جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی


برصغیر پاک و ہند کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس خطے میں زراعت کی بنیاد انسان کی آباد کاری کے ساتھ ہی پڑ گئی تھی۔ جس کی بدولت یہاں پر بسنے والے افراد کی زندگیوں میں خوشحالی آنا شروع ہو گئی اور بعد ازاں برصغیر کو سونے کی چڑیا بھی کہا جانے لگا۔

اس خطے کی خوشحالی کو دیکھ کر بیرونی حملہ آوروں نے بھی یہاں کا رخ کیا اور یہاں پر بسنے والے کسانوں اور ہنرمندوں کو لوٹا اور ان کے آقا بن بیٹھے۔

آج بھی اس خطے میں بسنے والے افراد کی ایک کثیر تعداد شعبہ زراعت سے منسلک ہے۔

پاکستان کی تقریباً 60 فیصد آبادی اس شعبے سے وابستہ ہے اور یہ ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہمیشہ سوتیلوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ وہ کسان جو زمین کو اپنی ماں کا درجہ دیتے ہیں اور دن رات اپنا خون پسینہ ایک کر کے دوسروں کا پیٹ پالنے کے لیے مشقت کرتے ہیں۔ ان کو خود دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہوتی۔ کبھی کوئی با اثر جاگیردار تو کبھی کوئی دولت مند کارخانہ دار اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے ان کے حق پر ڈاکہ ڈالتا ہے اور جب وہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں تو ان کو جبر و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

چند روز قبل لاہور میں پاکستان کسان اتحاد اور کسان رابطہ کمیٹی نے اپنے مطالبات کے لیے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں کہا گیا کہ گندم کی امدادی قیمت دو ہزار روپے فی من اور گنے کی قیمت تین سو روپے فی من کی جائے، تاکہ کسان اپنے اخراجات پورے کر سکیں۔ مگر ان کے مطالبات ماننے کی بجائے ان پر تشدد کیا گیا جس کے نتیجے میں کسان اتحاد ضلع وہاڑی کے فنانس سیکریٹری ملک اشفاق لنگڑیال ہلاک اور کئی کسان زخمی ہو گئے۔

مرحوم ملک اشفاق جب ارباب اقتدار کے سامنے اپنے مطالبات پیش کرنے کے لیے گھر سے روانہ ہونے لگے تو اپنی اکلوتی بیٹی سے وعدہ کیا کہ واپسی پر تمہارے لیے تحائف لے کر آؤں گا۔ مگر اس معصوم کو کیا خبر تھی کہ اس کے والد کو ریاستی جبر کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا جائے گا اور اس کو تحائف کی بجائے والد کی لاش ملے گی۔

وہ یتیم بیٹی اب کہاں جا کر عدل کی زنجیر ہلائے؟ انصاف کے لئے کس عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے؟ یا پھر قیامت کے دن کا انتظار کرے؟

اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ کسی بھی جمہوری ریاست میں اپنے حقوق کے تحفظ اور حصول کے لئے منظم ہو کر مطالبات پیش کرنا جمہوریت کا حصہ سمجھا جاتا ہے اور اس پر حکومت کو کسی کی جان لینے کا قطعاً اختیار نہیں ہے۔

کسی ملک کی معیشت میں کسان اور مزدور بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے دست ہنر سے ہی بنجر زمینیں آباد ہوتی ہیں۔ اسی دست ہنر کی بدولت ہی اقتدار کے ایوانوں میں کرسیاں سجی ہوئی ہیں۔ ساحر لدھیانوی نے شاید اسی لیے کہا تھا کہ

ہم نے ہر دور میں تذلیل سہی ہے لیکن
ہم نے ہر دور کے چہرے کو ضیا بخشی ہے
ہم نے ہر دور میں محنت کے ستم جھیلے ہیں
ہم نے ہر دور کے ہاتھوں کو حنا بخشی ہے

ہمیں چہروں کو ضیا اور ہاتھوں کو حنا بخشنے والوں کو انتقام اور تشدد کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔

یہ بات بھی قابل تفتیش ہے کہ پاکستان کی حکومت روس اور یوکرائن سے دو ہزار پانچ سو روپے فی من گندم تو خرید سکتی ہے لیکن اپنے ملک کے کسانوں کے لئے گندم کی امدادی قیمت دو ہزار روپے مقرر نہیں کر سکتی۔

ناروے یورپ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کا بیشتر رقبہ سمندر، جنگلات اور پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ اس کی تقریباً تین فیصد زمین قابل کاشت ہے۔ یہاں کے کسان اس زمین سے اپنی نصف آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ جس کی چند اہم وجوہات درج کر دیتا ہوں۔

حکومت نے کسانوں کے لیے مالی امداد اور معاوضے کی مختلف اسکیمیں متعارف کروائی ہوئی ہیں۔ جن کے تحت کسانوں کو مختلف مراعات اور سہولیات دی جاتی ہیں۔

ناروے کے قانون کے مطابق زرعی زمین کو تقسیم نہیں کیا جاتا۔
ہر صورت میں کسانوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے۔
جدید طریقہ کاشت اپنایا جاتا ہے۔

یہاں ہر سال زراعت کے شعبہ میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے کسانوں کو حکومت کی طرف سے انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ تاکہ اس شعبہ میں لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

اس کے برعکس پاکستان جو ایک زرعی ملک ہے۔ اس میں زراعت کے شعبے میں حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت کو اس شعبے کی اہمیت اور افادیت کو سمجھنا چاہیے اور اس میں مندرجہ ذیل اقدامات فوری طور پر کرنے چاہئیں تاکہ فی ایکڑ پیداوار کو بڑھایا جا سکے۔ جس سے پاکستان اور کسان دونوں خوشحال ہو سکیں۔

اجناس کی قیمتیں کسانوں کے ساتھ مشاورت سے طے کی جائیں۔
زرعی ریسرچ سینٹرز کو فعال بنایا جائے۔
جدید طریقہ کاشت اختیار کرنے کے لیے سہولیات فراہم کی جائیں۔
زرعی آلات اور مشینری پر ٹیکس ختم کیا جائے۔
مارکیٹ میں جعلی کھاد اور جعلی ادویات کا سدباب کیا جائے۔
اچھا بیج، کھاد اور زرعی ادویات مناسب قیمت پر مہیا کی جائیں۔
آب پاشی کے نظام کو فعال بنایا جائے۔
بجلی اور ڈیزل کم قیمت پر فراہم کیا جائے۔
جاگیرداروں اور کارخانہ داروں کی اجارہ داری ختم کیا جائے۔
کسانوں کے حقوق کو تحفظ دیا جائے اور ان کو معاشرے میں ان کا جائز مقام دیا جائے۔

اگر اب بھی حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور فوری اقدامات کرنے سے گریز کیا تو ممکن ہے کہ کسانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور خوشۂ گندم کے ساتھ ساتھ نہ جانے کیا کچھ خاکستر ہو جائے۔

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو (علامہ اقبال)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).