ابنارمل معاشرے کے شرمناک رویے


ترقی کی منزلوں کو چھونے کے لیے ہمیشہ آگے کی طرف دیکھنا پڑتا ہے نہ کہ پیچھے کی طرف۔ زندگی اور اس سے جڑے ہوئے مسائل اور حقیقتیں جامد و ساکت نہیں ہوتیں بلکہ بہتے ہوئے پانی کے تسلسل کی طرح ہوتی ہیں۔ معاشروں کے ترقی یافتہ ہونے کے سفر کے پیچھے بہت سی کاوشیں اور قربانیاں کارفرما ہوتی ہیں تب کہیں جا کر معاشروں کی تہذیب و تمدن اور سوچ میں وہ بلندیاں پروان چڑھتی ہیں جن پر بہت سی قومیں رشک کرتی ہیں۔ یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ جو معاشرے وقت کے ساتھ ساتھ آگے کی طرف نہیں بڑھتے اور وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کے لیے راہ ہموار نہیں کرتے وہ ہر لحاظ سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔

ہمیشہ وہی معاشرے ترقی کرتے ہیں جن کے سماجی بندوبست میں عورت اور مرد کی تفریق کے بغیر تمام افراد بحیثیت ایک فرد اور انسان ہونے کے برابر کی سطح پر اپنا اپنا کردار آزادانہ طریقے سے ادا کرتے ہیں۔ اگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہو تو معاشروں میں ایک طرح کا عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے اور ایک گھٹن کی سی صورتحال جنم لینے لگتی ہے اور اسی گھٹن اور فرسٹریشن زدہ ماحول کا سامنا آج وطن عزیز کو بھی ہے۔ جنسی فرسٹریشن انتہا کو چھو رہی ہے اور جنسی درندے دندناتے پھر رہے ہیں۔

اس درندگی اور فرسٹریشن کے اسباب جاننے کی بجائے ہم اس درندگی کا شکار ہونے والے معصوموں کے ہی در پے ہیں اور اخلاق سے گرے ہوئے کمنٹ کر کے ان کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک بنک کی ویڈیو لیک ہوئی جس میں ایک جنسی درندہ مردانگی کے زعم میں مبتلا ہو کر ایک خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس ویڈیو کے لیک ہونے کے بعد ہمارے مردانہ سماج کی گٹر زدہ ذہنیت سامنے آنا شروع ہو گئی اور اکثر انگلیاں خاتون پر اٹھنے لگیں اور اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا گیا۔

1۔ عورت نے مزاحمت کر کے اس شخص کے منہ پر تھپڑ کیوں نہیں مارا؟
2۔ اس خاتون کا اس بندے کے ساتھ پہلے سے ہی کوئی چکر تھا؟
3۔ اگر وہ شور مچاتی تو بہت سے لوگ اس کی مدد کو آ جاتے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم نے بیوی، بیٹی اور دوسرے متعلقہ رشتوں کے علاوہ کبھی اسے بطور فرد اور انسان کی حیثیت میں اس کے وجود کو تسلیم کیا ہے؟ ہم نے اس کے وجود کو بطور سیکشوئل ٹوائے سے زیادہ اہمیت ہی نہیں دی اور کوئی بھی جنسی درندہ اس کے وجود کو اپنی جنسی بھوک کو مٹانے کے لیے بھنبھور ڈالتا ہے۔ باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے عورت کو یہ احساس دلایا گیا کہ وہ کمزور ہے اور مرد کے مرہون منت ہے۔ اس قسم کی ذہنیت کو پروان چڑھا کر عورت کی آواز کو دبایا گیا اور یہ ظلم کرنے کے بعد اب یہ کہا جا رہا کہ عورت مزاحمت کیوں نہیں کرتی اور اپنے حق کے لیے آواز کیوں نہیں اٹھاتی۔

یہ بالکل اس طرح سے ہے جس طرح ایک پرندے کے پر کاٹ کر اسے اڑنے پر مجبور کیا جائے کتنے المیہ کی بات ہے کہ عورت کی عزت شلوار تک محدود کر کے اسے غیرت کے نام پر قتل تک کر دیا گیا جبکہ ان مردوں اور جنسی درندوں کا کیا جو اپنی شلوار اور پتلون ہر بے بس عورت کے سامنے اتارنے کے لیے تیار رہتے ہیں مگر وہ پھر بھی غیرت کے نام پر دندناتے رہتے ہیں۔ ان درندوں نے عورتوں کے تعلیمی عزائم تک کو مشکل بنا دیا ہے۔ یونیورسٹیوں میں بچیوں کو مارکس دینے کے نام پر ہراساں کیا جاتا ہے۔

بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے عورتوں اور مردوں کے درمیان اجنبیت کی ایک ایسی دیوار قائم کردی ہے جس کو مسمار کرنے میں شاید دہائیاں لگ جائیں۔ ہم نے انسانوں کے درمیان تفریق کر کے نارمل رشتوں کو بھی ابنارمل بنا دیا ہے۔ رشتوں کو نارمل بنانے کے سفر کا آغاز ہمیں اپنے گھر سے کرنا چاہیے۔ ماں باپ کو چاہیے کہ وہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں میں کوئی تفریق نہ رکھیں اور برابر تعلیم دلوا کر معاشرے کا کارآمد رکن بنائیں۔ جب تک بیٹیوں کی زندگیوں میں باپ اہم کردار ادا نہیں کریں گے اور ان کو اپنے پاؤں پر اعتماد کے ساتھ کھڑا نہیں کریں گے تو یہ ظلم یونہی برقرار رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).