کورونا امریکی جمہوریت اور ہمارے رویے


یہ امریکی تاریخ کے سب سے تہلکہ خیز الیکشن تھے اور یہ بات تو حتمیت کے ساتھ کی جا سکتی ہے کہ یہ امریکی سیاست کا سب سے زیادہ ہنگام خیز دور ہے کہ الیکشن کے کئی دنوں بعد بھی ”وائٹ ہاؤس“ کا مستقبل واضح نہیں ہیں ایک طرف (مجوزہ طور پر الیکٹیڈ) جوبائیڈن ایکsmooth transition کا خواب دیکھ رہے ہیں اور دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک طویل ”قانونی جنگ“ کی دھمکی دی ہے اور وہ بضد ہیں کہ میڈیا اور جو بائیڈن نے مکمل results آ نے سے پہلے ہی خود کو صدر الیکٹ کروا لیا ہے۔

وہ اس بات پر بضد ہیں کہ الیکشن کے رزلٹ ابھی آنے ہیں اور وہ یقیناجیت جائیں گے بہت سارے لوگ، میڈیا ہاؤسز اور انٹر نیشنل opinion maker صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے نالاں ہی رہے ہیں۔ ایک تو وہ ضدی اور ہٹ دھرم ہیں اور دوسرے وہ روایتی سیاستدانوں کی طرح نہیں ہیں۔ جو ا ن کے من میں آیا ٹویٹ کے ذریعے، بغیر کسی لگی لپٹی کے، انہوں نے کہہ دیا ایسے چار سالہ دور میں اہم مراتب پر کئی لوگ آئے اور کئی لوگ گئے۔ کسی بھی صدر کا دوسری بار لیکشن ہارنا اگر ناممکن نہیں تو نادر ضرور ہے۔ بہت کم مثالیں ایسی ہیں۔

ٹرمپ چوتھے صدر ہوں گے جو دوسری بار اپنا الیکشن نہ جیت سکے۔ ایسا کیوں ہوا؟ حالانکہ امریکہ کو سب سے کم نقصان یقیناً ٹرمپ کے زمانے میں پہنچا، اگرچہ اسرائیل کے زیر اثر انہوں نے ایران کے ساتھ نیو کلیئر ڈیل سمیٹ دی۔ لیکن اپنے چار سالہ مدت کے دوران انہوں نے کوئی نئی جنگ شروع نہیں کی شام سے امریکی فوج کا انخلا کیا اور افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی شروعات کی۔ ان سے پہلے کے صدور نے اپنے اپنے صدارتی دورانیہ کے دوران کبھی شام کبھی اعراق اور کبھی افغانستان میں چڑھائی ضرور کی۔

اس طرح سے ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکن اکانومی کو مضبوط کیا اور اپنی خارجہ پالیسی کا رخ روس کی بجائے چین کی طرف کیا تو پھر جب ایک بہت بڑا ووٹ بنک (مڈل کلاس سفید فام) ان کے سا تھ ہو تو انھیں الیکڑول شکست کیوں ہوئی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ کرونا ہے۔ کرونا سے امریکا کو سب سے بھا ری نقصان پہنچا اور ووٹر کی بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کرونا کوصحیح طر ح سے ہینڈل نہیں کیا ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ شکست جس طر ح سے بھی ہوئی لیکن ابھی تک امریکا ایک سیاسی ہیجان میں ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ”ٹویٹس“ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنے وا لے دنوں میں یہ سیاسی ہیجان مزید بڑھے گاجب تک امریکن سپر یم کورٹ فیصلہ نہیں کر تی۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن اپنے آپ کو صدر سمجھ رہے ہیں۔

ادھر پاکستان میں کر و نا پھر سر اٹھا رہا ہے۔ اور یہ با ت تو طے ہے کہ کرونا کا احتیا ط کے سوا کوئی علاج نہیں ہے اور احتیاط کے معا ملے میں ہمارا رویہ انتہائی غیر مناسب ہے۔ ہم پبلک مقامات پر فیس ماسک استعمال کر تے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے سے منا سب دوری۔ دوسری جو انتہائی تشویش ناک با ت ہے وہ یہ ہے کہ اگر لو گو ں میں علامات ظا ہر ہو بھی جائیں تو وہ اس با ت کو ہلکا لیتے ہیں اور ٹیسٹ کروانے کی زحمت نہیں کر تے۔

یقیناً ہم نے کرونا کے سا تھ رہنا ہے۔ جب تک ویکسن دریا فت نہیں ہوتی لیکن اس وقت تک ہم تھوڑی سی احتیا ط کر لیں تو یقیناً ہم ایک بہت بڑی مصیبت سے بچ سکتے ہیں امر یکا میں سیا سی اونٹ جس کروٹ بھی بیٹھے، اگر ہم نے بحیثیت قو م اپنی انفرادی اور اجتما عی زند گی میں احتیا ط کو روایت نہ بنایا تو یقیناً ہم ایک بہت بڑی اذیت میں مبتلا ہونے جا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).