پاکستان کے انڈیا پر الزامات: پاکستان کا انڈین اداروں پر دہشت گردی کے واقعات کو بڑھاوا دینے کا الزام


پاکستان، انڈیا، بابر افتخار، قریشی
کشمیر میں پاکستان اور انڈیا کے زیر انتظام علاقوں کے قریب ایل او سی پر فائرنگ اور گولہ باری کے واقعات کے ایک روز بعد پاکستان کے اعلیٰ حکام نے انڈیا پر ملک میں ’غیر مستحکم صورتحال پیدا کرنے‘ کے سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔

سنیچر کے روز اسلام آباد میں ایک پریس پریفننگ کے دوران پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے ایک ڈوزیئر (یعنی دستاویزات) کی بنیاد پر کہا کہ ان کے پاس اس بات کے ’ناقابلِ تردید شواہد‘ ہیں کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ’انڈیا اور اس کے انٹیلیجنس ادارے ملوث ہیں۔‘

ماضی میں انڈین حکام پاکستان کی جانب سے عائد کردہ اس نوعیت کے الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’نئے مکان میں تین روز ہی گزرے تھے، فائرنگ میں سب کچھ تباہ ہو گیا‘

انڈیا اور پاکستان کا ایک دوسرے پر لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی خلاف ورزی کا الزام

اروناچل کے قریب چین کا ریلوے منصوبہ انڈیا کے لیے باعث تشویش ہے؟

پاکستان نے انڈیا پر کیا الزامات لگائے ہیں؟

دفترِ خارجہ میں ایک گھنٹے کی پریس بریفنگ کے دوران وزیرِ خارجہ اور پاکستان فوج کے ترجمان نے مختلف دستاویزات کو یکجا کر کے دعویٰ کیا ہے کہ انڈیا پاکستان میں کن علاقوں اور گروہوں کے ذریعے دہشت گردی کے واقعات کو مبینہ طور پر بڑھاوا دے رہا ہے۔

واضح رہے کہ یہ بریفنگ اور اس میں لگائے گیے الزامات ایک روز پہلے لائن آف کنٹرول پر دونوں جانب سے ہونے والے حملے کے بعد سامنے آرہے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے اس موقع پر کہا کہ ’ہمیں اکثر ثبوت پیش کرنے کا کہا جاتا ہے۔ آج ہم بین الاقوامی سطح پر تمام تر ثبوت یکجا کر کے انڈیا کے عزائم کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مزید خاموش رہنا پاکستان کے مفاد میں نہ ہوگا۔ اور اس خطے کے امن اور استحکام کے مفاد میں بھی نہیں ہوگا۔‘

بریفنگ کا آغاز کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کے نتیجے میں بہت نقصان اٹھایا ہے ’جس کا اعتراف (بین الاقوامی سطح) پر کیا جاتا ہے اور اکثر نہیں بھی کیا جاتا۔‘

انھوں نے کہا کہ 2001 سے 2020 تک پاکستان میں دہشت گردی کے 130 حملے ہوئے ہیں۔ اور 83000 سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں اور 32000 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

پاکستان، انڈیا، بابر افتخار، قریشی

انھوں نے دعویٰ کیا کہ حالیہ دنوں میں پشاور اور کوئٹہ میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں بھی انڈیا ملوث ہے۔ یاد رہے کہ انڈیا کی جانب سے اس الزام کے ردعمل میں تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کو دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں 126 ارب ڈالرز کا مالی نقصان پہنچا ہے۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’انڈیا اپنی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے رہا تھا۔ جبکہ وہ گرد و نواح کے علاقوں کا بھی استعمال کرتے رہے۔‘

دوسری جانب ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے الزام عائد کیا کہ انڈیا نے ان تمام دہشت گرد تنظیموں کو فوراً سے قبول کر کے اپنا حصہ بنا لیا، جن کی جڑیں پاکستان سے اکھاڑ دی گئی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے عسکریت پسندوں کے ذریعے صوبے میں شورش پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور اب بھی جاری ہے۔ ’کراچی میں الطاف حسین کی جماعت سے منسلک عسکریت پسندوں کو اسلحہ دے کر انڈیا کی جانب سے ان گروہوں کی مالی اعانت کی جاتی رہی ہے۔‘

انڈیا نے ’دہشت گردوں کو متحد کیا‘

میجر جنرل بابر افتخار نے الزام لگایا کہ ’انڈیا تمام تر دہشت گرد گروہوں سے روابط قائم کرکے پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کا ایک مشترکہ اتحاد بنارہا ہے۔

ان میں ’قوم پرست جماعتوں سے منسلک پاکستان مخالف گروہ بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب، تحریکِ طالبان پاکستان کی جماعت الحرار اور حرکت الانصار سے اگست 2020 میں دوبارہ اتحاد بننے کے بعد انڈیا اب ان کا ایک مشترکہ اور وسیع اتحاد بنارہا ہے جس میں کالعدم کیے گئے۔ بلوچستان لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچستان رپپبلکن آرمی سے منسلک علیحدگی پسند گروہ بھی شامل ہیں۔‘

’یہ تمام (بلوچ علیحدگی پسند) گروہ وہ ہیں جو 2018 میں بننے والی بلوچ راجیے اجوئی سانگر (بی آر اے ایس) کا حصہ ہیں۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان تمام تر گروہوں کی حمایت کرنے والا اور ماسٹر پلانر ’افغانستان کے سفارتخانے میں موجود انڈین انٹیلیجنس افسر کرنل راجیش ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اس بات کی تصدیق بیشتر دیگر ثبوتوں کے علاوہ ’فارسی میں لکھے ایک خط سے ہوئی جس سے پتا چلا کہ کرنل راجیش نے ان کالعدم گروہوں کے کمانڈروں سے چار مرتبہ رابطہ کیا ہے۔ جس کے دوران کراچی، لاہور اور پشاور میں نومبر اور دسمبر کے ماہ میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوسکے۔‘

’داعشِ پاکستان‘

پاکستانی فوج کے ترجمان نے الزام عائد کیا کہ انڈیا انٹیلیجنس ایجنسی پاکستان کا دہشت گرد تنظیم داعش کے ساتھ تعلق جوڑنے کے لیے ’داعشِ پاکستان‘ کے نام سے تنظیم بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ حال ہی میں ’انڈیا سے انڈین داعش کے 30 مسلح اہلکاروں کو پاک افغان سرحد کے نزدیک موجود کیمپوں میں منتقل کیا گیا ہے۔‘

پاک چین اقتصادی راہداری کو ’ناکام بنانے کی کوشش‘

فوج کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ انڈیا نے پاک چین اقتصادی راہداری کو ناکام بنانے کے لیے 700 دہشت گردوں کے ایک گروہ کی مالی اعانت کرکے بلوچستان میں دہشت گرد حملے کرنے کا پلان بنایا ہے۔

’اس فورس کو اب تک چھ کروڑ ڈالرز دیے گئے ہیں۔‘

29 جون کو پاکستان سٹاک ایکسچینج

رواں سال کراچی میں پاکستان سٹاک ایکسچینج کی عمارت پر شدت پسندوں کے حملے کی کوشش میں چار حملہ آوروں سمیت سات افراد ہلاک ہو گئے ہیں

اسی طرح انھوں نے دعوی کیا کہ انڈیا بلوچستان میں دہشت گردوں کی مالی اعانت انسانی حقوق کی تنظیم کے ذریعے کرتا رہا ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’پیسوں کی منتقلی کے چار شواہد ملے ہیں جس میں دو کروڑ 33 لاکھ دیے گئے تھے۔ جبکہ ایک اور ثبوت سے واضح ہوا ہے کہ 50 لاکھ ڈالرز ایک قوم پرست جماعت کو بلوچستان میں شورش پیدا کرنے کے لیے دیے گئے تھے۔‘

الطاف حسین گروپ

فوج کے ترجمان نے کہا کہ ’سرفراز مرچنٹ اور طارق میر کے اعترافی بیان سے پتا چلا کہ انڈین انٹیلیجنس ایجنسی را الطاف حسین گروپ کی مالی مدد کرتا تھا۔ یہ مالی مدد دو کمپنیوں کی مدد سے ہوتی تھی جن میں جے وی جی ٹی اور پارس جیولری گروپ شامل ہیں۔ ان دونوں کمپنیوں کی طرف سے جاری کردہ 32 لاکھ ڈالر کے ثبوت فوج کے پاس موجود ہیں۔‘

دوسری جانب انھوں نے دعویٰ کیا کہ حالیہ دنوں میں دہشت گردی میں ملوث چھ گروہوں کا پتا چلا ہے جو رواں سال 29 جون کو پاکستان سٹاک ایکسچینج پر ہونے والے حملے میں ملوث ہیں۔ اور خودکش بمباری میں استعمال ہونے والے جیکٹس مختلف دہشت گردی میں ملوث گروہوں تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’را کے دو ایجنٹ عبدالوحید اور عبدالقادر سمیت چار افغان شہریوں کے بارے میں بھی فوج کو معلوم ہے۔‘

’را نے اس گروہ میں ملوث افراد کو ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے اور خودکش بمباری کرنے کے لیےدو کروڑ اور دس لاکھ پاکستانی روپے دیے ہیں۔‘

’الطاف گروپ سے منسلک ٹارگٹ کلر اور کارکن اجمل پہاڑی کے اعترافی بیان کے مطابق انڈیا نے دہشت گردی کی ٹریننگ کے لیے چار کیمپس دہرادون، ہریانہ، شمالی انڈیا اور شمال مشرق انڈیا میں بنایے ہیں۔ جہاں مبینہ طور پر دہشت گردوں کی ٹریننگ کرنے کے بعد ان کو پاکستان بھیجا جاتا ہے۔‘

گوادر پرل کانٹینینل ہوٹل پر حملہ

مئی 2019 میں عسکریت پسند گروپ بی ایل اے اور بی ایل ایف نے گوادر کے پرل کانٹینینل ہوٹل پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں چار دہشتگردوں سمیت پانچ شہری ہلاک ہوئے۔

فوجی ترجمان نے بریفنگ کے دوران دعویٰ کیا کہ یہ پلاننگ ’را کے افسر انوراگ سنگھ نے کی تھی۔ جس کے لیے را کی طرف سے انھیں کارروائی کرنے کے لیے پانچ لاکھ ڈالرز دیے گئے تھے۔‘

فوجی ترجمان، بابر افتخار

بریفنگ کے دوران بلوچ عسکریت پسند گروپ سے منسلک ڈاکٹر اللہ نذر کی آواز کی ریکارڈنگ چلائی گئی جس میں وہ مبینہ طور پر اسلم اچھو سے حملے سے منسلک باتیں کر رہے ہیں۔ جبکہ فوجی ترجمان کے مطابق اللہ نذر کے دیگر ساتھی گوادر ہوٹل پر حملے کے دوران مبینہ طور پر انڈین حملہ آوروں سے فون پر رابطے میں تھے۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان

فوجی ترجمان نے کہا کہ انڈیا گلگت بلتستان کی عارضی حیثیت کو بدلنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کی کوششوں میں جہاں مصروفِ عمل ہے وہیں 20 نومبر کے بعد گلگت بلتستان اور اس سے منسلک خطے میں بڑے اجتماعات پر حملہ کروانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

فوجی ترجمان نے کہا کہ ’اسی سے منسلک اطلاعات ہیں کہ گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں کسی بڑی مذہبی شخصیت کو قتل کرنے کا منصوبے بنایا جا رہا ہے تاکہ عوام کو مشتعل کیا جاسکے۔‘

ایف اے ٹی ایف میں انڈیا کا منفی کردار

میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یعنی ایف اے ٹی ایف کے پلانری اجلاس سے پہلے ’انڈین لابی کے پاکستان مخالف ایجنڈے کی اطلاعات‘ آ رہی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ اس دوران ’انڈیا کی پوری کوشش تھی کہ پاکستان بلیک لسٹ میں چلا جائے۔‘

’ہمارے پاس موجود ثبوت یہ بتاتے ہیں کہ کس طرح فروری سے لے کر اپریل 2018 کے دوران انڈیا نے پاکستان کے خلاف لابی کی جس کے نتیجے میں پاکستان جون 2018 میں گرے لسٹ کا حصہ بن گیا۔

اس سے پہلے بھی پاکستان کی جانب سے انڈیا پر الزامات لگائے گئے ہیں جس کی انڈیا نے تردید کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32509 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp