتے ہیں۔

ریاست مدینہ کی علیشاؤ۔ سکینہ بھی تب زندہ تھی مگر اب مر چکی لیکن تم ابھی زندہ ہو۔ تم سب اپنے آزار بند اس مضبوطی سے باندھو کہ تمہاری خون آلود شلوار کو تماشا بنانے والے درندے ایک دوسرے کا زہر آلود خون پی فنا ہو جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).