پاکستان میں نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟


کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں کریانے کی دکان کے مالک شعیب نے اپنی دکان جولائی کے مہینے میں کھولی۔ شعیب کراچی کے صنعتی ایریا سائٹ کی ایک فیکٹری میں کام کر رہے تھے جب کورونا وارئرس کی وبا نے پاکستان کا رخ کیا۔ تنخواہ اور اوور ٹائم ملا کر ماہانہ پچیس سے تیس ہزار روپے کمانے والے شعیب کی ملازمت اس وقت ختم ہو گئی جب حکومت نے کورونا وائرس کی وجہ سے ملک میں لاک ڈاؤن لگایا۔

اس سال اپریل کے مہینے میں فیکٹری بند ہونے کی وجہ سے ملازمت سے فارغ ہونے والے شعیب نے کچھ ہفتے حالات بہتر ہونے کا انتظار کیا تاہم ملازمت بحال نہ ہونے کی وجہ انھوں نے کریانے کی ایک دکان کھولنے کا فیصلہ کیا۔

تین افراد پر مشتمل خاندان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے انھوں نے اپنے پاس جمع کی ہوئی کچھ رقم اور دوستوں سے مالی مدد حاصل کر کے اپنا کاروبار شروع کیا۔

انھیں کریانہ کی دکان کھلے ہوئے تین مہینے ہی ہوئے ہیں اور ابھی آمدنی بھی کم ہے تاہم شعیب پر امید ہیں کہ آنے والے دنوں ان کا کام مزید بڑھے گا اور وہ فیکٹری سے ملنے والی تنخواہ سے زیادہ رقم اپنی دکان سے کما لیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

کروڑوں کے کاروبار جو ٹکوں میں بکے

پاکستانی نوجوان کے لیے ’اپنا کاروبار‘ کرنا کتنا مشکل ہے؟

پاکستانی نوجوانوں اور خواتین کے لیے بینک سے قرض لینا کتنا مشکل؟

کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان میں لاک ڈاؤن لگنے کی وجہ سے جب معیشت کا پہیہ رکا تو اس نے نجی شعبے میں کاروبار کو شدید متاثر کیا جس نے بیروزگاری کو جنم دیا۔ تاہم ملازمتوں سے فارغ ہونے والے بہت سے افراد نے مختلف نوع کے کاروبار شروع کر کے اپنی روزی کمانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔

پاکستان میں اسٹارٹ اپ یا اپنا کاروبار شروع کرنے والوں کی مختلف سطح ہیں۔ ان میں محدود پیمانے پرغیر دستاویز ی کاروبار کرنے والوں سے لے کر دستاویز ی طور پر کام کرنے والے شامل ہیں۔

سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں جنوری سے لے کر اکتوبر تک پندرہ ہزار سے زائد نئی کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئی ہیں۔

اگر صرف اس سال ستمبر کے مہینے میں ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ ہونے والی نئی کمپنیوں کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو گذشتہ سال ستمبر کے مقابلے میں اس میں 69 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں جہاں کورونا وائرس کی وجہ سے ملازمتوں سے فارغ ہونے والے افراد نے محدود پیمانے پر اپنا بزنس شروع کیا تو اس کے ساتھ معیشت کو سہار ا دینے کے لیے حکومتی قوانین میں نرمی اور قرضوں کی آسان شرائط پر فراہمی بھی نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن میں اضافے کا باعث بنی۔

کراچی

کورونا وائرس کے دوران کاروبار شروع اور بڑھانے کی دو کہانیاں

برطانیہ میں مقیم راسم خٹک نے ڈیڑھ ماہ پہلے پاکستان میں سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں اپنی کمپنی رجسٹرڈ کروائی۔ راسم خٹک کچھ عرصہ قبل برطانیہ میں ایک سرمایہ کاری کمپنی میں کام کر تے تھے۔

برطانیہ سے تعلیم حاصل کرنے والے راسم خٹک کی کمپنی کا نام ’بے فکر‘ ہے جس میں ان کے ایک پارٹنر بھی ہیں۔ ’بے فکر‘ رکھنے والے منفرد نام کی یہ کمپنی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی کی خدمات فراہم کرتی ہے۔

خٹک جو خود برطانیہ میں مقیم ہیں ان کے مطابق بیرون ملک پاکستانی اپنے موبائل پر ان کی کمپنی کی ایب ڈاؤن لوڈ کر کے آسانی سے جس ملک میں قیام پذیر ہیں وہیں کے بینک کے ذریعے پاکستان میں یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی کر سکتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی جب پاکستان میں اپنے گھر والوں کو رقم بھیجتے ہیں تو بعض اوقات وہ رقم جس مقصد کے لیے بھیجی جاتی ہے اس کے بجائے کسی اور مقصد کے لیے استعمال کر لی جاتی ہے۔

ان کے مطابق ان کی کمپنی کو ابھی تک ملنے والا رسپانس اچھا ہے اور وہ آنے والے وقتوں میں اپنے نیٹ ورک کو بڑھاتے ہوئے دنیا کے مختلف خطوں میں مقیم پاکستانیوں کو اپنی کمپنی کے نیٹ ورک میں لانا چا رہے ہیں۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں کام کرنے والے ’فنجا‘ نامی نان بینکنگ فنانشل ادارے کی حال ہی میں سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان میں رجسٹریشن ہوئی ہے۔ فنجا کے سربراہ قاصف شاہد کے مطابق ان کی کمپنی چھوٹے کاروباری افراد کو ڈیجیٹل کریڈٹ فراہم کرتی ہے۔

انھوں نے ڈیجیٹل کریڈٹ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا کام چھوٹے کاروباری افراد جیسے کریانہ سٹور اور اس جیسے کاروبار چلانے والے افراد کو کریڈٹ کی سہولت مہیا کرنا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ان کاروباری افراد کو ڈسٹری بیوٹرز کے ذریعے سامان فراہم کیا جاتا ہے اور اس کی ادائیگی ہمارا ادارہ کرتا ہے۔ ایک ڈیڑھ مہینے کے بعد کریانہ والے ہمیں تھوڑے سے منافع کے بعد وہ رقم واپس کر دیتے ہیں۔

قاصف نے بتایا کہ ان کی کمپنی ڈیڑھ دو سال سے کام کر رہی تھی تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے ان کے کاروبار میں بہت اضافہ ہوا، جب ملک میں لاک ڈاؤن لگا اور مارکیٹیں اور بازار بند ہو گئے تو ایسی صورت حال میں ہم نے پیداواری کمپنیوں اور ڈسٹری بیوٹرز کے ذریعے براہ راست کریانہ والوں کو سامان فراہم کیا۔

انھوں نے بتایا کہ اس صورت حال میں جب بزنس میں اضافہ ہوا تو کمپنی نے سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے بطور نان بینکنگ فنانشنل ادارے کے طور پر بھی رجسٹرڈ کروایا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ان کا نیٹ ورک اس وقت پنجاب میں نو شہروں میں کام کر رہا ہے جن میں لاہور اور اس کے گرد و نواح میں شامل شہر شامل ہیں۔

راسم خٹک کی ’بے فکر‘ اور قاصف شاہد کی ’فنجا‘ نامی کمپنیوں کی پاکستان میں کمپنیوں کی نگرانی کرنے والے ادارے سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان میں رجسٹریشن اس رجحان کو ظاہر کرتی ہے جو پاکستان میں حالیہ دنوں میں نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن کے سلسلے میں دیکھنے میں آیا ہے۔

پاکستانی کرنسی

نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن میں اضافے کی کیا وجہ ہے؟

پاکستان سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان میں نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن میں اضافے کا رجحان اس وقت دیکھنے میں آیا جب ملک میں معیشت سست روی کا شکار ہے۔

معیشت میں اس سست وری کی ایک بڑی وجہ کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والا لاک ڈاؤن اور اس کے نتیجے میں اس میں طلب میں کمی کا رجحان ہے، اس صورت حال نے ملک میں بیروزگاری میں بھی اضافہ کیا ہے۔

پاکستان سافٹ وئیر ہاؤسز ایسوسی ایشن کے قائم مقام سیکرٹری جنرل طلحہ بن افضل کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے بہت سے نئے سٹارٹ اپ کھلے ہیں جس میں خاص کر آئی ٹی کے شعبے میں بہت سی نئی کمپنیوں نے کام شروع کیا اور ان کی رجسٹریشن ہوئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والے لاک ڈاؤن نے ای کامرس اور آن لائن پلیٹ فارم کو بہت زیادہ مضبوط کیا جس میں آن لائن ٹریڈنگ کمپنیوں نے اس لاک ڈاؤن کے دوران کام کرنا شروع کیا اور آن لائن شاپنگ کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

ایس ای سی پی کے اعداد و شمار کے مطابق ستمبر میں رجسٹر ہونے والی کمپنیوں میں دوسرے نمبر پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے سے منسلک کمپنیاں شامل ہیں۔

اس حوالے سے ماہر معیشت مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ انھوں نے حال ہی میں خود ایک فنانشنل ایڈوائزی کمپنی ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ کروائی ہے۔ مزمل نے بتایا کہ کورونا کی وجہ سے معیشت کو ہونے والے نقصان کے ازالے کے لیے جب حکومت نے اقدامات اٹھائے تو اس میں ٹیکسوں میں مراعات کے ساتھ بینکوں سے آسانی سے قرض بھی مل رہا ہے جس کی وجہ سے نئی کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ نئی کمپنیاں حکومتی مراعات اور سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکیں گی جو عام حالات میں ممکن نہیں ہے تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے نئی کمپنیوں کے لیے کام کے حالات سازگار ہو چکے ہیں۔

اس حوالے سے کارپوریٹ کنسلٹنسی فراہم کرنے والے سید معصوم انظار کا کہنا ہے کہ انھوں نے حالیہ عرصے میں خود کچھ کمپنیوں کی ایس ای سی پی میں رجسٹریشن کروائی ہے۔

ان کے مطابق جہاں کورونا وائرس کی وجہ سے نئے سٹارٹ اپ نے کام شروع کیا ہے تو اس کے ساتھ حکومت کی جانب سے معیشت کی بہتری کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے باعث بھی بہت ساری کمپنیوں نے ایس ای سی پی میں رجسٹریشن کرائی۔ ان کے مطابق نے انھوں نے حال ہی میں ایک منرل واٹر کمپنی اور ایک رئیل سٹیٹ کمپنی ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ کروائی ہے۔

سٹاک ایکسچینج

کمپنیوں کی رجسٹریشن میں کتنا اضافہ ہوا؟

سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو کمپنیوں کی رجسٹریشن اضافہ کچھ مہینوں سے جاری ہے۔ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا۔

اس مالی سال جولائی کے مہینے میں گذشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن میں 26 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اگست کے مہینے میں گذشتہ سال اگست کے مقابلے میں ف5فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ستمبر کے مہینے میں ملک میں 2365 نئی کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں۔

اگر اس ماہ میں رجسٹر ڈ ہونے والی کمپنیوں کا گذشتہ سال کے اسی مہینے سے موازنہ کیا جائے تو ان کمپنیوں کی تعداد میں 69 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ان میں سے 68 فیصد کمپنیاں پرائیوٹ لمٹیڈ کمپنیوں کے طور پر رجسٹرڈ ہوئیں اور 29 فیصد سنگل ممبر کمپنیوں کے طور پر رجسٹرڈ ہوئیں۔ ماہرین کے مطابق سنگل ممبر کمپنیاں چھوٹے درجے پر کام کرنے والی کمپنیاں ہوتی ہیں۔

تجارتی شعبے میں کام کرنے والی کمپنیوں کی تعداد نئی رجسٹرڈ شدہ کمپنیوں میں سب سے زیادہ رہی اور ستمبر کے مہینے میں اس شعبے میں رجسٹرڈ ہونے والی ان کمپنیوں کی تعداد 414 رہی، تعمیراتی شعبے میں نئی رجسٹرڈ ہونے والی کمپنیوں کی تعداد 294 رہی، 289 کمپنیاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں رجسٹرڈ ہوئیں، 139کمپنیاں رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں رجسٹرڈ ہوئیں اور 87کمپنیوں نے فوڈ اور بیوریج کے شعبے میں بطور کمپنی اپنی رجسٹریشن کرائی۔ اسی طرح کچھ کمپنیوں نے دوسرے شعبوں میں بھی رجسٹریشن کرائی ہے۔

کراچی

کمپنی رجسٹریشن قوانین نے کس طرح مدد کی؟

پاکستان میں حالیہ عرصے میں نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن میں ہونے والے اضافے کو دوسری وجوہات کے علاوہ کمپنی رجسٹریشن قوانین نے بھی کافی مدد فراہم کی، سید معصوم انظار کے مطابق کمپنیوں کے رجسٹریشن کے قوانین میں نرمی اور سب سے بڑھ کر ان کی رجسٹریشن کے لیے آن لائن پلیٹ فارم نے نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن میں بھی اضافہ کیا۔

سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی ترجمان مسرت جبین نے بتایا کہ نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن میں اضافے کی وجہ ادارے میں کی جانے والی اصلاحات ہیں جس میں خاص کر آن لائن رجسٹریشن کے طریقے کو بہتر بنانا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ستمبر کے مہینے میں رجسٹرڈ ہونے والی کمپنیوں میں 99 فیصد کمپنیاں آن لائن ذریعے سے رجسٹرد ہوئیں۔

مسرت نے بتایا کہ آن لائن کمپنیوں کی رجسٹریشن نے مینوئل طریقے سے رجسٹریشن ہونے والے طریقہ کار میں موجود رکاوٹوں کو بھی دور کیا۔ اس کے ساتھ آن لائن رجسٹرڈ ہونے والی کمپنیوں کو اس لحاظ سے بھی مالی فائدہ ہے کہ ان کی رجسٹریشن فیس مینوئل طریقے سے رجسٹرڈ ہونے والی کمپنیوں کے مقابلے میں آدھی کر دی گئی۔

ترجمان نے بتایا کہ ایس ای سی پی کے دوسرے اداروں کے اشتراک کی وجہ سے اس کے ساتھ رجسٹرڈ ہونے والی کمپنی کو فوراً این ٹی این مل جاتا ہے جس کے لیے ایف بی آر اور سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے ریونیو اتھاڑٹیز سے ایک اشتراک قائم کیا گیا ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ ایس ای سی پی نے سٹارٹ اپس کے لیے ایک خصوصی پورٹل کا بھی اجرا کیا ہے جو انھیں رجسٹریشن میں سہولت فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp