” البیان“ ترجمہ و شرح قرآن پر ایک نظر


بعثت نبئی آخرالزماں ﷺ کا سب سے بڑا اور زندہ جاوید معجزہ قرآن مجید ہے۔ آج بھی تاریخ کے دامن میں صفت لاریب سے متصف واحد کتاب ہے۔ عالم انسانیت کے لیے صراط مستقیم کا راز قرآن حکیم میں ہی مضمر ہے۔ یہی کتاب قوموں کے عروج و زوال کا معیار ہے۔ اسی لیے اہل دین و دانش قرآن مجید کو انسان کی اول و آخر ضرورت قرار دیتے ہیں۔ اس کے بغیر نہ مادی زندگی کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں اور نہ ہی روحانی زندگی کی حقیقی نشو ونما اور ارتقاء ممکن ہے۔

انسان کے کائناتی معنوں میں انسان بن کر رہنے، متوازن انسانی کردار ادا کرنے، دنیاوی کامرانیوں اور اخروی فلاح کا انحصار اسی آفاقی کلام ربانی پر ہے۔ مسلمان کا تصور حیات قرآن کے بغیر بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ قرآن فہمی ہی حقیقت میں اسلام فہمی ہے۔ اسی تناظر میں میں قرآن حکیم سے میری دلچسپی میری بساط سے بڑھ کر ہے اور میں اس نور ہدایت سے فیض یاب ہونے کے لیے اس کتاب کے مختلف تراجم اور تفاسیر کو دینی یقین، علمی تجسس اور منطقی فہم کے ساتھ دیکھتا رہتا ہوں اور استفادے کی مقدور بھر سعی کرتا ہوں۔ اسی جستجو کی رو میں میں ترجمہ و شرح قرآن ”البیان“ پر طائرانہ نگاہ ڈالی ہے۔

فہم قرآن کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اس کے لیے سعی بلیغ سے کام لیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ قرآن اور عملی قرآن یعنی حضور اکرم ﷺ کی حیات طیبہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ اس حوالے سے فراہی مکتب فکر کے علماء کا اپنا ایک خاص نقطعہ نظر ہے اور بڑا مدلل ہے۔ اسی فکر کے حامل مترجم کا ایک ترجمہ قرآن ادارۂ ”المورد“ کی جانب سے شائع ہوا جو عصر حاضر کے نامور عالم دین اور نسل نو میں مقبول دینی دانشور جناب جاوید احمد غآمدی کا پانچ جلدوں میں کیا جانے والا اردو ترجمہ قرآن ”البیان“ ہے۔

مختصر حواشی نے اس کی اہمیت اور تفہیم کو دوچند کر دیا ہے۔ جاوید احمد غامدی 1980 ء کی دہائی سے دینی علوم پر علمی و تحقیقی کام کر رہے ہیں۔ وہ روایتی فکر سے ہٹ کر تدبر و تفکر کے قائل ہیں۔ ان کا دینی شعور ان کے وسیع مطالعہ، تاریخ و انسانیت کے فہم اور مستقبل بین سوچ کا نمائندہ ہے۔ ہمارے روایتی مذہبی حلقوں میں وہ سخت تنقید کا نشانہ بنتے ہیں لیکن اکثر جدید پڑھے لکھے اور روشن خیال مسلمانوں کے پسندیدہ دینی سکالر ہیں۔

” البیان“ کے دیباچے میں ہی مترجم جاوید غامدی نے واضح کر دیا ہے کہ انہوں نے اسے نظم قرآن کی رعایت سے اردو زبان میں منتقل کیا ہے۔ تراجم کی تاریخ میں یہ پہلا ترجمۂ قرآن ہے کہ اس میں قرآن کا نظم اس کے ترجمے ہی سے واضح ہو جاتا ہے۔ ترجمے کے حواشی زیادہ تر ان کے استاذ امام امین احسن اصلاحی کی تفسیر ”تدبرقرآن“ کا خلاصہ ہیں۔ ”البیان“ کا مطالعہ بڑی آسانی سے عیاں کرتا ہے کہ نظم قرآن نفس مضمون پر کس طرح اثرانداز ہوتا ہے۔

یہ ترجمہ نظم قرآن کی روشنی میں قرآن حکیم کا مربوط و مسلسل ترجمہ ہے۔ بلاشبہ یہ اپنی انفرادیت کا حامل بھی ہے تاہم یہ غامدی صاحب کے ذاتی تدبر کے ساتھ ساتھ علامہ حمیدالدین فراہی کے تفسیری اصولوں کی روشنی میں مولانا امین احسن اصلاحی کے تفسیری نوٹس کی تلخیص ہے۔ عمومی اور روایتی اصول ہائے تفسیر کے برعکس فکر فراہی کا زور رہا ہے کہ قرآن مجید کو اس کی زبان اور سیاق و سباق کی روشنی میں سمجھا جائے۔ اس مکتب فکر کا خیال ہے کہ قرآن مجید ایک منظم و مربوط کلام ہے اور اس کا نظم ہی فہم قرآن کی بنیادی کلید ہے۔

اس تناظر میں یہ پہلو دلچسپ ہے کہ کیا وجہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے قرآن مجید کو اس کی نزولی ترتیب کی بجائے الگ سے ایک خاص ترتیب سے مرتب کروایا اور اس ترتیب کی خلاف ورزی کی اجازت قطعاً نہیں دی گئی۔ اگر کتابت میں اس ترتیب کا ہونا لازم ہے تو فہم قرآن میں اس کا اہتمام بھی بہت ضروری ہے۔ اگر قرآن کو شان نزول سے ہی سمجھنا اہم ہوتا تو قرآن کو ترتیب نزول سے ہی مرتب کروایا جاتا۔ یہ بات واضح کرتی ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے اس میں موجود نظم ہی درست طریقہ ہو سکتا ہے۔

البیان میں جاوید احمد غامدی نے محذوفات کو کھول کر رقم کیا ہے۔ اس خصوصیت سے ترجمہ ہی سے قرآن کو سمجھنے میں بہت آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔ موثر و عام فہم اور زوردار زبان میں ترجمہ کے لیے مترجم کو بیک وقت اپنی زبان اور قرآن کی زبان پر پورا پورا عبور حاصل ہونا لازم ہے۔ البیان کی ورق گردانی سے غامدی صاحب کی علمیت و ادبیت سند بن کر سامنے آتی ہے۔

” تفہیم القرآن“ کے مصنف ابو الاعلیٰ سید مودودی نے قرآن کا موضوع انسان کو قرار دیا تھا لیکن فکر فراہی کے حاملین نے قرآن مجید کو رسول اللھﷺ کی سرگذشت انذار قرار دیا ہے جس کے نتائج و اسباق انسانوں کے لیے ہدایت کا سامان ہیں۔ یہ انداز فکر نظم قرآن کو سمجھنے اور بیان کرنے میں بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اپنے منفرد انداز و بیان کی وجہ سے عیاں ہوتا ہے کہ قرآن ایک مربوط، اور غیر محتمل، قطعی الدلالہ کلام ہے۔

” البیان“ میں جاوید احمد غامدی کی زبان و بیان اور ابلاغ بڑا واضح، رواں اور منظم ہے۔ اس میں آیات کا ربط نمایاں کیا گیا ہے اس سے پڑھنے والے کے لیے تسلسل کا فہم آسان ہو جاتا ہے۔ اس سے سارا قرآن بھی ایک وحدت بن کر سامنے آ جاتا ہے، یہی حقیقی پیغام قرآن ہے۔

یہ اسلوب قرآن فہمی کے نئے در وا کرتا ہے۔

یہ ترجمہ میرے جیسے عام قاری کو بڑی حد تک تفسیر سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ زمانہ نزول سے اب تک کوئی عہد ایسا نہیں گزرا جو ضرورت و تفہیم و تفاسیر سے خالی ہو۔ جناب جاوید احمد غامدی نے عام آدمی کے لیے یہ ترجمہ کر کے وقت کی بڑی ضرورت کو پورا کیا ہے۔ وہ اس کار خیر پر لائق تحسین ہیں اور یہ تحسین تب ہی ممکن ہو سکتی ہے جب آپ خود اس ترجمے سے لطف اندوز ہوں گے۔ مجھے روح قرآن سے آشنائی کے لیے یہ اہم ترجمہ و شرح قرآن پڑھنے کا موقع ملا۔ قاری اسے آسانی سے سوچ سوچ کر پڑھے تو فہم و مزہ دوبالا ہو جاتا۔

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).