انڈیا، چین سرحدی تنازع: کیا اروناچل کے قریب چین کا ریلوے منصوبہ انڈیا کے لیے باعث تشویش ہے؟


چینی صدر شی جن پنگ نے حال ہی میں اپنے اہلکاروں سے کہا ہے کہ وہ سیچوان تبت ریلوے پراجیکٹ کو جلد از جلد مکمل کریں۔ انھوں نے اس منصوبے کی یان لنجھی ریلوے لائن کو مکمل کرنے پر زور دیا۔

یان لنجھی ریلوے لائن چین کے صوبہ سیچوان کو تبت کے لنجھی علاقے سے جوڑ دے گی جو اروناچل پردیش کے ساتھ انڈیا کی سرحد کے کافی قریب ہے۔

شی جن پنگ کا کہنا ہے کہ یہ ریلوے لائن سرحدی علاقوں میں استحکام کے لیے بہت اہم ہے۔ چینی سرکاری میڈیا گلوبل ٹائمز کے مطابق اس پورے منصوبے کی لاگت 47.8 ارب ڈالر ہے۔

اس ریلوے لائن سے تبت کے دارالحکومت سیچوان کے دارالحکومت چینگڈو کا سفر 13 گھنٹے کا ہو جائے گا جو ابھی 48 گھنٹے کا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا، چین فوجی ٹکراؤ کتنا سنگین؟

انڈیا چین تنازع، اقوام عالم کی دلچسپی

انڈیا،چین تنازع: کب کیا ہوا؟

لداخ کشیدگی: چین اور انڈیا کے درمیان فوجی مذاکرات کا چوتھا دور منگل کو

انڈیا، چین تنازع میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

کیا یہ انڈیا کے لیے پریشانی کی بات ہے؟

لنجھی کا علاقہ اروناچل پردیش کے نزدیک ہے۔ چین اروناچل پردیش کو جنوبی تبت کا حصہ سمجھتا ہے جسے انڈیا مسترد کرتا ہے۔ دلی کی جواہر لال یونیورسٹی یعنی جے این یو میں چینی امور کی پروفیسر الکا اچاریہ کا کہنا ہے کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں جس کے بارے میں انڈیا کو پہلے نہیں معلوم تھا۔

انھوں نے کہا ’دونوں ملکوں کے درمیان سرحد طے نہیں ہے اور دونوں ممالک اپنے آپ کو مضبوط بنانے کے لیے انفراسٹرکچر پر کام کر رہے ہیں۔ لہٰذا اس کی وجہ سے کشیدگی بھی بڑھی ہے۔

’انڈیا پہلے ہی یہ سب جانتا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ اس کے جواب میں انڈیا بھی سرحد کے ساتھ ساتھ اپنے بنیادی ڈھانچے پر کام کر رہا ہے۔ پچھلے سات سے آٹھ سالوں میں اس میں شدت آئی ہے۔ لیکن چین کا انفراسٹرکچر انڈیا سے کہیں زیادہ، بہتر اور مہنگا ہے۔‘

انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس سٹڈیز اینڈ انیلیسیس کے پروفیسر فونچوک استبدان کا کہنا ہے کہ جب بھی چین بنیادی ڈھانچے کو فروغ دیتا ہے تو اس میں اس کا فوجی تناظر بھی ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا ’اس کا مطلب یہ ہے کہ بنیادی ڈھانچہ بنا کر چین میزائل انڈیا کی سرحد تک لا سکتا ہے۔ پھر انھیں جوہری ہتھیاروں کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ میزائل سے بھی نشانہ لگا سکتے ہیں۔ چین کا یہ نمونہ میں نے قزاقستان، کرغزستان جیسی جگہوں پر دیکھا ہے۔

’وہ پہلے ریلوے کی تعمیر کرتے ہیں اور اس سے ان کی میزائل کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جبکہ انڈیا اور پاکستان براہ راست جوہری بموں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ چین کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی بات ہی نہیں کرتا وہ بس چاروں سمت سے گھیرتا ہے۔‘

انڈیا کو اس ریلوے پراجیکٹ کی فکر کیوں کرنی چاہیے؟

اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں انڈیا کے پانی کا ایک بہت بڑا وسیلہ دریائے برہمپتر ہے۔ ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ چین اس پانی کو اپنی جانب موڑنا چاہتا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد اس علاقے میں چینی فوج کی نقل و حرکت میں بھی اضافہ ہو گا۔ جہاں چینی فوج کو پہنچنے میں 36 گھنٹے لگتے تھے وہاں اب نو سے دس گھنٹوں میں پہنچا جا سکتا ہے یعنی تیزی سے فوج کی تعیناتی ممکن ہے۔ چینی ٹینکوں اور میزائلوں کو انڈین سرحد پر فوری طور پر لانا بھی آسان ہو جائے گا۔

چین تبت کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں مدد کر رہا ہے

جے این یو کے پروفیسر بی آر دیپک کا کہنا ہے کہ چین کئی دہائیوں سے تبت میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کا کام کر رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں ’1962 سے پہلے چین نے اپنے سیچوان صوبے سے ملحقہ مشرقی تبت میں سڑکوں کا جال بچھانا شروع کیا تھا۔ چین جانتا تھا کہ اس علاقے تک پہنچنا خطرناک تھا۔ یہ ایک پتھریلہ علاقہ ہے۔ سنہ 1951 میں جب چینی فوج تبت میں داخل ہوئی تھی تو تبتوں نے اونچی پہاڑیوں پر چڑھ کر چینی فوج پر حملہ کیا تھا۔

’تبتی فوج کے کمزور ہونے کے باوجود چینی فوج ان تک نہیں پہنچ سکی تھی۔ اسی وجہ سے انھوں نے حکمت عملی بنائی کہ سڑکیں بنا کر کس طرح سیکٹروں پر قبضہ کرنا ہے۔‘

پروفیسر دیپک کہتے ہیں کہ اس کے بعد سنہ 1957 تک چین نے اکسائی چن کی سڑک تیار کر لی تھی اور یہی ایک وجہ تھی کہ اس وقت سے انڈیا اور چین کے تعلقات خراب ہوتے جا رہے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ چین کے 13ویں پانچ سالہ منصوبے میں تبتی سرحد پر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ترجیح تھی جس کے لیے چین نے 20 ارب ڈالر کا بجٹ بھی دیا۔ لیکن شی جن پنگ جس ریلوے منصوبے کے بارے میں بات کر رہے ہیں اس کا بجٹ مختلف ہے۔

پروفیسر دیپک کہتے ہیں ’چین نے تبت سیکٹر میں 90 ہزار کلومیٹر سڑکوں کا جال بچھایا ہے۔ ایک شاہراہ تعمیر کی گئی ہے جو بیجنگ سے لہاسا تک جاتی ہے اور تین ہزار کلومیٹر کا سفر تین سے چار دن میں طے ہوتا ہے۔

انڈیا کے بنیادی ڈھانچے سے چین کو کیا مسئلہ ہے؟

پروفیسر استبدان کا کہنا ہے کہ انڈیا نے بھی پچھلے کچھ سالوں میں سرحدی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کے اپنے رکے ہوئے کام کو تیز کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے ’لداخ کے دربوک سے دولت بیگ اولڈی تک 255 کلومیٹر طویل سٹریٹجک سڑک کی تعمیر ہو رہی ہے جس پر چین نے ردِعمل ظاہر کیا اور اس کے بعد سے ہی دونوں کے درمیان کشیدگی ہے اور اس کا کوئی حل نہیں نکل رہا ہے۔

’انڈیا نئے ہوائی اڈے بنا رہا ہے، سڑکیں بھی بنا رہا ہے۔ حال ہی میں لداخ میں اٹل سرنگ کا افتتاح بھی کیا گیا تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ دولت بیگ اولڈی روڈ انڈیا کی سکیورٹی کے پیشِ نظر سٹریٹجک سڑک ہے۔ وہ ایل اے سی کے متوازی چلتی ہے جس کے ذریعے انڈین فوج کا رابطہ تبت سنکیانگ ہائی وے تک ممکن ہے۔

حالانکہ پروفیسر دیپک کا کہنا ہے کہ چین کے مقابلے میں سرحد پر انڈیا کے پراجیکٹ بہت کم ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا کے سرحدی منصوبے 60 یا 70 سے زیادہ نہیں ہوں گے اور وہ تاخیر سے چل رہے ہیں۔ کچھ منصوبے تو ایسے ہیں جن کا سروے تک نہیں کیا گیا ہے۔

’ان منصوبوں میں دو تین ریلوے لائن پراجیکٹ بھی ہیں۔ سروے 2020 تک مکمل کیے جانے تھے جو ابھی تک نہیں ہو سکے ہیں۔‘

کیا حل مشکل ہے؟

پروفیسر الکا آچاریہ کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ چین اب انڈیا کو گھیرنے کے لیے یہ کام کر رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ 1980 کی دہائی میں سٹرنگ آف پرلز کا ایک نظریہ شروع کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ چین انڈیا کو گھیرنے کی کوشش کر رہا ہے، بندرگاہیں بنا رہا ہے اور انڈیا کے ہمسایہ ممالک میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ تاہم اب اس علاقے میں چین کا پروفائل بڑھ گیا ہے۔

اب چین اور انڈیا کے مابین معاشی فاصلہ بہت زیادہ ہے۔ لہٰذا اب یہ کہنا کہ چین خاص طور پر انڈیا کو نشانہ بنا کر یہ سب کچھ کر رہا ہے بڑے تناظر میں جب آپ اسے دیکھیں گے تو ایسا لگتا نہیں۔

لیکن کیا اس جیو پولیٹیکل کھیل کا جلد ہی کوئی حل نکل سکتا ہے؟

اس پر پروفیسر استدبان کا کہنا ہے کہ ’امریکی صدارتی انتخاب ختم ہو چکا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اب یہ کشیدگی کم ہو جائے ورنہ انڈیا کو سرحدی علاقوں میں اپنے وسائل خرچ کرنے پڑیں گے۔

چین کا کہنا ہے کہ انڈیا سرحد پر تعمیراتی کام بند کرے اور اسی طرح انڈیا کا بھی یہ اصرار ہے کہ چین کو بھی اپنا کام بند کرنا چاہیے۔

اس کا حل دو طرفہ مذاکرات سے نکل سکتا ہے لیکن اس کے لیے فی الحال کوئی منصوبہ وضع نہیں کیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp