پاکستان میں حقیقی سیاستدانوں کا فقدان کیوں؟



نظر مضمون میں پاکستان کی سیاسی اور سیاستدانوں کے حوالے سے ایک غیر جانبدارانہ تجزیہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے اتفاق یا اختلاف اپکا حق ہے۔ مضمون کو مندرجہ ذیل ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

1۔ قیام پاکستان کے بعد مشرقی اور مغربی پاکستان کی عمومی سیاسی صورتحال۔
2مارشل لائی دور حکومتوں میں سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں پر قدغن۔
3۔ سابقہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور شیخ مجیب کی سیاسی جدوجہد۔
4۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد مغربی پاکستان میں بھٹو صاحب کی سیاست اور ان کا عدالتی قتل۔
5۔ جنرل ضیاءالحق کا دور امریت۔ ان کے سیاسی عزائم اور جمہوری اداروں کی پائمالی۔

6۔ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور حقیقی سیاستدانوں کی نشوونما اور تربیت کے لیے طلبہ یونین اور ٹریڈ یونین کا کردار۔

ازادی کے کچھ عرصہ بعد ہی سے پاکستان سیاسی بحران کا شکار ہو گیا۔ تقسیم کے بعد ملک کے دونوں حصوں میں پر خلوص اور نظریاتی سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد موجود اور متحرک بھی تھی جنہوں نے اذادی کی جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔ مسلم لیگ ابھی اپنی اصلی حالت میں موجود تھی اور اس کے کارکنان میں وہی جذبہ موجود تھا جس کے نتیجے میں ملک وجود میں ایا۔ ملک کی مین اسٹریم پالیٹکس میں مسلم لیگ تو تھی ہی اس کے علاوہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی کئی اور مذہبی سیاسی جماعتیں بھی متحرک ہو گئیں جو بنیادی طور پر تو تحریک پاکستان اور مطالبہ پاکستان کے حق میں نہیں تھیں بلکہ ان جماعتوں نے تو دوران تقسیم ہند کے فارمولے ہی کو مسترد کر دیا تھا۔

ان جماعتوں میں جمیعت علماء ہند۔ مجلس احرار اور جماعت اسلامی قابل ذکر ہیں۔ لیکن یہی جماعتیں پاکستان کے وجود میں آتے ہی اپنے دیرینہ موقف کو چھوڑ کر پاکستان کے سب سے بڑے ”خیر خواہ“ بن گئے اور نوزائیدہ ملک پر اپنی مرضی کا نظام مسلط کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ ستم ظریفی یہ کہ جس قائد کو انہوں نے ”کافر اعظم“ اور جس ملک کو ”ناپاکستان“ کے مکروہ القابات سے نوازا تھا اب وہی افراد اور جماعتیں ”پاکستان کا مطلب کیا لا الاہ اللہ کے نعرے لگانے لگ گئے۔

اس وقت ملک میں لیفٹسٹ پارٹیاں بھی موجود تھیں۔ کمیونسٹ پارٹی میں فیض احمد فیض۔ سجاد ظہیر۔ سید سبط حسن جعفری اور ظفر پوشنی جیسے دانشوروں اور انقلابی رہنما کسانوں اور صنعتی مزدوروں کے مسائل پر اپنی شاعری اور افکار سے نئی صبح کی بات کرتے سنائی دیتے تھے۔ دوسری طرف نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے طاقتور اور زندہ اوازیں اٹھ رہی تھیں اس جماعت میں نظریاتی کارکنان کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو باچا خان کے فلسفہ امن اور سرخ پوش تحریک کے پیروکار تھے وہ بعد خان عبدالولی خان کی قیادت میں سوشلسٹ تحریک کا حصہ بنے رہے۔

نیپ کے سرگردہ رہنما محمود الحق عثمانی۔ حبیب جالب۔ اجمل خٹک اور سابقہ مشرقی پاکستان سے مولانا بھاشانی کے علاوہ سندھ اور بلوچستان سے عوامی سطح سے انقلابی رہنما اپنے نظریات پر قائم رہے انہوں نے جبر و استحصال کے مقابلے میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ایک اور بائیں بازو کی جماعت“ مزدور کسان پارٹی ”بھی اس جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑی رہی۔ ان جماعتوں اور راہنماؤں کے سیاسی خیالات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان پر کبھی بد عنوانیں اور کرپشن کا الزام ان کے مخالفین بھی نہیں لگا سکے البتہ اسٹیبلشمنٹ اس دور میں بھی اج کی طرح ان جماعتوں پر“ غداری اور ملک دشمنی ”کے الزامات لگاتی رہی۔

یہ اور بات ہے کہ یہ الزامات کبھی ثابت نہ ہو سکے۔ سنہ اٹھاون میں ملک میں پہلی مرتبہ فوج کے سپہ سالار ایوب خان نے ائین کو معطل کر کے مارشل لاء نا فذ کر دیا جس کے نتیجے میں سیاسی سرگرمیاں معطل کردی گئیں۔ مشرقی پاکستان میں ایبڈو قوانین Elected Bodies Disqualification Order کے تحت ستر سے زیادہ سیاستدانوں کو سیاسی عمل سے باہر کر دیا گیا جن میں مولانا بھاشانی۔ سہروردی اور شیخ مجیب الرحمان بھی شامل تھے۔ اسی طرح مغربی پاکستان میں جنرل ایوب خان نے ایک کالا قانون“ سیکورٹی اف پاکستان ایکٹ Security of Pakistan Act ”نافذ کر دیا جس کے تحت سیاستدانوں کی زباں بندی کی گئی اور انہیں پابند سلاسل بھی کیا گیا۔

اسی کالے قانون کے تحت سابق وزیر اعظم سہروردی کو غداری کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ جنرل صاحب نے اس وقت کے صدر اسکندر مرزا کو جلا وطن کر کے برطانیہ بھیج دیا گیا جہاں وہ اخری عمر تک ایک ریسٹورنٹ میں منیجر کی جاب کرتے رہے۔ سابق صدر ہوتے ہوئے بھی اسکندر مرزا نے انتہائی عسرت میں زندگی بسر کی لیکن ان پر کبھی کسی کرپشن یا مالی بے ظابطتگی کا الزام نہیں لگ سکا۔ دور ایوبی تک سیاست اور سیاستداں بڑی حد تک کرپشن کی لعنت سے دور تھے۔

بیشتر سیاستداں عوامی سطح ہی سے اٹھ کر سامنے ائے تھے۔ مغربی پاکستان کے مقابلے میں سابقہ مشرقی پاکستان میں سیاسی شعور کہیں زیادہ تھا اسی طرح وہاں سے ابھرنے والی سیاسی قیادت عوام سے زیادہ قریب تھی اور انہیں عوامی مسائل کا ادراک بھی کہیں زیادہ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب مشرقی پاکستان سے محرومیت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف اوازیں اٹھنا شروع ہو چکی تھیں۔ وہاں جماعت اسلامی اور اس کی طلبہ تنظیم“ اسلامی چھاترو شنگھا ”ایک بڑی قوت تھی جو عوام اور تعلیمی اداروں میں یکساں مقبول تھی اسے اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور حمایت بھی حاصل تھی۔

دوسری جماعتوں میں مسلم لیگ تھی تو ضرور لیکن عوامی سطح پر اسے کوئی خاص پذیرائی حاصل نہ تھی۔ مولانا بھاشانی کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی چینی کمیونسٹ فلسفہ کا پرچار کر کے کسی حد تک معاشرے کے پسماندہ طبقے میں کچھ اثر تو رکھتی تھی لیکن کسی بڑی تحریک کو چلانے کی اہل نہیں تھی جبکہ قوم پرست جماعت عوامی لیگ شیخ مجیب الرحمان کی قیادت میں مشرقی پاکستان کی سب سے توانا اواز تھی۔ شیخ مجیب نے اپنے جوشیلے نعروں سے عوام میں زبردست مقبولیت حاصل کی۔

انہوں نے مشرقی پاکستان کی محرومیت اور مغربی پاکستان کی غاصبانہ پالیسیوں کو بڑے موثر انداز میں جلسے جلوسوں میں اجاگر کیں ان کی تقریروں نے بنگالی عوام میں ایک اگ لگادی۔ مجیب کے پیش کردہ چھے نکات کو بنگالیوں نے مغربی پاکستان کے استحصال سے نکلنے کا واحد راستہ جانا اور مجیب کے سر پر“ بنگلہ بوندھو ”کا تاج سجادیا۔ عوامی لیگ نے چھ نکات کو بنیاد بنا کر سنہ ستر کے الیکشن میں حصہ لیا اور مشرقی پاکستان میں اپنے تمام سیاسی حریفوں کو چاروں خانے چت کر دیا عوامی لیگ کی تحریک نے ایک انارکی کی صورتحال پیدا کردی جسے جنرل یحیی کی فوجی حکومت ہینڈل نہ کرسکی بالآخر مارچ سنہ اکہتر میں ملٹری ایکشن“ Operation Search Light ”شروع کر دیا گیا جو سقوط مشرقی پاکستان پر منتج ہوا۔

جنوبی ایشیا میں ایک خون اشام تاریخ رقم ہوئی نیا ملک بنگلہ دیش وجود میں آیا اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے نوے ہزار فوجی بھارت کے جنگی قیدی بنے جو مسلمانوں کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ دوسری طرف مغربی پاکستان میں بھٹو صاحب ایوب خان کی کابینہ سے نکل گئے اور انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد ڈالی۔ بھٹو صاحب یوں تو جاگیردارانہ پس منظر رکھتے تھے لیکن وہ اپنی اعلی تعلیم۔ مطالعہ اور سوشلسٹ سوچ کے باعث ایک انقلابی رہنما کی حیثیت سے سامنے ائے۔

ان کی خوش بختی کہ انہیں بہت ہی روشن خیال اور نظریاتی کارکن بھی میسر آئے۔ بھٹو صاحب نے بھی مجیب کی طرح اپنی پرجوش تقریروں سے مغربی پاکستان کے طول و عرض میں اگ لگادی۔ سوشلسٹ اکانومی کی بات کی اور“ روٹی کپڑا اور مکان ”کے نعروں سے پسی ہوئی عوام کو امید اور ایک نئی سوج عطا کی اور اگلے الیکشن میں پیپلز پارٹی مغربی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئے۔ بھٹو صاحب زبردست سیاسی ذہن کے مالک تھے وہ تقریر اور مذاکرات کے ذریعے اپنے مخالف کو زیر کرلینے کا فن بھی جانتے تھے۔

بھارت میں قید پاکستانی فوجیوں کی وطن واپسی اور بھارت کے قبضے سے پاکستانی علاقے واپس لے لینا بھٹو صاحب کی سیاسی بصیرت کی مثال ہیں انہوں نے ایک شکست خوردہ قوم کو دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ دیا لیکن شاید وہ مفاد پرستوں میں گھر گئے اور اپنے نظریاتی ساتھیوں کو کھوتے چلے گئے۔ بھٹو بالاخراسٹیبلشمنٹ کی سازش کا شکار ہوئے اور انہیں ایک متنازعہ عدالتی فیصلے کے ذریعہ عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ انے والی تاریخ لکھے گی کہ کس طرح ایک امر کے تاریک اور سازشی ذہن نے ایک انتہائی روشن خیال اور زیرک سیاستدان کو اپنے جبر کانشانہ بنایا۔

بھٹو صاحب کے ساتھی بھی عمومی طور پر طلبا تنظیموں اور مزدور یونین سے ہی سامنے ائے تھے۔ پاکستان کی سیاست کو اس نرسری سے نوجوان اور متوسط طبقہ کی عوامی لیڈر شپ ملی جن میں معراج محمد خان، فتحیاب علی خان۔ علی مختار رضوی۔ طارق علی۔ ملک معراج خالد، رشید حسین، حسن ناصر۔ جاوید ہاشمی۔ حنیف رامے۔ جہانگیر بدر۔ جام ساقی۔ منور حسن خان وغیرہ اہم نام ہیں۔ بھٹو صاحب کی حکومت گرانے کے لیے اداروں نے دائیں بازو پر مشتمل جماعتوں کے اتحاد ”پی این اے PNA“ تحریک کو متحرک کیا اور ملک میں ایک انارکی کی صورتحال پیدکردی گئی جس کو جواز بنا کر جنرل ضیا الحق نے بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور پاکستان پر ایک اور فوجی آمریت مسلط کردی گئی۔

جنرل ضیاء نے نوے دن میں الیکشن کرانے کا وعدہ کیا لیکن ان کے جبر کا دور بڑھتا چلا گیا۔ ان کے نزدیک آئین پاکستان کی حیثیت کاغذ کے ایک چیتھڑے سے زیادہ کچھ نہ تھی اور نہ ہی انہیں جمہوریت یا جمہوری اداروں سے کوئی دلچسپی تھی ان کا گیارہ سالہ منافقانہ دور حکومت ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے جس میں شخصی آزادی اور جمہوری رویوں کو بری طرح پامال کیا گیا۔ جنرل صاحب نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے مذہب کو استعمال کیا اور اس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے علماء کی ایک بڑی تعداد کو سیاست میں داخل کر کے پاکستان کو مسلکی منافرت اور تشدد کی راہ پر لگادیا۔

افغانستان میں روسی مداخلت کی آڑ میں امریکی ڈالرز کے عوض ملک کے طول و عرض میں مجاہد فیکٹری وجود میں آ گئیں اور دھڑا دھڑ مجاہد تیار کئیے جانے لگے اور مذہبی انتہا پسندی اپنے عروج پر پہنچ گئی جس سے آج تک نکلا نہیں جا سکا۔ آمریت کے اسی دور میں سیاستدانوں کی نرسری طلبہ تنظیموں اور ٹریڈ یونین پر بھی شب خون مارا گیا اور ہر قسم کی یونینز پر پابندی لگادی جس کے بعد جینئیون لیڈر شپ کی ترسیل بند ہو گئی۔ عوام کا گلا گھونٹ کر ہر قسم کے اجثجاج اور مخالفت کا راستہ مسدود کر دیا گیا۔

صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو سر عام کوڑے لگوائے گئے۔ جنرل ضیاء کے دور میں متبادل کے طور پر ملک میں مصنوعی قیادت سامنے لائی گئی جو اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ۔ نا اہل انتہائی بودے اور شعور سے عاری تھے۔ ان سیاستدانوں کی پنیری فوجی بیرکوں میں لگائی جہاں ایک مخصوص ذہنیت کے نام نہاد سیاستداں کاشت کئیے گئے جن کو عوامی مسائل اور عام آدمی کی مشکلات کا کوئی ادراک ہی نہیں تھا۔ یہ اتنا ہی بولتے جتنا کہا جاتا۔ یہ نابغے ٹی وی پر آ کر مصنوعی لڑائی لڑتے ہیں کیمرہ آف ہونے کے بعد ساتھ گالف کھیلتے اور اپنے اپنے کتوں کی نسل کی باتیں کرتے ہیں۔

اکثر وہسکی کے گلاس بھی ٹکراتے اور عوام کی بے حسی پر ہنستے بھی ہوں گے ۔ قوم کے غم میں گھلے جا رہے ان مسخروں کا مفاد ایک ہے یہ سب ایک دوسرے کو کور کرتے ہیں دراصل یہ ایک طبقاتی کشمکش ہے جس میں اشرافیہ۔ اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی رہنما ایک طرف اور پسے ہوئے عوام دوسری طرف ہیں جن کا یہ سب مل کر استحصال کر رہے۔ بدقسمتی یہ کہ ضیا الحق کے بعد انے والے فوجی اور سویلین حکمرانوں کو بھی شاید یہی موڈیول پسند آیا اور کسی نے بھی صحتمند سیاسی نشو ونما کے لیے طلبا تنظیموں اور ٹریڈ یونینز پر سے پابندی نہیں اٹھائی جو اب تک جاری ہے۔

میرا ماننا ہے وطن عزیز میں جبتک حقیقی سیاستداں جن کو قومی مسائل کا ادراک اور عوامی حمایت حاصل نہ ہو اس وقت تک بہتری کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ جمہوری اداروں کا تقدس۔ پالیمنٹ اور ائین کی بالا دستی اور مسلسل جمہوری عمل ہی قوموں کی ترقی کا سبب بنتی ہیں۔ وقت پر الیکشن کے عمل سے خود بخود کرپٹ سیاستداں فلٹر ہو کر سسٹم سے باہر ہوسکتے ہیں اور نئی عوامی قیادت سامنے ا سکتی ہے اور اس کے لیے طلباء اور مزدور یونینز کو بحال اور فعال کیا جانا اور جمہوری اداروں کی نشو ونما ضروری ہے۔ آپ مجھے نرگسیت کا شکار اور مایوس شخص کہ سکتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہمیں تسلیم کرنا ہی ہوگی۔ اج نہیں تو انے والا کل اس صداقت کی ضرور گواہی دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).