گلگت بلتستان الیکشن: موسیقی، ترانے اور تقریری زبان


جلسے، جلوس، کارنر میٹنگز اور ریلیوں کو انتخابی سیاست کی جان سمجھا جاتا ہے۔ نوے کی دہائی کے بعد تو اس میں ترانے اور موسیقی کا تڑکا بھی لگایا گیا تاکہ عوام کو اور زیادہ راغب کیا جاسکے۔ ملکی سطح پر سنا تھا کہ سیاسی جلسوں میں مجلس احرار کے شورش کاشمیری اور بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو کی تقریریں سامعین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا کرتی تھیں۔ خصوصاً بھٹو صاحب کا عوامی انداز خطاب جلسے میں موجود افراد کو جذباتی طور پر اچھلنے پر مجبور کر دیتا تھا۔

پھر آمریت کا دور آیا اور صرف نمائشی اسلام کا لبادہ اوڑھے جنرل ضیا الحق نے ٹی وی سے لے کر فلم انڈسٹری تک کو برقعہ پہنایا تاکہ مذہبی حلقوں میں اپنی واہ واہ ہوں اور اقتدار کو طول ملے۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف آئے ان کی تقریروں کے تو ہم خود شاہد ہیں، اول اول بے نظیر بھٹو کی اردو کمزور تھی اس لئے اپنا موقف جامع انداز میں بیان کرنا مشکل ہو رہا تھا، انگلش میڈیم میں ابتدائی تعلیم اور پھر آکسفورڈ یونیورسٹی کی پڑھائی اردو بولنے میں مخل تھی۔ لیکن بعد ازاں انہوں نے لب و لہجہ میں گرفت حاصل کر لیا اور جلسوں میں گھنٹوں خطاب کر لیتی تھی۔ نواز شریف چونکہ پنجاب سے ہیں اور تعلیم بھی ملک میں ہی حاصل کی ہے لہذا اردو بولنا مشکل نہیں تھا مگر تقریروں میں کبھی عوامی انداز در نہیں آیا۔

پھر عمران خان آئے انھوں نے بھی ایچی سن کالج اور پھر آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم پائی ہے۔ زندگی کا بیشتر حصہ کرکٹ کھیلنے میں گزارا اور پھر سیاست میں آئے۔ ان کا لب و لہجہ اور تقریر کا انداز سادہ مگر ادبی چاشنی اور عوامی تاثیر سے عاری ہے۔ مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو ابھی سیاسی میدان میں نووارد ہیں اور کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ اپنے اپنے سیاسی ورثے کو آگے بڑھائیں۔

جہاں تک گلگت بلتستان کے 15 نومبر کو ہونے والے الیکشن کے سلسلے میں کیے گئے جلسوں اور ریلیوں کا جائزہ لیا جائے تو ایک بڑی تبدیلی محسوس ہوئی۔ گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع کی صورتحال جانے کیسی رہی لیکن بلتستان ریجن میں اس دفعہ انتخابی ماحول کچھ جدا دکھائی دیا۔ امیدواروں نے نہ جانے کن کن شاعروں کی خدمات حاصل کر لی ہیں کہ ہر امیدوار کے لئے بلتی اور اردو میں ترانے لکھے گئے ہیں اور فلمی دھنوں پر ریکارڈ ہوئے ہیں۔

سیاسی جماعتیں کو تو چھوڑیں مذہبی جماعتیں بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہیں اور ان کی حلال موسیقی سے بھی عوام لطف اندوز ہو رہی ہے۔ اب جدھر دیکھو سکردو کے گلی کوچوں اور انتخابی دفتروں میں صبح سے شام تک موسیقی کی جھنکار چھلک رہی ہے۔ ان گنہگار آنکھوں نے خود دیکھا کہ سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے کئی کلپ میں سٹیج پر علمائے کرام براجمان ہیں اور لوڈ اسپیکروں میں اونچی آواز میں نغمے گونج رہے ہیں اور نیچے شرکا مست انداز میں رقص فرما رہے ہیں۔

ایک بڑا طبقہ موسیقی کو روح کی غذا سمجھتا ہے اور برصغیر پاک و ہند میں بڑے بڑے موسیقار پیدا ہوئے جن کے بنائی گئی دھنیں داد و تحسین حاصل کر گئیں بلکہ تان سین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایسے راگ الاپتا کہ بارش برس جاتی تھی۔ دوسری جانب مذہبی حلقوں میں موسیقی کبھی بھی پسندیدہ نہیں رہی اور اس کی تکذیب کی جاتی ہے۔ تاہم مختلف فقہا اور سکول آف تھاٹ کا موسیقی کے بارے میں اختلاف رائے موجود ہے۔ صوفیا کے ہاں تو سماع اور وجد کی کیفیت کے لئے موسیقی کا بڑا عمل دخل ہے۔

بات کہیں اور نکل گئی ہم ذکر کر رہے تھے گلگت بلتستان کے الیکشن میں ترانے، موسیقی اور تقریری زبان کیسی رہی۔ بلتستان کی شاعری جہاں معنویت سے پر اور ادبی اسلوب لئے ہوئی ہے وہیں موسیقی بھی کمال کی ہے مگر معاشرتی رویوں اور پذیرائی نہ ہونے سے بڑی تیزی سے رو بہ زوال ہے۔ ایسے میں کیا یہ معاشرہ صرف انتخابی موسم میں ہی صرف موسیقی کا دلدادہ رہے گا یا آگے بھی اس مٹی سے پھوٹنے والی اصلی موسیقی کو برداشت یا جگہ دے پائے گا؟

جہاں تک انتخابی سیاست اور تقریروں کا معاملہ ہے تو اس ضمن میں وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور نے گلگت بلتستان میں ایک اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔ موصوف پہلے ہی الکحل کی بوتلوں میں ”شہد“ رکھ کر استعمال کے حوالے سے معروف ہیں۔ انھوں نے اپنے مخالف جماعتوں کے رہنماؤں کے بارے میں جو گفتگو کی اسے سنجیدہ حلقوں نے سخت ناپسند کر دیا۔ ان کی غیر سنجیدہ باتوں اور لب و لہجہ کو ملکی سطح کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے نمایاں شائع و نشر کیا۔ گلگت بلتستان گو دور افتادہ اور پسماندہ ضرور ہے مگر مہمان نوازی اور اخلاقی اقدار کے حوالے سے معروف عام ہے۔ ایسے میں صرف سیاست اور چند سیٹوں کی خاطر گلگت بلتستان کے بے داغ چہرے پر طنز و طعن کی سیاہی نہ جانے ہمیں کتنا داغ دار کرے گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).